ColumnKashif Bashir Khan

میکاولی کے پرنس! .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

کارل مارکس نے کیاخوب کہا تھا کہ جس شخص نے بھوک صرف کتابوں میں پڑھی ہو اور سردی گرمی صرف کھڑکیوں سے دیکھی ہو وہ کبھی عام عوام کی نمائندگی نہیں  کرسکتا، اگر کارل مارکس کی کہی بات کی گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوتا کہ جس کے گھر میں میت پڑی ہوتی ہے،اصل دکھ کا احساس اسے ہی ہوتا ہے جبکہ باقی لوگ صرف ہمت بڑھا اور پرسہ دے سکتے ہیں۔زندگی مشکل صرف اس کی ہوتی ہے جس پر بیت رہی ہوتی ہے اور وہ اسے سہہ رہا ہوتا ہے۔کارل مارکس کے قول کو پاکستان کے موجودہ حالات اورحکومت کے وزراء اور مشیروں سمیت وزیر اعظم کے بیانات کے تناظر میں دیکھیں تو یہ ایک بڑی تلخ حقیقت دکھائی دیتی ہے کہ ان کے عوام سے ہمدردی کے دعوے کھوکھلے اور جعلی ہیں،ان حکمرانوں کا عام عوام میں سے نہ ہونا ہی سب سے بڑی خرابی کا باعث ہے۔

عوام کے پیسوں کی بدولت سونے کے برتنوں میں کھانے والے اور کمخواب اور ریشم و اطلس کے ملبوسات پہننے والے کیا جانیں کہ غربت کیا ہوتی ہے۔جس ریاست میں عوام کی اکثریت کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں وہاں ان حکمرانوں کے شاہی دسترخوان پر ایک وقت کے کھانے پر لاکھوں روپے اڑا دیئے جاتے ہیں۔عوام کے تنگی ایام کا ان اشرافیہ حکمرانوں سے کیا لینا دینا یہ تو سینکڑوں گاڑیوں کے جھرمٹ میں کروڑوں کا مہنگا پٹرول پھک کر کے اڑا دیتے ہیں۔یہ عوام کے لیے ناقابل برداشت اور ناقابل خرید مہنگے ترین پٹرول کو وحشیانہ طریقے سے پروٹوکول کے نام پر اڑانے کے بعد ہر شام کو عوام کو عوام کے دکھڑے رونے کا ڈرامہ بھی کرتے ہیں اور عوام کی بے بسی، غربت، محرومی،  ناانصافی اور ان پر ہونے والےظلم کا مذاق ان سے یکجہتی کرکے اڑاتے ہیں۔کہاں ریشم کے بسترمیں سونے والے اور سونے کے چمچ سے کھانے والے اور کہاں پاکستان کے عوام؟بھلا عوام کا مقابلہ ان حکمران اشرافیہ سے کیسے ہو سکتا ہے۔ان کا رہن سہن،کھانا پینا اور اوڑھنا بچھونا ہی مختلف ہے۔کون سی عوام کی حکومت اور کون سی عوام کے ذریعے حکومت؟
تخت و تاج کی ایک دوڑ وہوس نے حکمران طبقے کو نہ صرف اندھا کیا ہوا ہے بلکہ وہ عوام کو رعایا سمجھ کر روندتے ہی چلے جا رہے ہیں۔میکاولی کے پرنس کو حقیقت میں دیکھنا ہو تو پاکستان کے حکمرانوں کو بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔جب میکاولی نے حکمران بطورِ پرنس کا نظریہ پیش کیا تھا اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہو گا کہ پرنس کبھی اتنا عالی شان بھی ہو سکتا ہے۔موجودہ حکمرانوں کا جاہ وجلال تو مغل شہنشاہوں سے بھی زیادہ ہے اور میکاولی کا پرنس اور مغل بادشاہوں کے رعب دبدبے کو بھی شرماتا ہوا بہت ہی پیچھے چھوڑتا نظر آتا ہے۔
