Ahmad NaveedColumn

گڑھے میں پھنسی قوم .. احمد نوید

احمد نوید
انسان بہت دلچسپ اور عجیب و غریب عادات اور خوبیوں سے مل کر بنا ہے ۔ گزشتہ دنوں میرے ایک عزیز کی کار سڑک کے کنارے گڑھے میں اس طرح پھنس گئی کہ ہم پانچ افراد اُسے نکالنے کی کئی دن بھی کوشش کر تے رہتے تو اُسے باہر نہ نکال پاتے۔
رات بارہ بجے کا وقت تھااور ہمیں اندازہ ہو گیا کہ گاڑی کے دونوں ٹائر بُری طرح گڑھے میں دھنس چکے ہیں ، اب اِسے نکالنا اتناآسان نہیں۔ہم بے بس تھے مگر کوشش کرتے رہے ۔ اسی دوران اچانک دو نوجوان موٹر سائیکل پرہمارے قریب آکر رکے ۔ تب ایک سبزی کی ریڑھی والا بھی آگیا جو غالباً سبزی فروخت کر کے گھر لوٹ رہا تھا۔ اسی لمحے دو راہ گیر بھی وہاں پہنچ گئے ۔ اب مین پاور پانچ کی جگہ دس افراد پر مشتمل تھی ۔ اُن سب مدد گاروں نے مل کر گاڑی کو گڑھے سے ایسے باآسانی نکال دیا جیسے وہ کسی بچے کی ہلکی پھلکی کار ہو ۔ گاڑی کو سٹارٹ کر کے ہم نے اُسے ایک طرف کھڑا کیا اور میں نے جب خاص طور پر اُن نوجوان مدد گار وں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے  پلٹ کر دیکھا تو وہ سب بغیر شکریہ قبول کئے جا چکے تھے۔
اس واقعے نے مجھے کئی سبق دئیے اور میں رات گئے دیر تک سوچتا رہا کہ مصیبت میں پھنسے لوگوں کیلئے مدد کیا درجہ رکھتی ہے ۔ دوسرا اہم پہلو ذہن کو سوچنے پر مجبور کر تا رہا کہ ہم مجموعی طور پر اچھی قوم ہیں مگر ہمیں کوئی رہنما میسر نہیں ۔ اُس رات میں نے دیکھا ہم جراـت مند ہیں۔
نڈر ہیں، راہ چلتے افراد کی مدد کے لیے فوراً تیار ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے پاس ہمت ہے ۔ اچھائی کا جذبہ ہے ۔ ہم جلدی گھبراتے نہیں ۔ ہم وقت آنے پر اتفاق اور اتحاد دکھاتے ہیں۔ہم رضا کارانہ خدمات سے کبھی منہ نہیں موڑتے ۔
اتنی دلچسپ خوبیوں کے باوجود ایسی کیا وجہ ہے کہ ہم ترقی نہیں کر پا رہے ۔ ہمارے اندر قابلیت بھی ہے مگر ہم اپنی وہ قابلیت اور ذہانت پاکستان کے جعلی نوٹ ڈیزائن کرنے میں لگا رہے ہیں ۔ ٹریفک کا نسٹبل سڑک کے کس کس چوک میں کھڑا ہے اور ہم نے بغیر ہیلمٹ کے اُس سے کیسے بچنا ہے ، اُسے کیسے چکما دینا ہے ۔ ہماری توجہ کا مرکز ایسی چیزیں کیوں ہیں۔ہم اپنا نہایت قیمتی وقت نہایت فضول اور بے کار کے کاموں میں صرف کر دیتے ہیں اور ہمیں ذرا ملال نہیں ہوتا۔
مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک گمراہ قوم ہیں ۔ ہمارے روئیے دوسروں کے ساتھ مثبت ہیں مگر خود اپنے ساتھ منفی ۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں اپنی غلطیوں کا احساس ہی نہیں۔
ایک بے مقصد زندگی گزارنا بھی کسی گناہ سے کم نہیں ۔ہماری قوم کا المیہ ہی ہے کہ ہم کسی بھی خاص اور مقصد سے بھرپور سمت کی طرف گامزن ہیں نہ جدوجہد کر رہے ہیں۔ ذرا سوچیں وہ نوجوان جو بغیر مقصد کے زندگی گزار رہے ہیں کیا وہ اپنے والدین ، اس معاشرے اور ملک پر بوجھ نہیں ۔ پاکستان اپنا بوجھ اُٹھانے کے قابل نہیں ہے جبکہ اس کے سینے پر کروڑوں بے روزگار اور خاص طور پر کسی صلاحیت اور قابلیت سے محروم نوجوانوں کا بوجھ ہے ۔ لہٰذا اس لیے میں نے ابتدا میں کہا تھا کہ ہم ایک گمراہ قوم ہیں، کیونکہ ایسے کروڑوں نوجوان جب ہنر سیکھ کر کسی قابل ہونگے تو وہ صرف اپنے کنبے کی خوشحالی اور ترقی میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں ابھی اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔
زندگی کی رہنمائی ایک مقصد کے تحت کی جانی چاہیے۔جن افراد کے پاس مقاصد ہوں ، وہ اُن کے حصول اور تکمیل کے لیے خواب دیکھتے ہیں ، کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے لوگ زندہ دل ہوتے ہیں۔خوش مزاج پُر جوش اور اچھی سوچوں کے مالک ۔ اُس رات ایک کار کو گڑھے نے نکالنے کے مقصد نے کچھ دیر کے لیے ایک ایسی ٹیم تشکیل دی تھی جو پر جوش تھی ۔جس نے اپنا پورا زور چند لمحوں کیلئے بھرپور فوکسڈ ہو کر ایک کام پر لگایا اور چند ہی لمحوں میں کامیابی سے ہمکنار ہوگئی۔
ایس فوکسڈ ٹیم مجموعی طور پر ہر قوم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ لوگ یا ایسے افراد اپنے شعبوں میں کار ہائے نمایاں سر انجام دیتے ہیں ۔ یہ دوسرے اور بے مقصد افراد کی نسبت کہیں زیادہ مطمئن ہوتے ہیں ۔ کیونکہ یہ افراد ایک متوازن شخصیت کے مالک ہوتے ہیں ۔ دوسری جانب وہ افرادجو بیکار یا بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں ۔ انہوں نے در حقیقت خود کوایک جیل میں قید کر لیا ہے ۔ وہ کچھ بھی ایسا کرنے سے محروم ہیں ، جو دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے ۔ ہمارے نوجوانوں کو اس بے مقصد زندگی کی جیل سے آزادی حاصل کرنے کیلئے سوچنے کی ضرورت ہے ۔ اُنہیں اپنی زندگیوں پر غور کر نے کی ضرورت ہے ۔ بے مقصد یت کسی بھی انسان کو خوف زدہ کرنے کیلئے کافی ہے ۔
یہ ایک خطرناک احساس ہے اگر کوئی سمجھ سکے۔ اتنی بور اور تلخ زندگی سے موت کہیں بہتر ہے ۔
میرے نوجوانوں کو سوچنا ہوگا کہ اگر وہ کسی پہاڑ پر چڑھ رہے ہوں ۔ اُن کا مقصد کتنا بلند ہوگا۔ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر آسمان کے قریب پہنچنے اور اُسے چھونے کا احساس صرف وہی شخص تجربہ کر سکتا ہے جو عملی طور پر اس کارنامے کو سرانجام دیتا ہے ۔ اس کامیابی ، جیت اورتفاخر کا احساس اور تجربہ زمین پر کھڑے شخص کو ہر گزنہیں ہوگا۔ وہ فوجی جو اپنی ٹریننگ کے دوران اپنے ٹارگٹ کو گولی کے نشانے سے حاصل کرنے کا تجربہ کرتے ہیں وہ تجربہ اور مہارت اُنہیں دوسروں سے ممتاز بناتا ہے ۔
صد افسوس کہ ہم خود کو تباہ کر رہے ہیں ، ہمارے نوجوان خود کو ضائع کر رہے ہیں ۔ بحیثیت قوم ہماری مصروفیات تعمیری اور مثبت نہیں۔ ہم اپنے وقتوں کا بیشتر حصہ فضول اور غیر اخلاقی سرگرمیوں پر صرف کر رہے ہیں۔ ہماری ترجیحات ، ہماری سوچیں ، ہمارے رجحان ، ہمارا فکراور تدبر پانی میں برف کی طرف گھل رہا ہے ۔ ہمارے تعلیمی نظام میں اگر بہت تبدیلیوں کی ضرورت ہے تو ہمارے گھروں میں بھی والدین کو یہ فکر کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے آج کے بچے ، نوجوان فراغت میں مصروف اپنا اپنی زندگیوں کا ناقابل تلافی نقصان کر رہے ہیں۔
اُس رات ایک کار گڑھے میں پھنسی تھی جس کیلئے ہم دس افراد اس قدر پریشان ہوگئے تھے کہ ہم نے بلا تاخیر اُسے فورا ً سے پہلے گڑھے سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچایا۔ ذرا سوچیں یہاں تو پوری نوجوان نسل اور ہمارے کم سن اور نو عمر بچے جن کی تعداد کل آبادی کاآدھا حصہ ہے وہ بے مقصد یت کے گہرے گڑھے میں دھنس چکا ہے اور اُسے نکالنے کیلئے قوم کیلئے دانشور ، اساتذہ ، سیاست دان ، لکھاری ، وکلاء اور دیگر ذمہ داران چنداں پریشان اور فکر مند ہیں۔
خدا ہم سب کے حال پر رحم فرمائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button