ColumnTajamul Hussain Hashmi

سیاسی رابطوں کی بحالی .. تجمل حسین ہاشمی

تجمل حسین ہاشمی

صحافیوں اور سیاست دانوں سے آج کل صرف ایک سوال پوچھا جا رہا ہے کہ ملک میں کیا چل رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے ۔ اگر سوال کا جواب پوچھنے والے کی مرضی کا نہ ہو تو پھر ایک لمبا چوڑا تجزیہ سننے کوملے گا۔اس وقت صحافی حضرات جن کا وی لاگ لوگ سنانا چاہتے ہیں وہ بھی زور و شور کے ساتھ خبروں کا مکسچر بنا کر ، تھوڑی رنگ بازی ملا کر پیش کر رہے ہیں ۔ صحافتی پیشہ بھی عبادت سمجھے جانے والے پیشے کی طرح تقسیم ہو چکا ہے ۔ عمران خان حکومت کے بعد اور دنیا میں کرونا کے بعد ، کیا چل رہا ہے کسی کو اس کی سمجھ نہیں آ رہی ۔

معاشی طور پر دنیا کے کمزور ممالک میں معاشی بے یقینی میں اضافہ ہوا ہے اگرچہ وہ ممالک کمزور ضرور ہیں لیکن وہاں عدل و انصاف میسر ہے، وہاں سیاست اصولوں پر ہوتی ہے، وہاں کے بھکاری بھی اصول پسند ہوتے ہیں، قانون کی بالادستی اور جھوٹ پر پکڑ ہے۔ ہمارے ملک میں تیس سال کے دوران نظام تعلیم کو دولت کی بنیاد پر تقسیم کرکے دراصل ناکام کیاگیا ہے، سرکاری سکولوں کے نظام کو تباہ کیا گیاہے اسی لیے آج 50 فیصد لوگ تعلیم سے محروم ہیں۔ مفتی آفتاب نے 2 ایکڑ زمین ایوب خان کے دور میں حکومت پاکستان کے حوالے کر دی تاکہ لوگ تعلیم حاصل کرکے ملک کا نام روشن کریں۔آج بھی سرکاری سکول اور مسجد اس کی بیٹی فریال کے نام پر موجود ہے اور آج بھی ایسے کئی ہیرے موجود ہیں جن کی قبروں پر کوئی حاضری تک نہیں دیتا ۔ ہمارے ہاں سیاست دان آسانی کے ساتھ قوم کو اپنے جادو سے مست کر لیتے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ تعلیم سے نابینا لوگ ہیں، پچھلے 40 سالوں سے جلسوں میں ایسے سہانے وعدے ، احتساب کی کہانیاں ، انصاف اور روزگار کی وقت پر فراہمی جیسے نعروں سے قوم کو مرغوب کرتے ہیں لیکن 2018 میں عمران خان نے قوم کو ایسے ایسے خوب دکھائے جو حقیقی نظر آنے لگے ۔ خان کے ان وعدوں میں بہت دم نظر آتا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ صبح اٹھیں گے تو بجلی، پانی، گیس اور روزگار آپ کی دہلیز پرہو گا،
کوئی ادارہ رشوت نہیں مانگے گااور سرکاری ملازمین وقت پر حاضر ہوکراپنی ڈیوٹی پوری کریں گے۔صاف اور شفاف انصاف ہو گا ۔ قوم کی ذہنی کیفیت ایسی ہے کہ صرف نعروں کو سن کر فیصلہ کر لیتی ہے کہ اس دفعہ فلاں پارٹی ہمارے غموں کا مداوا کرے گی۔ کبھی بھی معاشی پالیسی پر ووٹ نہیں دے گی۔ پارٹیوں کے سربراہان نے بھی جھوٹ کا ڈپلومہ کیا ہوا ہے، عوام کی رگ کا ان کو بخوبی علم ہے، لوگوں نے کبھی بھی سیاسی جماعت کی معاشی ، معاشرتی پالیسی کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیااسی لیے نعروں کی بنیاد پر ووٹ دینے کا نتیجہ معاشی تنگدستی کا باعث ہے ۔ دوسرا جب بھی نئی حکومت آتی ہے وہ تمام ناکامیوں کو پچھلی حکومت کے کھاتے میں ڈال کر وقت گزاری والے کاموں کو ترجیح دیتے ہیں۔جمہوریت حکومت میں اپوزیشن کی راضی مندی قومی فیصلوں میں ہر حال میں شامل ہوتی ہے ۔ کوئی بھی کمیٹی اس وقت تک نہیں بن سکتی جب تک اپوزیشن کے ممبرز شامل نہ ہوں ۔
