ColumnImran Riaz

ایلیٹ کلاس کی عیاشیوں کا بوجھ عوام پر کیوں؟ .. عمران ریاض

عمران ریاض

یہ کہاں کی منطق ہے کہ قرضے کے پیسوں سے عیاشی کرے ہماری اشرافیہ اور ان ہی قرضوں کو ادا کرے اس ملک کے غریب عوام۔ جس دن عام لوگوں کو سمجھ آگئی کہ دراصل ان کے ساتھ کیاگھنائونا کھیل کھیلا جاتا ہے، اس دن ملک میں حقیقی تبدیلی آئے گی، دنیا بھر کے ممالک کی طرح پاکستان بھی ایسا ملک ہے جس کا خزانہ اس ملک کے عوام سے لیے جانے والے ٹیکس سے بھرتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں فائلر اور نان فائلر کا چکر دے کر براہ راست افرادپر ٹیکس عائد کرنے کی بجائے ان ڈائریکٹ ان سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے دنیا بھر میں ٹیکس افراد سے انکی انکم کے مطابق وصول کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان جو ان ڈائریکٹ طریقہ رائج ہے، اس کے زریعے میں دعویٰ سے کہتا ہوں عام آدمی سے اس کی انکم سے کئی گنا زیادہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے وہ کیسے میں کو بتاتا ہوں۔