اب سوچنے کی بات ہے کہ اگر مغل بادشاہوں کے جاہ وجلال کو یاد کیا جائے تو ان کے نامہ اعمال میں فتوحات کے علاؤہ بہت کچھ تھا، عدل جہانگیری بھی مغلوں کے زمانے میں ہی تھا جس کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے،لیکن موجودہ حکمران جو کہ بجا طور پر میکاولی کے پرنس ہیں، کے نامہ اعمال میں کیا کچھ ہے اس کا فیصلہ قارئین کریں گے۔دریائے فرات کے کنارے کتا بھوکا مرنے پر حکمران کو سزا کی اسلامی بات تو ہم نہ ہی کریں تو اچھی بات ہے کہ پھر بات بہت دور نکل جائے گی پھر غریبوں کے لیے پناہ گاؤں کو بند کرنے اور عوام کو مفت صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے صحت کارڈ کو بند کرنے یا محدود کرنے کی بات بھی چھڑے گی۔
پھر یہ بات بھی عوام کریں گے کہ آپ تو 118 روپے لٹرپر شور مچاتے تھے کہ عوام اتنا مہنگا پٹرول کہاں سے خرید پائیں گے؟آپ تو کہتے تھے کہ 16 روپے یونٹ بجلی کے نرخ عوام سے زیادتی ہے،آج جب آپ حکمران ہیں اور میکاولی کے پرنس سے زیادہ طاقت اور حیثیت رکھتے ہیں، کیا آپ نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ آپ کی رعایا کس طرح 250 روپے کا لٹر پٹرول اور30روپے کے قریب بجلی کا یونٹ خریدے گی؟کیا غریبوں اور لاچاروں کے لیے کھولی گئی پناہ گاہوں کو بند کرنے سے پہلے آپ نےلمحہ بھر کو سوچا کہ معاشرے کے پسے ہوئے اور غریب و نادار طبقات کی ایک چھوٹی سی تعداد ان پناہ گاؤں میں دو وقت کے کھانے کے ساتھ راتیں بسر کر لیتی تھی تو آپ کا کیا جاتا تھا؟ان پناہ گاہوں کا خرچہ تو آپ کے سرکاری دسترخانوں کے چند دنوں کے خرچے سے بھی کم تھالیکن آپ تو میکاولی کے پرنس ٹھہرے۔آپ کو تو دنیا جہاں کی نعمتیں صبح تا شام کچھ خرچ کئے بغیر میسرہیں اور صحت کارڈ بند کرنے سے آپ کو کیا فرق پڑتا ہے کہ پرنس کا علاج تو مقامی علاج گاہوں میں نہیں ہوا کرتا بلکہ اِن کے قریبی لوگوں کے علاج کے لیے یورپ اور لندن کے مہنگے ہسپتال مخصوص ہیں۔
یہ لکھتے ہوئے ارسطو کی کہی بات یاد آ گئی کہ جمہوریت ایسا نظام حکومت ہے جس میں سر گنے جاتے ہیں اور چند لوگوں کو گروہ مسند اقتدار پر بیٹھ جاتا ہے اور پھر وہ عوام پر اپنی من مانی کرتے ہیں،افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ارسطو کی اس بات کو مختلف ممالک کے حکمران سینکڑوں سال غلط ثابت کرنے کے لیے عوام کی فلاح کا کام کرتے رہے لیکن ہمارے ملک کے مختلف پرنس حکمرانوں نے پچھلے قریباً چالیس سالوں میں ارسطو کی کہی بات کو نہ صرف بالکل درست ثابت کیا بلکہ اس میں کرپشن کا تڑکا لگا کر اس تعریف میں نئی جہتیں شامل کر دیں۔