ColumnImtiaz Aasi

پاک افغان تعلقات میں سردمہری .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

کئی سال پہلے ایک افغان دانشور صوبائی دارالحکومت لاہور کے سٹاف کالج میں زیر تربیت افسران کو لیکچر دے رہے تھے تو ان سے سوال کیا گیا پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں سردمہری کیوں ہے جس کے جواب میں انہوں نے کہا پاکستان افغانستان کو اپنا علاقہ سمجھتا ہے اور افغانستان کو اقتصادی طور پر اپنی Liabilityسمجھتا ہے حالانکہ پاکستان کو Administratively افغانستان کو خودمختار اور اقتصادی طور اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے۔افغان دانشور کا کہنا تھا افغانستان ایک Landlocked ملک ہے، جسے سمندر تک رسائی نہیں ہے جس کی وجہ سے اسے پاکستان پر Depend کرنا پڑتا ہے لہٰذا پاکستان افغانستان کو انتظامی طور پر خودمختار اور اقتصادی طور پر اپنی ذمہ داری سمجھے تو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مضبوط ہو سکتے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا دونوں ملکوں کے مفادات جڑے ہوئے ہیں۔افغانستان اگر پاکستان کو Strategically Excess دے دے تو کسی ملک کے لیے ہمارے ملک پر میزائل حملہ کرنا آسان نہیںہو سکتا۔ بین الاقوامی قانون کی رو سے پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے جس ملک کے ساتھ سمندر نہ ہو اسے Free Excess دینا پڑتی ہے۔اس وقت افغانستان بھارت سے اپنا درآمدی سامان ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے میرجاوا اور وہاں سے ہرات لے جاتا ہے جس پر کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے۔پاکستان سے افغانستان کو تجارتی سامان منگوانے کے لیے بہت سے روٹس ہیں۔ اگرچہ افغانستان کے معاشی حالات کے پیش نظر تجارتی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں
مگر پاکستان سے افغانستان تک تجارتی سامان لے جانے کے کئی ایک روٹ ہیں۔پہلا راستہ کراچی سے پشاور اور جلال آباد اور دوسرا راستہ کراچی سے چمن اور چمن سے قندھار ہے جب کہ ایک تیسرا راستہ جس میں صرف خشک سامان افغانستان بھیجا جا سکتا ہے وہ کوئٹہ سے بادینی اور وہاں سے افغانستان جاتا ہے ۔جب سے پاک چین اقتصادری راہداری کے منصوبہ شروع ہوا ہے اس وقت سے امریکہ اور بھارت سے کسی طور یہ بات ہضم نہیں ہو رہی ہے منصوبے کی تکمیل سے پاکستان وسطی اشیائی ملکوں کے علاوہ دیگر کئی ملکوں سے تجارت کرکے زرمبادلہ کماسکے گا۔بلوچستان میں آئے روز دھماکے اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ان دھماکوں کا مقصد چینی لوگوںکو اس عظیم الشان منصوبے پر کام کرنے سے روکنا ہے۔حق تعالیٰ کا شکر ہے چین خراب حالات کے باوجود منصوبے پر کام جاری رکھے ہوئے ہے۔اس منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد پاکستان کے لیے تجارتی راہیں وسیع تر ہو جائیں گی۔تعجب ہے
افغانستان میں طالبان کی حکومت نے خراب معاشی حالات کے باوجود حال ہی میں چار جہاز خرید لئے ہیںاور ہم ابھی تک آئی ایف ایم کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔امریکہ اور بھارت نے چین کے علاقے لداخ اور پاکستان میں گوادر پرنظریں جمائی ہوئی ہیں۔ بھارت کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے وہ پاکستان کے مقابلے میں افغانستان میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرے۔طالبان حکومت سے پہلے بھارت نے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جس میں سڑکوں کی تعمیرکے علاوہ کارخانے لگائے۔اسی دور میں بھارت نے پاکستان کی سرحد کے قریب قندھار، کابل اور جلال آباد میں قونصلر خانے کھولے تھے۔ طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت نے افغانستان سے اپنے سفارتی عملہ کو واپس بلا کر سفارت خانہ اور قونصلر خانے بند کر دیئے تھے۔حال ہی میں بھارت نے کابل میں اپنا سفارت خانہ کھول دیا جس کے لیے اپنا سفارتی عملہ تعینات کر دیا ہے۔
