Editorial

 آئی ایم ایف کی پیشگی سخت شرائط

حکومت پاکستان کو آئی ایم ایف سے 7ویں اور 8ویںمشترکہ جائزے کے لیے میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیزکا مسودہ موصول ہو گیا ، جس سے ایک ارب 90 کروڑ ڈالرز کی 2قسطوں کے اجراء کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔آئی ایم ایف نے معاہدے کے مطابق 2022-23 کے بجٹ اور فنانس بل کی منظوری،کنزیومر پرائس انڈیکس پر مبنی افراط زر کے نتیجے میں مالیاتی پالیسی کو مزید سخت کرنے، بجلی کے نرخوں میں اضافےاور معاشرے کے 2کروڑ غریب ترین طبقات کے لیے ایندھن پر سبسڈی کے طریقہ کار کا تعین کرنے سمیت پیشگی شرائط سامنے رکھی ہیں۔آئی ایم ایف نے دو جائزوں 7ویں اور 8ویں جائزوں کی تکمیل کو یکجا کیا ہے جو، اب آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہیں جس کے تحت جولائی 2022 کے آخر تک پاکستان کے لیے 1.9 ارب ڈالرز کی دو قسطوں کے اجراء کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق حکومت نے منتخب 2 کروڑ افراد کو سستے پٹرول کی سبسڈی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والوں کو دو ہزار روپے کی اضافی رقم فراہم نہیں کی جائے گی کیونکہ حکومت نے اس فیول سبسڈی کے لیے 48 ارب روپے مختص کیے ہیں جو بجٹ میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مختص رقم کا حصہ ہے علاوہ ازیں آئی ایم ایف نے مانیٹری پالیسی کو مزید سخت کرنے کے لیے بھی کہا ہے۔ ٹرن ارائونڈ پاکستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےوفاقی وزیرخزانہ ومحصولات مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت اور سلامتی کو ہمیشہ اپنی سیاست پرترجیح دیں گے، ہم پاکستان کوآگے لیکرجائیں گے، ٹیکس وصولیوں کے بغیرخوداری کی باتیں لامعنی ہیں،
حکومتی اقدامات کی وجہ سے پاکستان دیوالیہ ہونے کے خطرات سے نکل گیاہے، اب ڈیفالٹ کاکوئی چانس نہیں ، حالات مشکل ہیں لیکن ہمیں ایک راہ پرچلنا ہوگا، اگرمالیاتی نظم وضبط کوبرقراررکھا توہم مشکل سے نکل جائیں گے کیونکہ کوئی بھی ملک 5 ، 5 ہزارارب کے خسارے کامتحمل نہیں ہوسکتا، اس سال جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس وصولیوں کاتناسب 8.7 فیصدہے اورپاکستان دنیا میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی کم ترین شرح والے ممالک میں شامل ہے، اسی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ہماری اصل منزل خود انحصاری ہے، بوجھ عوام کو ہی اٹھانا ہوگا، سیلز ٹیکس کا پیسہ ضائع نہیں ہونے دیں گے،سرخ فیتے، پرمٹ، این او سی اور سفارش کا کلچر اب ختم ہونا چاہیے، سبز باغ دکھانے کا قائل نہیں، 14 مہینے میں اقتصادی خوشحالی لائیں گے۔
متذکرہ کانفرنس میں وزیراعظم پاکستان اور وفاقی وزیر خزانہ نے ملک کو ڈیفالٹ کے خطرے سے بچانے اور معیشت کے لیے موجودہ حکومت کے مشکل فیصلوں پر کھل کر بات کی۔ معیشت کے مسائل اب صرف مسائل نہیں رہے بلکہ اب سنگینی کی آخری سطح تک چھو رہے ہیں اور بلامبالغہ اس میں ماضی کی حکومتوں کے فیصلوں کا عمل دخل ہے جن کی وجہ سے آج ہم دیوالیہ کے خطرات کی زد میں تھے اور قریباً قریباً اب بھی ایسے خطرات کسی نہ کسی شکل اور نام کے ساتھ موجود ہیں۔ پوری دنیا اس وقت معاشی بحرانوں سے دوچار ہے، یہ کیفیت کب تک برقرار رہے گی، کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر عالمی کساد بازاری اور بحرانوں کے ساتھ ساتھ ہماری ماضی کی غلطیاں بھی اب ناسور کی شکل میں سامنے آچکی ہیں،
