Columnمحمد مبشر انوار

 آئی ایم ایف کی پیشگی سخت شرائط

ضمنی انتخاب .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار
پاکستان میں اولاً تو انتخابات کا تسلسل ہی قائم نہیں رہا اور دوئم یہ کہ یہاں انتخابات کی تاریخ کوئی اتنی تابناک یا قابل ستائش کبھی بھی نہیں رہی کہ اس پر بحیثیت پاکستانی قوم ہم فخر کر سکیں۔ ابتداء میں ہی یہاں افسر شاہی اقتدار کی غلام گردشوں میں سازشیں کرتی نظر آتی ہے تو بتدریج یہ ملک آمریت کے شکنجوں میں پھڑپھڑاتا نظر آتا ہے کہ جس میں انتخابات کاڈول اگر بہ امر مجبوری ڈالا بھی گیا تو اس کی شفافیت ہمیشہ ہی مشکوک رہی۔ انتخابات میں دھونس،دھاندلی اور جبر کی تاریخ کی ابتداء ،ایوب دور میں ہونے والے صدارتی انتخاب سے شروع ہوتی ہے جوہنوز جاری و ساری ہے،کہ ایوب دور میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں تحریک پاکستان کی قد آور شخصیت اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف اس قدر غلیظ انتخابی مہم چلائی گئی کہ پاکستان بنانے والی شخصیات کو ہی غدار وطن ٹھہرا دیا گیا، کردار کشی ایسی کہ الامان الحفیظ۔ اس پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ انتخابات کو اس طرح قابو کیا گیا کہ نہ صرف پولنگ بلکہ بعد از پولنگ بھی ایوب خان کی کامیابی کو یقینی بنایا گیا،ریاستی مشینری اور حلقہ انتخاب (بی ڈی ممبرز) میں ایسے لوگ شامل کئے گئے،جن کی وفاداری بہر صورت ایوب خان کے ساتھ مسلمہ رہی۔
اپنی وفاداری کو ثابت کرنے کے لیے یہ بی ڈی ممبرز کس حد تک گرے،وہ سب تاریخ کا حصہ ہے اور آج بھی ان کی نسلیں اس ملک پر قابض اورصاحب اقتدار ہیں۔ یہ رویہ ہماری قوم کی نفسیات کو آشکار کرنے کے لیے کافی ہے کہ اقتدار کی خاطر یہ کس حد تک جا سکتے ہیں،کس حد تک گر سکتے ہیں اور کس قدر غلاظت میں ڈوب سکتے ہیں۔بعد ازاں کی انتخابی تاریخ میں یحییٰ خان کے دور میں ہونے والے انتخابات ہیں جس میں ملک واضح طور پر دو حصوں میں منقسم نظر آتا ہے ،جس کی بنیاد آمروں کا وہ تضحیک آمیز رویہ ہے جس نے مشرقی پاکستان کے عوام کو وفاق سے متنفر کیا تو دوسری طرف اس وقت بھٹو اپنے قد سے زیادہ کے طلب گار نظر آئے اور یو ں انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے سے ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔تسلیم کہ اس سارے عمل میں بیرونی سازشیں اور ہاتھ ملوث رہا اور اس تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے ہمہ جہت وار کئے گئے تا کہ کسی بھی طرح دونوں حصے کسی ایک بات پر متفق نہ ہونے پائیں۔
بہر طوراس کاری وار کے بعد ملک میں ضیاء الحق کا ایک طویل اور سخت ترین مارشل لاء رہا جس میں پاکستانی جمہوریت مسلسل پستی رہی،بلبلاتی رہی ، جاں کنی کے عالم میںسانسوں کی بھیک مانگتی رہی،یہ سیاسی جماعتوں کا دباؤ تھا یا عالمی کہ جنرل ضیاء کو بالآخر جمہوریت کی طرف آنا پڑا۔شیر کے منہ کو خون لگنے والی بات کہیں ،ناگزیریت کا خناس کہیں یا عاقبت کا خوف کہیں،جنرل ضیاء نے جمہوریت کے مسلمہ اصولوں سے روگردانی کرتے ہوئے غیر جماعتی انتخابات کا اعلان کیا اور اس کے نتیجہ میں بننے والی حکومت کو چھڑی کے زور پر چلانے کی حکمت عملی اپنائی۔ انسان کی اپنی سوچ، اپنے فیصلے ہیں لیکن قدرت کے فیصلوں کے سامنے انسان کی حیثیت کچھ بھی نہیںاور یہی معاملہ جنرل ضیاء کے ساتھ پیش آیا کہ اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے مرنجاں مرنج وزیراعظم محمد خان جونیجو نے پہلی ملاقات میں ہی مارشل لاء اٹھانے کا مطالبہ کردیا۔یوں جنرل ضیاء کو اپنی ہی بچھائی ہوئی بساط پر ایک زوردار جھٹکا لگا لیکن جنرل ضیاء اس جمہوری نظام کی مشکیں پہلے ہی کس چکے تھے اور محمد خان جونیجو ایک سیاسی کارکن ہونے کے باوجود اس بساط پر زیادہ عرصہ نہ چل سکے۔غیر جماعتی انتخابات کے نتیجہ میں جنرل ضیاء کو بہرطور ایسی قیادت ضرور میسر ہو گئی،
جو اس کے اشارہ ابرو پر کچھ بھی کرنے کے لیے تیار نظر آئی،جس کے متعلق شیخ رشید آج بھی کہتے ہیں کہ موجودہ سیاسی قیادت کی اکثریت گیٹ نمبر چار کی پیداوار ہے اور ان سے جمہوری روئیے کی توقع کرنا یا ملکی و قومی مفاد میں فیصلوں کی توقع کرنا عبث ہے۔اقتدار کی سانپ سیڑھی کا یہ کھیل ہنوز جاری ہے اور غیر جماعتی انتخابات کی جمہوری لیکن آمرانہ روش کی قیادت اس وقت سیاسی منظر نامہ پر بخوبی دیکھی جا سکتی ہے جس کا مطمع نظر صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہے اور اس کی خاطر وہ کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتی۔
غیر جماعتی انتخابات کے نتیجہ میں ابھرنے والی غیر سیاسی قیادت نے اقتدار میں اپنے قدم جمانے کے لیے اس ملک کی ریاستی مشینری کو ذاتی ملازم بنانے کے عمل پر شروع ہو گئے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ریاستی مشینری کی اکثریت دو خاندانوں کی وفادار نظر آتی ہے۔ بہرطور اس سارے پس منظر میں یہ تو روزروشن کی طرح عیاں رہا ہے کہ پاکستان میں سیاسی عمل جمود کا شکار رہا ہے اور اس نظام میں اس سے بدبو کے بھبکے مسلسل نکلتے رہے ہیں ،انتخابی عمل کبھی بھی شفاف نہیں رہا اور ہر انتخاب کے بعد یہ ایسے محسوس ہوا ہے کہ سب کچھ طے شدہ پروگرام کے مطابق ہو رہا ہے۔ جبکہ اس بظاہر جمہوری ادوار میں ضمنی انتخابات کا قصہ بھی عجب ہے کہ تمام تر مسائل کے باوجود خال ہی ایسا ہوا کہ حکومت نے کوئی ضمنی انتخاب ہارا ہوماسوائے پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کہ جو پنجاب میں صرف ایک ضمنی انتخاب جیت پائی ہو۔ یہ حکومتی کارکردگی تھی ،حکومتی نااہلی تھی ،
انتخابی سیاست سے نابلد تھے یا پس پردہ کچھ اور تھا ،کہ پی ٹی آئی اپنے دوراقتدار میں ضمنی انتخابات میں قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی؟حکومت میں رہتے ہوئے تو پی ٹی آئی عوام میں بری طرح غیرمقبول دکھائی دی لیکن جس طریقہ سے پی ٹی آئی کو حکومت سے نکالا گیا،اس نے پی ٹی آئی کی مقبولیت کو چارچاند لگا دئیے ہیں اور عوامی مقبولیت میں اس وقت تحریک انصاف ہوا کے گھوڑے پر سوار دیگر سیاسی جماعتوں سے کوسوں میل آگے دکھائی دیتی ہے لیکن کیا اس مقبولیت کے برتے پر تحریک انصاف ضمنی انتخابات میں کامیاب بھی ہو سکے گی؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب، پاکستان جیسے ملک میں،انتخابی نتائج نکلنے تک دینا قریباً ناممکن ہے کہ یہاں کس وقت کیا ہو جائے، کسی کو کچھ خبر نہیں ۔