ColumnImtiaz Ahmad Shad

معاشرتی تباہی کی اصل وجہ .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

موجودہ دور میں ملمع سازی اپنے جوبن پر ہے۔ جھوٹ کو سچ اور غلط کو صحیح بنا کر اس مہارت سے پیش کیا جاتا ہے کہ نگاہیں حیران اور عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ لفظوں کی جادوگری اور اصطلاحاتی ارتقا کی تیزرفتاری دیکھیے کہ’’نائی‘‘ ترقی کر کے حجام بنا، پھر ہئیر ڈریسر اور آج کل باربر کہلانا پسند کرتا ہے۔اسی طرح کل کے بھانڈ اور مراثی آج اداکاروں اور پروڈیوسروں کے روپ میں قوم کے ہیرو بن گئے ہیں۔ گویا قدامت پر جدت کا خوبصورت ملفوف اوڑھا کر حقائق کو مسخ کیاجا رہا ہے۔ یہ بات اگرجائز امور تک رہتی تو کسی حد تک قابل قبول بھی تھی، لیکن جب اس کا دائرہ کار شریعت کی مسلّمات کو چھونے لگا ہے تو اس کی سنگینی تصور سے بالا تر ہے۔ ’’سود‘‘ صراحتاً حرام ہے۔ اس کی حرمت قرآن پاک سے ثابت ہے۔رسول اللہ ﷺ کے فرامین نے اس کو ہر پہلو سے واضح کر دیا ہے۔