ہمارے مسائل اور چیلنجز ہمیشہ ایسے رہے جنہوں نے ناصرف بحرانوں کی بنیاد رکھی بلکہ ان پر سنگینی کا لبادہ بھی چڑھایا، ہونا تو چاہیے تھا کہ معیشت کو انتہائی مضبوط بنایا جاتا، ٹیکس نیٹ میں وسعت کی جاتی اور کسی دبائو کو خاطر میں نہ لایاجاتا، بے جا ٹیکسوں کی بھرمار کی بجائے پوشیدہ سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لایاجاتا،
حکومتی آمدن کے ذرائع بڑھائے جاتے اور خسارے کے منصوبوں کا تصور بھی نہ کیا جاتا مگر بدقسمتی سے ماضی کی ڈنگ ٹپائو پالیسی اور نمائشی منصوبوں نے ملک کو معاشی لحاظ سے کھوکھلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ہر آنے والی حکومت نے مقابلے میں ایسے ہی منصوبے دیئے جو قومی خزانے میں آمدن بڑھانے کی بجائے قومی خزانے پر بوجھ بنتے گئے، ہم نے عالمی برادری سے اچھے اوصاف سیکھنے پر کبھی توجہ ہی نہیں دی بلکہ اندرونی مسائل میں ہی اُلجھے رہی، جو ٹیکس دیتا تھا اُسی پر بوجھ لادا جاتا رہا اور جو نہیں دیتا تھا اُس کے دبائو میں آکر کسی حکومت نے جرأت ہی نہیں کہ وہ ان سے ٹیکس وصول کرے ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہماری انڈسٹری ہمسایہ ممالک میں منتقل ہورہی ہے کیونکہ ٹیکسوں کی بھرمار اور توانائی کے مہنگے ترین ذرائع کے ساتھ انڈسٹری کا پہیہ چلانا قطعی ممکن نہیں ہوتا،
جن ممالک کی معیشت آج آسمان سے باتیں کررہی ہے انہوں نے انڈسٹری اور پیداواری شعبے کو ہی وسعت اور آسانیاں دے کر یہ مقام حاصل کیا ہے، المیہ کہ ماضی میں سستی توانائی کے ذرائع کی طرف توجہ نہیں دی گئی اور ہمیشہ سیاست آڑے آتی رہی، یہی وجہ ہے کہ آج مہنگے ترین ایندھن سے ہم انڈسٹری کو فروغ دے کر برآمدات بڑھانے کی باتیں تو کررہے ہیں لیکن عملاً یہ ممکن نہیں، کیونکہ بجلی، پیٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں بتدریج اضافے کے نتیجے میں پیداواری لاگت ہر نئے اعلان کے ساتھ بڑھ رہی ہے، اب پھر شنید ہے کہ پٹرولیم مصنوعات پر لیوی بڑھائی جارہی ہے جس کے نتیجے میں عوام اور انڈسٹری ایک بار پھر مشکلات کا شکار ہوں گے، مہنگائی کا طوفان بھی اُٹھے گا ،
مقامی انڈسٹری کی مصنوعات بھی مہنگی ہوں گی اور یقیناً یقیناً برآمدات پر بھی اِس کے منفی اثرات پڑیں گے کیونکہ عالمی منڈی میں کوالٹی کے ساتھ قیمت کو بھی مدنظر رکھاجاتا ہے ۔ آج ہمارے ہمسایہ ممالک ترقی کی دوڑ میں ہم سے کہیں زیادہ آگے ہی اسی لیے ہیں کہ وہاں پر انفرادی کی بجائے اجتماعی اور قومی مفادات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ آج ہم غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے بھی دبے ہوئے ہیں اور ایک ایک قدم چلنے کے لیے ہمیں غیر ملکی قرضوں کی ضرورت ہے اور یہ قرض بھی بالآخر قوم نے اُتارنے ہیں جو غلطیاں ماضی میں ہمارے منتخب نمائندوں کی آج ہم اُن کی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آنے والے دنوں کی جن سختیوں کی ابھی سے نوید سنائی جارہی ہے اِس میں عوام کی مشکلات کو ضرور مدنظر رکھا جائے جو اب مزید معاشی بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہے اور برملا شکوہ کناں بھی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button