جمہوریت کا حسن ہے کہ اپوزیشن کی حیثیت کو تسلیم کرناقانونی عمل ہے ۔ قومی اسمبلی میں کئے جانے والے فیصلوں کی حیثیت اپوزیشن کے بغیر کچھ بھی نہیں۔پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے الیکشن پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے ۔ لہٰذا اب حکومت کو اپنی تقریروں میں الزام تراشی بند کرنی چاہیے، اس لیے کہ اس حکومت کی اپوزیشن میں بھر پور کردار رہا تھا۔ پچھلی حکومت کو چھوڑ کر صرف اپنی اقتصادی پالیسیوں پر قوم کو آگاہ کریں اور اس مہنگائی کے جن کو قابو کریں، عمران خان ، شہباز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن اور ادارے یقین رکھیں لوگ صرف اور صرف بجلی ،گیس، پٹرول، ڈیزل، گھی، تیل، قیمتوں میں دلچسپی رکھتے ہیں جو دو مہینوں میں چوگنی ہوگئی ہیں۔
وزیر داخلہ کا اپنے ٹویٹ میں کہنا تھا کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ انتہائی مشکل تھا، انتخابات میں جانے کا فیصلہ کرتے تو ملک کے ڈیفالٹ کا خطرہ تھا۔ گذشتہ حکومت کے آئی ایم ایف سے معاہدہ پر عمل درآمد نہ کرنے سے معاشی حالات بدتر ہوئے، عام آدمی کی مشکلات سے مکمل آگاہ ہیں، عوام ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والوں کا ساتھ دے۔
لیکن جناب کی پارٹی پچھلے 40 سال سے سیاست کر رہی ہے، قوم نے تین بار وزیر اعظم منتخب کیا اور اب چوتھی باری ہے۔ میاں شہباز شریف کی پنجاب میں خدمات مثالی تھیں، پنجاب کی حکمرانی دس سال رہی ۔ وزیر اعظم کی سیٹ کے بعد ہمت والے فیصلوں کی ضرورت تھی جس میں وزیر اعظم صاحب کنفیوژن کا شکار رہے ، اب قوم کو بیانیہ، بشریٰ بی بی ،آڈیو لیکس اور فرح گوگی کے معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں، جنہوں نے لوٹ مار کی ہے ان پر قانونی مقدمات درج کریںاور جن پر پہلے سے مقدمات قائم ہیں، ان کا فیصلہ کیا جائے ۔
روزانہ ٹی وی شو پر ایک سلسلہ چل پڑتا ہے اور لوگ اپنی کارکردگی کے جھنڈے بلند کرتے ہیں لیکن جب قوم کے حالات دیکھتے ہیں تو پہلے سے زیادہ بد تر نظر آتے ہیں ۔ اداروں کی حالت پہلے سے زیادہ خراب نظر آتی ہے، منافع بخش کوئی ادارہ نظر نہیں آتا ۔ صوبوں کے حالات وفاق کے سامنے ہیں۔لا اینڈ آرڈر کی حالت بہت خراب ہے،اس وقت جو60 فیصد غریب عوام کو مہنگائی سے نجات دلا ئے گا ، عوام اس کی پوجا کریں گے، سازش اور مدا لخت والے بیانیہ سے گھروں کا نظام نہیں چلنا۔ اس لیے قومی مفاد پر بات کریں اور نعروں اور جلسوں سے کچھ نہیں ہو گا، یہاں سیاسی رابطوں سے کام چلتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button