Columnمحمد مبشر انوار

پس پردہ معاملات .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار
موجودہ حکومت ،گو کہ عمران خان اور پوری تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ بہت سے صحافی اور عوام کی ایک بڑی تعداد اس کو امپورٹڈ حکومت کہتی اور سمجھتی ہے،اگر حقائق پر نظر رکھیں اور غیرملکی مراسلہ کی اہمیت و قومی سلامتی کمیٹی کی رائے کو مد نظر رکھیں تو واقعتاً موجودہ حکومت امپورٹڈ حکومت کی تعریف پر پورا اترتی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ میں دفاعی اداروں کے سربراہان دو مرتبہ تصدیق کر چکے ہیں کہ حکومت کی تبدیلی میں غیر ملکی مداخلت موجود ہے لیکن وہ اسے بوجوہ سازش تسلیم کرنے سے انکاری ہیں،جبکہ مسلمہ اصول تو یہی ہے کہ مداخلت کا مرحلہ سازش کے بعد عملا ًرو پذیر ہوتاہے۔ لہٰذا اس پس منظر میں موجودہ حکومت کو امپورٹڈ کہنا یا سمجھنا کسی بھی حوالے سے غیر اخلاقی نہیں ہے، جو کارہائے نمایاں یہ حکومت سرانجام دے رہی ہے،جس طرح اقتدار حاصل کرتے ہی خود کو بھکاری سے تشبیہ دے کر بعینہ بھکاریوں کا سا طرز عمل یہ حکومت اختیار کئے ہوئے ہے،
وہ اس کے امپورٹڈ ہونے کا کافی سے زیادہ ثبوت ہے۔ عام تاثر یہ تھا کہ غیر ملکی مراسلے کے نتیجہ میں اس حکومت کو فوری طور پر غیر ملکی امداد بالخصوص آئی ایم ایف اور امریکہ سپورٹ میسر ہو گی اور یہ حکومت بہت جلد بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پا لے گی لیکن ہنوز یہ حکومت نہ مہنگائی کو کنٹرول کر پائی اور نہ ہی اس میں اتنا دم خم نظر آتا ہے کہ اپنے آقاؤں کے سامنے کھڑی ہو سکے۔دوسری طرف امداد کے نام پر مدد کرنے سے قبل غیر ملکی طاقت نہ صرف خود بلکہ حیلے بہانوںاور دیگر ذرائع سے ریاست پاکستان پر مسلسل اپنا دباؤ بڑھاتی جا رہی ہے ماسوائے یہ کہ پاکستان کو مستقبل قریب میں فیٹف کی گرے لسٹ سے نکالے جانے کا ممکنہ فیصلے آ سکتا ہے،موجودہ حکومت کو ابھی تک کوئی بھی خاطر خواہ سپورٹ میسر نہیں۔ آخر بیرونی طاقتوں کے پیش نظر ایسی کون سی شرائط ہیں کہ جن پر عملدرآمد کے لیے موجودہ حکومت کو گھٹنوں کے بل رکھا گیاہے اور یہ حکومت اپنی ناکامیوں کے باوجود، خواہش کے باوجود عام انتخابات میں جانے سے گریزاں ہے؟
مالی مسائل تو اپنی جگہ موجود ہیں ہی لیکن اس کے علاوہ بھی پس پردہ بہت سے معاملات ایسے ہیں کہ جن کا حصول موجودہ حکومت سے کیا جانا ہے،گو کہ یہ معاملات ریاست پاکستان کے لیے اتنے آسان نہیں کہ ان کو بآسانی ہضم کیا جا سکے لیکن ان طاقتوں کا دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔مالی معاملات کے حوالے سے جو قانون سازی کی جار ہی ہے،وہ اپنی جگہ انتہائی سنجیدہ نوعیت کے سوالوں کو جنم دے رہی ہے تو دوسری طرف آئی ایم ایف کی نظر ان قوانین پر موجود ہے اور آئی ایم ایف نے نیب کی موجودہ ترامیم پر نہ صرف اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے بلکہ کرپشن کے حوالے سے قوانین کو مزید مؤثر بنانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔آئی ایم ایف کی پالیسی میں اس قدر تضاد ہے کہ سر چکرا جاتا ہے کہ ایک طرف تو کٹھ پتلی حکومت بنوائی جاتی ہے،دودھ کی رکھوالی پر بلے کو تعینات کروایا جاتا ہے اور پھر یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ وہ دودھ کو دیکھے بھی ناں،یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہو سکتا ہے؟بہرکیف چند ماہ قبل تک مہنگائی مکاؤ مارچ کرنے والے ،اپ مہنگائی کی ناگزیریت پر زور دے رہے اور عالمی حالات کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں۔
عالمی حالات سے کسی بھی ذی فہم کو قطعی انکار نہیں لیکن کوئی یہ بھی تو بتائے کہ جو پالیسیاں حکومت ترتیب دے رہی ہے،اس سے مالی معاملات میں بہتری کس طرح ممکن ہے کہ فی زمانہ معاشی ترقی صد فیصد صنعتی پیداوار سے مشروط ہے اور صنعت کا پہیہ اس وقت تک چل نہیں سکتا جب تک اسے بجلی ارزاں قیمت پر مسلسل میسر نہ ہو۔یہاں تو حکمرانوں کی پالیسیاں ایسی رہی ہیں کہ ایک طرف صنعت کا مکو ٹھپنے کے لیے ،اس کی بنیادی ضرورت بجلی کو ہی اتنا مہنگا کردیا گیا ہے کہ پیداوار لاگت کا حصول ہی نا ممکن کر دیا گیا ہے اور دوسری طرف کسی زمانے میں زرعی ملک کہلانے والی ریاست ناقص پالیسیوں اور غلط منصوبہ بندی کے باعث، آج اشیائے خورو نوش درآمد کروانے پر مجبور ہے ۔ اس کے لہلاتے کھیتوں کو ایک طرف ہاؤسنگ سوسائٹیز کی نذر کردیا گیا ہے تو دوسری طرف بنجر زمین کی آباد کاری میں کوئی سنجیدہ کاوش نظر نہیں آتی اور تیسری سب سے اہم بات کہ بے تحاشہ بڑھتی آبادی کو روکنے کے لیے کوئی مناسب اقدامات نہیں کئے گئے۔بے شک رازق اللہ رب العزت کی ذات ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات اسی لیے کہا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے بلکہ قومی وسائل و مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرے۔جہاں حکومتیں اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کر رہی ہوں،وہاں عام شہری کو ان ذمہ داریوں کی پرواہ کس طرح اور کیونکر ہو سکتی ہے؟