ٹیکس وصولی کے لیے ایک کم از کم آمدنی کی سلیب رکھی جاتی ہے، مثال کے طور اگر آپ کی آمدنی دولاکھ روپے سالانہ یا اس سے کم ہے تو آپ سے ٹیکس وصول نہ کیا جائے اور اس سے زیادہ تو آپ کو ٹیکس دینا ہوگا اب آپ دیکھیں کہ یہاں ہر روز مرہ کی چیز پر چار چار قسم کے ٹیکسز ہیں، یعنی صابن سے لیکر ہوائی سفر کرنے والی ٹکٹ پر، چیز پر ہر آدمی سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، اس تفریق کے بغیر کے ٹیکس دینے کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں، یہاں تک ہر شخص ہر قسم کے یوٹیلیٹی بلز پر ایڈوانس ٹیکس وصولی کی جاتی ہے جس میں بجلی،گیس اور پانی وغیرہ سب شامل ہیں، ہر چیز پر سیلز ٹیکس سیل کرنے والے سے وصول نہیں کیا جاتا بلکہ سیل کرنے والا یہ خریدار کی طرف منتقل کر دیتا ہے تو اس طرح حساب لگایا جائے تو آپ کو یہ پراپیگنڈا جھوٹا نظر آئے گا کہ پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے بلکہ یہاں تو 22کروڑ کے 22کروڑ افراد ہی ٹیکس ادا کرتے ہیں، اب آگے چلیں، ٹیکس کی مد میں وصول کیے جانے والا یہ پیسہ ریاست پاکستان کو چلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،یہ پیسہ دفاع ، ترقیاتی منصوبوں، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں،ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن وغیرہ میں خرچ کیا جاتا ہے، جب ان امور کو چلانے کے لیے مطلوبہ رقم کم پڑ جائے تو کسی سے قرضے لیکر ان امور پر وہ قرض کے پیسے خرچ کیے جاتے ہیں ۔
بجٹ بنیادی طور پر ایک تخمینہ ہوتا ہے جس میں تفصیلات درج ہوتی ہیں کہ فلاں فلاں مد سے اتنا پیسہ متوقع ہے اور یہ پیسہ فلاں فلاں مد میں خرچ کیا جائے گا،اگرمتوقع اخراجات زیادہ ہوں تواسے بجٹ خسارہ کہتے ہیں جسے پورا کرنے کے لیے قرضے لیے جاتے ہیں اب ہم مختصر جائزہ لیتے ہیں کہ یہ ٹیکس کے زریعے عام آدمی سے وصول کیا گیا پیسہ اور قرض کا پیسہ خرچ کہاں ہوتا ہے۔دنیا بھر میں عوام سے ٹیکس کی مد میں لیے گئے پیسے کو امانت کے طور لیا جاتا ہے، ہر حکومت اس پیسے کے استعمال کی ایک ایک پائی کا حساب کتاب اپنے عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے، مثلاً آپ نے جو پیسہ دفاعی ضروریات کے لیے افواج پاکستان کے ادارے کو دیا ،اس کا حساب تو آپ مانگ ہی سکتے ہیں،چھوٹے سرکاری ملازمین کو تو چھوڑیں وہ تو وہی چند ہزار کی تنخواہ لیتے ہیں لیکن ہم بات کرنا چاہتے ہیں فوج، بیوروکریسی، جوڈیشری اور سیاسی حکمرانوں کی،
اس اشرافیہ کے اخراجات جو اصل وجہ ہیں ہماری معاشی بدحالی۔فوج میں کرنل کے عہدے تک تو خاص مراعات نہیں ہوتی لیکن جیسے ہی بریگیڈیئر اور جنرل کے عہدے پر پہنچتے ہیں تو مراعات کے منہ کھول دئیے جاتے ہیں، نوکروں کی تعداد بڑھا دی جاتی ہے۔زیر استعمال گاڑیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ سرکاری پٹرول میں اضافہ آپ کی رہائش کا سائز بڑھا کر دیا جاتا ہے، آپ کے زیر استعمال گھر اور دفتر کی بجلی لامحدود کردی جاتی ہے۔
ایک نظر سول بیوروکریسی پر ڈال لیں،یہاں کی اشرافیہ ڈی سی اور ایس پی بنتے ہی شروع ہو جاتی ہے ڈپٹی کمشنرجو گریڈ اٹھارہ کا افسر ہوتاہے، اس کے دفتر کو چھوڑیں انکی رہائش گاہیں ایکڑوں میں پھیلی ہوئی ہیں، پھر ان کی دیکھ بھال کے لیے درجنوں ملازمین کی فوج،گاڑیوں کی تعداد، لامحدود سرکاری پٹرول ، بجلی و گیس کے استعمال کی کوئی حد نہیں۔ شاید ہی کوئی ڈی سی یا کمشنر ایسا ہو جس کی فیملی اس کے ساتھ کسی چھوٹے ضلع میں رہائش پزیر ہوتی ہو کیونکہ ان کے بچے بڑےشہروںکے گرائمر سکولوں میں پڑھتے ہیں، ان کی رہائش بھی لاہور،اسلام آباد، کراچی ، پشاور اور کوئٹہ وغیرہ میں ہوں گی، یہ صورتحال تو میں نے آ پ کو ڈپٹی کمشنر اور کمشنر وغیرہ کی بتائی ہے لیکن جب کوئی سرکاری افسر سیکرٹری کے عہدے پرپہنچتا ہے تو اس کا پورا محکمہ ہی اس کی زاتی ملکیت بن جاتا ہے اورپھر ان کے اللے تللے کیا ہوں گے یہ آپ خود تصور کر لیں،
اسی طرح وزرا کی مراعات اتنی زیادہ ہیں کہ وہ عوامی نمائندے کم اور انگریز دور کے حکمران زیادہ لگتے ہیں،ان تمام اشرافیہ کی کل تعداد کو گنا جائے تو وہ ہزاروں میں رہتی اور لاکھ کا ہندسہ عبور نہیں کرپاتی تو یہ ہیں وہ چند ہزار افراد جو ملکی وسائل کا 80 فیصد لے جاتے ہیں مطلب یہ کہ چند ہزارپرمشتمل اس اشرافیہ کی عیاشیاں پوری کرنے کے لیے 22کروڑ عوام سے ٹیکس کی صورت میں وصول کیا گیا پیسہ اور قرضوں کی صورت میں لیا گیا ادھار خرچ ہو جاتا ہے جب تک یہ چند ہزار لوگ اپنی عیاشیاں ختم نہیں کریں گے، تب تک اس ملک کی معیشت اور عام آدمی کی حالت زار بہتر نہیں ہوگی، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ چند ہزار لوگ پورے ریاست کے وسائل پر قابض ہیں کیونکہ ہم یہ قبضہ چھڑوانہیں سکے، تو اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ ریاستی امور کے تمام فیصلے بھی یہی چند ہزار افراد ہی کرتے ہیں تو لہٰذا کون ہےجو ان پے ہاتھ ڈال سکے، جبکہ ساری فیصلہ سازی بھی یہی کرتے ہیں، اس لیے ہم اس وقت تک اس بھنور میں پھنسے رہیں گے جب تک یہ چند ہزار ہماری ریاست پر مسلط رہیں گے۔ چند ہزار لوگوں کی عیاشی کو پورا کرنے کے لیے 22کروڑ لوگ کولہو کے بیل کی طرح دن رات چلتے رہتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button