آج پاکستان میں عوام بیزار اور متنفر نظر آرہے ہیں، ماضی پر نظر دوڑائیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ 90 کی دہائی میں بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے چار حکومتوں کا خاتمہ بھی عوام کی بھوک ننگ اور خود کشیوں کی وجہ سے ہی ہوا تھا لیکن موجودہ حکمرانوں نے تو اصل  پرنس کا کردار ادا کیا ہے اور کارل مارکس۔ارسطو اور میکاولی کے حکمرانوں بارے کہے ہوئے تمام اوصاف اپنے میں سمو لیے ہیں۔مطلب یہ ارسطو کے بتاے ہوئے جمہوری گروہ بھی ہیں اور کارل مارکس نے جیسے کہا کہ عوام کے دکھ درد اور احساس سے عاری بھی ہیں۔
میکاولی کے پرنس تویہ ہمیشہ سے ہی تھے۔مجھے ایک درد دل پاکستانی خاتون کشف البصیر نے کل ہی میسج کیا اور کہا کہ آج پاکستان میں عزت سستی اور روٹی مہنگی ہے، سفید پوش طبقہ تباہ و برباد ہو گیا ہے۔کشف البصیر کا کہنا تھا کہ جب وہ بھوک سے بلکتے بچے اور نوجوان لڑکیوں کو سڑکوں پر کھڑا دیکھتی ہیں تو ان کا دل کٹ جاتا ہے۔بیس بچیس ہزار کمانے والوں کو اس حکومت نے زندگی درگور کر دیا ہے،انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کچھ ایسا لکھیں کہ ان ظالم’’پرنس‘‘حکمرانوں کی روح کانپ جائے۔میرا جواب تھا کہ میں تو اپنی بساط سے بڑھ کر لکھتا ہوں لیکن ان کی روحیں مردہ ہو چکی ہیں، پاکستان کے زمینی حقائق نہایت خطرناک ہو چکے اور دکھائی یہ دے رہا ہے کہ ملکی خودمختاری اور سالمیت پر سمجھوتا ہو چکا ہے۔عالمی مالیاتی ادارے سے صرف ایک یا دو ارب ڈالر حاصل کر نے کے لیے پاکستان کے 22 کروڑ سے زائد عوام کی کشتی کو بیچ سمندر میں ہچکولے کھانے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔آج پاکستان کے عوام کو سوچنا ہوگا کہ ان’’میکاولی کے پرنس‘‘ حکمرانوں نے ان کی زندگی کی کشتی جس بد ترین طوفانی معاشی بھنور میں پھنسا دی ہے اسے نکالنے کا فریضہ انہیں خود ہی سرانجام دینا ہو گا کہ’’خاموشی جرم ہے‘‘ عوام کی موجودہ ابتر ترین حالت و بے بسی پر راحت اندوری کے کہے لفظ یاد آ گئے جو عوام کو اپنی حالتیں بدلنے کے لیے پیغام بھی ہے۔
طوفانوں سے آنکھ ملاؤ!
سیلابوں پر وار کرو!
ملاؤں کا چکرچھوڑو!
تیر کر دریا پار کرو!
عوام کو عوام کش فیصلے کرنے والے حکمرانوں کو بیرونی طاقتوں کی عوام کش پالیسیوں کو للکارنا ہو گااور اپنے حقوق کے لیے لڑنا ہوگا وگرنہ موجودہ صورتحال تو پاکستان کے عوام کی کشتی کو ڈبو ہی چکی ہے اور مستقبل کی نسلوں کو بھی اداس کرتی نظر آتی ہے اس لیے یہ ظلم،بے انصافی،بے حسی اور عوام کے معاشی قتل عام پر مشتمل دریا جو اب سمندر بن چکا ہے، کو عوام کو ہی تیر کر عبور کرنا ہو گا اورمیکاولی کے پرنس حکمرانوں کو دور کہیں پیچھے اتنی دورچھوڑنا ہو گا کہ وہ پھر سے کبھی عوام کو رعایا بنا کر ان کی کشتی کو بیچ بھنور میں نہ چھوڑ سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button