CM RizwanColumn

آئی ایم ایف پروگرام یا تقدیر کا لکھا؟ .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

چند روز قبل قومی اسمبلی نے پٹرولیم مصنوعات پر 50 روپے فی لٹر لیوی عائد کرنے کی منظوری دی تھی۔ سپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیرصدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں کثرت رائے سے فنانس بل 2022 کی منظوری کے لیے فنانس بل کی شقیں مرحلہ وار منظوری کے لئے پیش کی گئیں۔ وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے پٹرولیم مصنوعات پر50 روپے فی لٹر تک لیوی عائد کرنے کی ترمیم پیش کی، جس پر ایوان نے آئندہ مالی سال کے دوران پٹرولیم مصنوعات پر 50 روپے فی لٹر لیوی عائد کرنے کی ترمیم بھی منظور کرلی۔ اس منظوری کی ابھی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ گزشتہ دنوں لیوی کی مد میں حکومت نے فی لٹر کے حساب سے پٹرولیم مصنوعات میں مزید اضافہ کردیا۔ مہنگائی کی چکی میں پہلے سے پسے ہوئے پاکستانی عوام کا اس اضافے کے بعد کیا حال ہوگا اس کا اندازہ عوامی حلقوں کو تو بخوبی ہے لیکن نواز شریف کے ووٹ بینک کے ساتھ کیا ہوگا یہ چند روز بعد ہونے والے پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد نوازشریف اور شہباز شریف کو ضرور ہو جائے گا، جب سے موجودہ شہباز حکومت برسر اقتدار آئی ہے آئی ایم ایف سے گزشتہ حکومت کے قرض معاہدے کو تقدیر کا لکھا بتا کر عوام پر مہنگائی کا ہر ظالمانہ حربہ آزما رہی ہے۔

 

یہ بھی پڑھیے

یہاں ایک سوال ہر پاکستانی کے ذہن میں بار بار آتا ہے کہ ائی ایم ایف پروگرام پاکستان کو مزید کتنا متاثر کرے گا کیا یہ پروگرام ہی پاکستان کو سری لنکا جیسے حالات سے دوچار کرنے کے لیے کافی ہے یا پھر مزید ایک اور پروگرام بھی لینا پڑے گا اور کیا موجودہ حکومت ہی عوام کو کنگال کردے گی یا ایک اور حکومت آکر یہ کام مکمل کرے گی۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ رواں برس 11 اپریل سے لے کر جون کی 21 تاریخ تک روپے کے مقابلے میں ایک ڈالر کی قیمت میں ساڑھے 28 روپے تک کا اضافہ ہو چکا ہے۔ صرف 40 دن میں روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اس بے تحاشا اضافے نے جہاں ملک کے ذمے واجب الادا قرضوں میں 3600 ارب روپے کا اضافہ کیا ہے وہیں مقامی صارفین کے لیے تیل، گیس اور کھانے پینے کی اشیا کو بھی مہنگا کر دیا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ان چیزوں کی مقامی سطح پر ضرورت پورا کرنے کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اضافے کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے کا معاہدہ ہونے میں تاخیر کو قرار دیا جاتا ہے جس نے پاکستان کے لیے بیرونی فنڈنگ کو روک رکھا ہے۔

پاکستان اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے مسائل کا شکار ہے کیونکہ درآمدات کے لیے بیرون ملک جانے والے ڈالروں کی تعداد برآمدات اور ترسیلات زر کے ذریعے اندرون ملک آنے والے ڈالروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور آئی ایم ایف کی جانب سے 2019 میں طے پانے والے قرض پروگرام کی بحالی نہ ہونے سے بیرونی فنانسنگ مکمل طور پر رک چکی ہے۔پاکستان میں اپریل کے آغاز پر نئی حکومت کے قیام کو اب تک تین مہینے ہو چکے ہیں تاہم یہ حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ پروگرام بحال کرانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی۔

 

تاہم وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے آئی ایم ایف سے پروگرام بحال ہونے کی پیش رفت کا عندیہ دے دیا گیا ہے اور ان کے مطابق ایک دو روز میں یہ پروگرام بحال ہو جائے گا۔ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں کچھ رکاوٹیں تھیں اور ان میں سے کچھ ابھی تک موجود ہیں جن کی وجہ سے آئی ایم ایف نے یہ پروگرام بحال نہیں کیا۔ وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کا کہنا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف مثبت سمت میں بڑھ رہے ہیں اور مفتاح اسماعیل کے بیان کے مطابق اس پروگرام کی بحالی کے سلسلے میں جلد پیش رفت ہونے والی ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں معیشت اور آئی ایم ایف پروگرام سے جڑے امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی بہت ضروری ہے ورنہ پاکستان کے نئے مالی سال کے لیے پیش کردہ بجٹ میں پیش کیے جانے والے آمدنی اور اخراجات کے سارے تخمینے بیکار ثابت ہو جائیں گے۔ ان کے مطابق ابھی تک تاخیر کی وجہ سے پاکستان معاشی طور پر بے پناہ نقصان اٹھا چکا ہے اور اگر اس میں مزید تاخیر ہوئی تو پاکستان کے لیے اگلے مالی سال میں معیشت کو چلانا مشکل تر ہو جائے گا۔

 