دراصل بھارت پاکستان، ایران ،روس اور چین کی کابل میں موجودگی میں افغانستان میں اپنا پورا عمل دخل رکھنے کا خواہاں ہے۔ کابل میں سفارت خانہ کھولنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔بھارت نے افغانستان کی طالبان حکومت سے تعلقات کو استوار کرنے کی خاطر بہت سا امدادی سامان جس میں کئی ٹن ادویات کے علاوہ گندم اور دیگرایشیاء افغانستا ن بھیجی ہیں۔جغرافیائی لحاظ سے ہمارا ملک افغانستان اور وسطی اشیائی ملکوں سے جڑا ہوا ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان اور افغانستان لازم و ملزم ہیں۔ چند سال قبل بلوچستان گوادر سے نوکنڈی تک سڑک کی تعمیر اور بلوچستان کو ا فغانستان سے سٹرک کے راستے ہرات اور اشک آباد کو ملانے کی تجویز تھی جس پر عمل درآمد نہیں ہوسکایہ منصوبہ مکمل ہو جاتا تو ہمارا ملک سٹرک کے راستے وسطی ایشیائی ملکوں کے ساتھ تجارت کر سکتا تھا۔
بظاہر پاکستان اور افغانستان کے مابین کوئی تنازعہ نہیں ۔پاکستان کئی لاکھ افغانوں کو گزشتہ چالیس سال سے اپنے ہاں پناہ دیئے ہوئے ہے۔ ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے ہمیں افغانستان کی طالبان حکومت کی اخلاقی اور مالی مدد کرنی چاہیے ۔ افغان طالبان اور تحریک طالبان میں ہم آہنگی کے پیش نظر سے ہمارا ملک طالبان حکومت کو تسلیم کرے تو تحریک طالبان کے ساتھ تنازعات ختم ہونے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ افغانستا ن کے معاشی حالات ٹھیک کرنے کے لیے یورپی ملکوں کو افغانستان کا سرمایہ واپس کرنے میں تامل نہیں کرنا چاہیے۔ افغانستان کو غیر مشروط طور پر تجارت کی خاطر گوادر کی بندرگاہ کے استعمال کی اجازت دے دینی چاہیے۔
افغانستان کے حالات میں بہتری کی صورت میں ہمیں کئی لاکھ افغان پناہ گزینوں کو وطن واپس بھیجنے میں آسانی ہو سکتی ہے ۔ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا معاملہ افغانستان میں امن وامان سے جڑا ہوا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے افغان طالبان اور تحریک طالبان نے امریکی افواج کا مقابلہ کرکے انہیں واپسی پر مجبور کیا۔افغان دانشور کا یہ کہنا درست ہے بین الاقوامی قوانین کے تحت افغانستان پاکستان کیLiabilityہے۔افغانستان کے حالات میں بہتری لانے کے لیے خطے کے تمام ملکوں کو افغانستان کی مالی امداد کرکے وہاں کے رہنے والوں کی معاشی مشکلات دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
افغانستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کو بھی بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ایک طرف کئی لاکھ افغان پناہ گزینوںکی موجودگی ہماری معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے تو دوسری طرف ہمیں تحریک طالبان پاکستان سے نبروآزما ہونا پڑا رہا ہے ۔تحریک طالبان نے وقتی طور پر جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔جہاں تک انکے مطالبات کا تعلق ہے ان میں افواج پاکستان کی سرحد سے واپسی،فاٹا کی سابقہ حیثیت کی بحالی اور تحریک طالبان کے گرفتار شدہ افراد کی رہائی ایسے مطالبات ہیں جنہیں پاکستان کے لیے پورا کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button