دوسری طرف جدت کے ڈسے لوگوں نے خدا کے اس ممنوع کردہ امر کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ سود کو ریٹرن اور انٹرسٹ کے پہناوے میں اس کی شدت اور خباثت کو عوام کی نظروں میں کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ سود ہے کیا،یہ جاننا ضروری ہے۔سود یہ ہے کہ رقم کے استعمال کرنے پر اس کی ـ’موقع لاگتـ ‘ وصول کرنا، یعنی اصل رقم سے کچھ زائد رقم وصول کرنا۔ دوسرے لفظوں میں رقم کے استعمال کا کرایہ وصول کرنا، سود کہلاتا ہے۔سود آج کل دوطریقوں سے لاگو ہوتا ہے، سمپل انٹرسٹ اورکمپاونڈ انٹرسٹ ۔سمپل انٹرسٹ یہ ہے کہ سود صرف اصل رقم پر لاگو کیا جائے جبکہ کمپاونڈ انٹرسٹ یہ ہے کہ سود،اصل رقم بمع وصول شدہ سود پر لاگو کیا جائے۔ انٹرسٹ، انویسٹ، ریٹرن اور سود وغیرہ کے ناموں سے ذکر کیے جانے والے اس کاروباری دھوکے کی اسلام نے شدید حوصلہ شکنی کی ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’اے ایمان والو! کئی گنا بڑھا چڑھا کرسود مت کھائو اور اللہ تعالی سے ڈرو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔‘‘(آل عمران:130) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی مختلف مقامات پر سود کی حرمت کو واضح فرمایا ہے۔ایک حدیث میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، سود دینے والے اور سودی تحریر یا سود لکھنے والے اور شہادت دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ وہ سب لوگ(گناہ میں)برابر ہیں۔ سود نہ صرف قرآن و حدیث کی رو سے نا جائز اور حرام ہے،بلکہ اس کے مضر اثرات معاشرے میں ہر سطح پر مرتب ہوتے ہیں۔ مثلا ایک آدمی نے کسی کو ایک لاکھ روپے اس شرط پر قرض دیے کہ وہ اس پر دس ہزار روپے سود ادا کرے گا۔ اب اس آدمی نے قرض کا یہ پیسہ کاروبار میں لگایا اور بدقسمتی سے سارے کا سارا پیسہ ڈوب گیااور کاروبار ٹھپ ہو گیا۔ اب مقروض کے پاس قرض واپس کرنے کے لیے پھوٹی کوڑی بھی نہیں۔
مگر اسے وہ قرض بمع دس ہزار روپے سود بہرحال ادا کرنا ہے۔اب یہ کیسے ادا کرے گا؟چوری ڈاکے سے خود کشی تک کے سارے مراحل تصور میں لائیے۔ سود معاشرے پر ایک نہ ختم ہونے والا بوجھ ہے۔ اس موضوع پر گذشتہ دنوں بات ہورہی تھی تو چیئرمین قومی امن کمیٹی ملک ثناء اللہ نے تفصیلاً بتایا کہ کس طرح سادہ لوع انسان اس چکر میں جکڑے ہوئے ہیں،تفصیلات سن کر رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ سود ایک ایسا ناسور ہے جو معیشت کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔ عالمی معاشی بحران کی بڑی وجہ بھی سودی ذرائع معیشت کا استعمال ہے اور اس کا ادراک ہر بڑے معیشت دان کو ہے۔ بہر حال! سود کو سود کہیں یا کوئی اور نام دیں ہر صورت میں یہ حرام ہے۔ اس سے بچنا ایمان کا تقاضا ہے۔ ورنہ اگر ہم نے تھوڑے سے دنیاوی فائدے کے لیے اس لعنت کو گلے لگا لیا تو پھر قرآن و حدیث میں بیان کردہ وعیدوں کا مستحق بننے میں کوئی شبہ نہ ہو گا۔آج پاکستان کی موجودہ صورت حال جو اس قدر بھیانک شکل اختیار کر چکی ہے وہ بھی سود کا نتیجہ ہے۔حکومتیں جب قرض لیتی ہیں تو وہ سود کی شرائط پر لیا جاتا ہے۔جب قرض واپس نہیں کر پاتیں تو سود پر مزید سود لگ جاتا ہے۔آج ہم اس نظام میں اس حد تک جکڑ چکے ہیں کہ پوری قوم کا خون نچوڑ کر بھی سود کی ادائیگی ممکن نہیں رہی۔
اسلام نے معاشرے میں معاشی ناہمواری اور افرط و تفریط پیدا نہ ہونے دینے کے لیے انفاق فی سبیل اللہ، صدقات اور زکوٰۃ کی تعلیم دی ہے۔ زکوٰۃ و صدقات کو سود کے مقابلے میں اور ایک طرح سے اس کے متبادل کے طورپر پیش کیاگیاہے۔ اس میں عقلمندوں اور مومنوں کے لیے غورو فکر کا بہت سامان ہے،تاکہ مسلمانوں کی دولت چند مٹھیوںمیںبند، تجوریوں میں مقفول اور بینکوں ومالیاتی اداروں میں جاکر منجمد نہ ہوجائے۔ بلکہ سماج کے نچلے اور کمزورطبقوں تک گردش کرتی رہے۔مگر سود کے ذریعے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھالینے کی حرص میں لوگ فکسڈ ڈپازٹ کرکے اپنی فاضل دولت کو معاشرے میں گردش کرانے کے بجائے بینکوں میں منجمد کرادیتے ہیں۔ ایک سخت ضرورت مند، مصیبت زدہ پریشان حال شخص کو قرض دینے والے لوگ عموماً معاشرے میں نہیں ملتے کیوں کہ وہ سود پانے کے لیے اپنی دولت کو کہیں جمع کردیتے ہیں۔ بالواسطہ طورپر، اس طرح معاشرہ، مصیبت زدہ انسانوں کو بسااوقات سود پر قرض لینے اور سود در سود کے جال میں لمبے عرصے تک، کبھی کبھی پوری عمر، بلکہ کبھی تو اگلی نسل تک بھی پھنس جانے کے لیے مجبور کردیتاہے۔ سود اور پھر سود درسود کانظام انتہائی بے رحم ہے۔ مجبور،کمزور، غریب، بے بس اور یاپھر بے وقوف شخص اپنے خونِ حیات کے قطرے قطرے کشید کرکے سود خوروں، بینکوں اور سرمایہ داروں کے لیے دولت کی نہروں میں تبدیل کردیتاہے
۔عالمی سطح پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف یہی کام کرتاہے۔ ممالک کو زبردستی قرض لینے پر مجبور کرتاہے۔ ملکوں پر اربوں کھربوں روپے کا سود چڑھ جاتاہے، جس کی سال بہ سال ادائیگی کے لیے حکومتیں عوام پر بھاری ٹیکس لگاتی ہیں۔ عوام کا پیسہ معاشرے سے نچڑنچڑکرحکومتوں کے پاس اور حکومتوں کے ہاتھ سے یہ اربوں روپے کے سود کی ادائیگی مغربی ممالک کے خزانوں میں جاکر جمع ہو جاتا ہے جن کی پوری معیشت پر دنیا کے بڑے چھوٹے ہزاروں سود خوریہودیوں کاقبضہ و کنٹرول ہے۔ اس طرح اندرونِ معاشرہ کی ایک ایک رگ سے خون نچڑ نچڑ کر، ملکی اور عالمی سرمایہ داروں کی تحویل و تصرف میں چلا جاتا ہے ۔ بے تحاشہ بڑھتے ہوئے ٹیکس، افراط زر، بے تحاشہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، غریب اور امیر کابڑھتا ہوا طبقاتی فرق، زیادہ سے زیادہ دولت کمانے اور حرام و حلال کی فکر نہ کرنے اور کمزور معاشی حالت میں پھنسے لوگوں سے بے نیاز ہوکر بس زیادہ سے زیادہ امیر بن جانے کی حرص میں بے ایمانی، ڈکیتی، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، رشوت، غبن اور اس طرح کا ایک لمبا شیطانی چکر چلتا ہے، جس میں معاشرے کا عام آدمی پستاچلا جاتاہے اور معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔ اس کی زندہ مثال ہمارے سامنے ہمارا اپنا ہی معاشرہ ہے،جس کے بارے میں ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اسلامی معاشرہ ہے۔ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والا معاشرہ کسی صورت اسلامی نہیں اور اس سے کبھی انسانیت خوش و خرم نہیں رہ سکتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button