بہرطور اگر قارئین کو یاد ہو تو گذشتہ امریکی حکومت کے آخری سال میں صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے کے لیے ابراہیم اکارڈ کا شوشہ بڑے طمطراق سے چھوڑا تھا اور خلیجی ریاستوں کو قائل؍مجبور یا ان کا بازو مڑور کران کے تعلقات اسرائیل کے ساتھ قائم کروائے تھے۔اس معاہدے کے تحت ،خلیجی ریاستوں عرب امارات ،بحرین اور غالبا کویت نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کر لیے تھے لیکن سعودی عرب نے تاحال باقاعدہ طور پر اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم نہیں کئے اور امریکی حکومت مسلسل اپنی اس کوشش میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح سعودی عرب جیسے اہم اسلامی ملک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر قائل کر لے۔ امریکی خواہش ہے کہ جیسے ہی خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم ہو جاتے ہیں تو نہ صرف خلیج میں بڑھتے ہوئے مسائل بہت حد تک کم ہو جائیں بلکہ خلیج میں امریکی موجودگی برائے نام رکھی جا سکتی ہے اور امریکہ دنیا کے دیگر خطوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے ؍رکھنے کے لیے آزاد ہو گا۔
معاملات بظاہر جس طرح دکھائی دیتے ہیں،اتنے آسان ہوتے نہیں کہ سعودی عرب اور پاکستان لازم ملزوم ہیں اور بالخصوص اسرائیل پر ان کی پالیسی ایک ہی دکھائی دیتی ہے،دونوں ریاستیں کسی بھی صورت فلسطین کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑنا چاہتی اور دوسری طرف امریکہ کی خواہش ہے کہ یہ معاملہ جلد ازجلد امریکی و اسرائیلی خواہشوں کے عین مطابق کسی پار لگے۔پاکستان کا ریاستی مؤقف اسرائیل کے حوالے سے ایک قدم اور آگے ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کو بے گھر تو بہت بعد میں کیا جبکہ بابائے قوم نے اس ریاست کے قیام پر ہی ،اس کو نہ صرف ناجائز کہا بلکہ عرب ریاستوں؍مسلم ممالک کے سینے میں خنجر پیوست کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اس ناجائز ریاست کو کبھی قبول نہیں کرے گا۔پاکستان کی موجودہ مشکلات کو اسی پس منظر میں دیکھیں تو کیا یہ حقیقت واضح نہیں ہے کہ آج پاکستان کو مشکلات میںپھنسانے والے ہی ملک کے اقتدار پر قابض ہیں؟گذشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان پر جس طرح قرضوں کا انبار بغیر سوچے سمجھے لادا گیا ہے اور پاکستان کو حلوائی کی دکان سمجھتے ہوئے نانا جی فاتحہ پڑھوائی گئی ہے،
آج پاکستان اپنے مفاد میں کوئی بھی فیصلہ کرنے کے قابل رہ گیا ہے؟اسلامی دنیا کا واحد ملک ،جس کے پاس ایک مضبوط و طاقتور فوج ہے،جس کا دفاع اس کے سیاستدانوں اور سائنسدانوں نے مل کر ناقابل تسخیربنایا ہے، موجودہ ذاتی مفادات کے اسیر سیاستدانوں اور ’’ان‘‘ سے توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کو قائم رکھا جاسکتا ہے؟دنیا کے معاملات انتہائی تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں اور دنیا بھر کے ممالک ؍ریاستیں اپنے قومی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے نئے اتحادوں میں شامل ہو رہی ہیں ،ریاستیں بیک وقت باہم برسرپیکار بھی ہیں اور معاشی معاہدوں کا حصہ بھی ہیںجبکہ پاکستان کے پاس اپنے عوام کو دینے کے لیے سوائے نت نئے ٹیکسوں کے اور کچھ بھی نہیں لیکن دوسری طرف اشرافیہ ہے کہ اس کا پیٹ بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور وہ ان حالات میں بھی اپنے لیے مسلسل مراعات حاصل کر رہی ہے۔درحقیقت پاکستان کو ان مسائل میں دھکیلنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ پاکستان کا بازو مڑور کر اس سے اسرائیل کو تسلیم کروایا جائے،اسے ناقابل تسخیر دفاعی حیثیت سے محروم کیا جا سکے ،سوال یہ ہے کہ کیا ان پس پردہ معاملات کے حصول کی خاطر موجودہ حکومت کو لایا گیا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button