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان سے آخر کیا چاہتا ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے جولائی 2019 میں قرض پروگرام پر معاہدہ کیا تھا جس کے تحت چھ ارب ڈالر ملنے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں تین ارب ڈالر موصول ہوئے تاہم اس سال کے شروع کے مہینوں میں پروگرام تعطل کا شکار ہوا اور پھر پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد مسلم لیگ نون کی سربراہی میں ایک مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان سے تیل و بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا جو ڈیڑھ مہینے تک تعطل کا شکار رہنے کے بعد حکومت کی جانب سے تین بار ڈیزل و پٹرول پر دی جانے والی سبسڈی کے ساتھ بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے کی صورت میں پورا کر دیا گیا۔ سبسڈی کے باوجود ابھی تک آئی ایم ایف پروگرام کے بحال نہ ہونے کے حوالے سے خبر یہ ہے کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ہم آمدنی بڑھائیں اور اخراجات کو کم کریں اور ہم یہ دونوں کام نہیں کر رہے جس کی وجہ سے پروگرام کی بحالی تعطل کا شکار رہی۔ تیل و پٹرول پر سبسڈی کے خاتمے کے بعد اب آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ہم اگلے سال کے بجٹ میں پرائمری بیلنس 150 ارب روپے رکھیں۔ یعنی ہمارے بنیادی خرچوں اور سود کی ادائیگی کے بعد ہمارے پاس 150 ارب روپے کا سرپلس ہو۔ جبکہ سابقہ ریکارڈ بتا رہا ہے کہ موجودہ مالی سال کے بجٹ میں یہ سرپلس 25 ارب روپے موجود ہونے کا کہا گیا تھا لیکن الٹا ہمارا پرائمری بجٹ کا خسارہ 650 ارب ہوگیا۔ آئی ایم ایف کا سب سے بڑا مطالبہ تو یہ ہے کہ سرپلس کے حوالے سے ضابطے کی پابندی کی جائے۔ دوسرا ان کی جانب سے پرسنل انکم ٹیکس کے ذریعے 125 ارب روپے زیادہ اکٹھے کرنے کا کہا گیا ہے۔ ظاہر ہے ہمارا سابقہ ریکارڈ ہی ہمارے مستقبل کا تعین کرے گا اور ایک سال بعد ہم کہاں کھڑے ہوں گے اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

 

موجودہ نئی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے میں تاخیر سے بھی معاشی اشاریے شدید متاثر ہوئے۔ پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ ہوا جس کی وجہ سے درآمدی مصنوعات مہنگی ہوئیں جن میں پٹرول، ڈیزل، گیس، خوردنی تیل، دالیں وغیرہ شامل ہیں جو پاکستان ملکی ضرورت کے لیے بیرون ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ اس پروگرام کی بحالی میں تاخیر کا سب سے منفی اثر روپے کی قدر پر پڑا جو اس وقت ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں 212 کی سطح پر پہنچ کر تھوڑا بہت اوپر نیچے ہو رہا ہے اور روپے کی قدر میں گراوٹ کا معیشت اور تجارت دونوں پر شدید منفی اثر ہوا۔ ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف کی فنڈنگ اپنے ساتھ دوسرے بین الاقوامی اداروں اور ملکوں سے بھی فنڈنگ لاتی ہے اور اس پروگرام میں تعطل کی وجہ سے گزشتہ دو تین مہینوں سے پاکستان میں کوئی فنڈنگ نہیں آئی جس کا منفی اثر زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑا جو اس وقت نچلی ترین سطح پر موجود ہیں۔ پاکستان ایسی صورت میں بین الاقوامی مارکیٹ میں بانڈز جاری کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہا کیونکہ ان بانڈز پر پاکستان کو 20 سے 25 فیصد سود ادا کرنا پڑتا ہے جو بہت زیادہ ہے۔علاوہ ازیں سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کی کریڈ یبلٹی کا بن گیا کیونکہ کہیں سے بھی آئی ایم ایف کے پروگرام نہ بحال ہونے کی وجہ سے فنڈنگ نہیں مل رہی کیونکہ یہ ساری فنڈنگ آئی ایم ایف پروگرام سے مشروط ہوتی ہے۔

 

پاکستان کو اگلے مالی سال میں 36 سے 37 ارب ڈالر کی بیرونی فنانسگ چاہیے اور اگر یہ پروگرام بحال نہیں ہوتا تو اس بیرونی فنڈنگ کا حصول ناممکن ہو گا جو ملک کے بجٹ اور معاشی اشاریوں کو منفی طور پر متاثر کرے گا۔ ان حالات میں ایک طرف تو آئی ایم ایف پروگرام تقدیر کا ظالم کوڑا بن کر غریب قوم پر پڑنا لازم ہوگیا ہے اور دوسری طرف قوم میں مزید مہنگائی برداشت کرنے کی سکت نہیں کیونکہ معیشت اور معاشی بدحالی کی یہ صورتحال عوام نے نہیں خواص نے پیدا کی ہے اور اس میں تمام سیاسی جماعتیں، اشرافیہ کلاس، عدلیہ کے کرتا دھرتا اور تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہیں غریب آدمی تو اس وقت بھی ہر ٹیکس پورا ادا کرتا تھا جب ڈالر اور روپیہ ہم وزن تھے اور اب بھی جبکہ پاکستان افغانستان بننے کے خطرات سے دوچار ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button