تحریک انصاف نے حکومت گرنے کے بعد اپنے تئیں بہت سمارٹ سیاست کی ہے اور قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کے بعد،عام تاثر یہ تھا کہ پنجاب اسمبلی اور کے پی اسمبلی سے بھی تحریک انصاف کے اراکین مستعفی ہو جاتے تو ممکنہ طور پر حکومت کو عام انتخابات کا ڈول ڈالنا پڑتا اور یوں تحریک انصاف اپنے عام انتخابات کے حصول میں کامیاب ہو جاتی
لیکن یہ کہنا جتنا آسان ہے،اس کا حصول اتنا آسان نہیں۔اس لیے تحریک انصاف اپنی سیاسی لڑائی پنجاب میں لڑ رہی ہے اور اس کے لیے تمام تر قانونی حربے بروئے کار لارہی ہے تا کہ کسی طرح حمزہ شہباز کی حکومت کو گرایا جا سکے۔  لیکن کیا کیا جائے کہ یہاں اقتدار کا حصول ہی سب کچھ ہے اور حمزہ کے والد گرامی تو نہ صرف وزارت اعلیٰ سٹے آرڈر پر گذار چکے ہیں بلکہ اس وقت وزیراعظم کا عہدہ بھی متعلقہ عدالتوں سے ضمانت پررہائی میں گذار ہے ہیں۔لیکن لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف الیکشن کمیشن؍حکومت پنجاب اپیل میں جا چکی ہے جس کا واحد مقصد یہی ہے کہ کسی بھی طریقے سے پنجاب کے اقتدار پر اپنی گرفت قائم رکھی جائے۔حمزہ شہباز اور نون لیگ کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ جیسے ہی پنجاب کی حکومت ان کے ہاتھ سے جاتی ہے تووفاق میں بھی حکومت قائم رکھنا نا ممکن ہو گا لہٰذا اگلے عام انتخابات تک یہاں اپنی گرفت رکھنا ،مجبوری ہے ۔
پنجاب میں اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے حمزہ شہباز کے لیے ضروری ہے کہ متوقع ضمنی انتخابات میں کم از کم اٹھارہ نشستوں سے کامیابی حاصل کریں،جس کے متعلق شاہ محمود قریشی کہہ چکے ہیں کہ الیکشن کمیشن حمزہ شہباز کو مطلوبہ نشستیں فراہم کرنے کے لیے مستعد نظر آتا ہے اور ان حلقوں میں تحریک انصاف کے ووٹرز کو دوردراز جگہوں پر رجسٹر کر کے قبل از انتخاب ہی نہ صرف دھاندلی بلکہ ووٹ کو عزت دینا شروع کر دی گئی ہے۔ووٹ کی عزت کا اندازہ تواس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ منحرف اراکین کو نون کا ٹکٹ ہی نہیں دیا گیا بلکہ ان کی انتخابی مہم کا نگران بھی مریم نواز کو بنادیا گیا ہے،نجانے ہمارے سیاستدان کب اس دہری پالیسی سے باز آئیں گے۔
دوسری طرف عوامی سیاست پر نظر دوڑائیں تو اس وقت تحریک انصاف کاووٹر پوری ایمانداری کے ساتھ قیادت؍ عمران خان کے ساتھ کھڑا ہے اور عمران خان بذات خود ایک طرف اس خواہش کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ اقتدار میں عوامی حمایت کے ساتھ واپس آئیں گے تو دوسری طرف اس تلخ حقیقت کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جنہوں نے نکالا ہے،وہ انہیں دوبارہ نہیں آنے دیں گے۔عوام حلقوں میں منحرف اراکین کا استقبال کر رہے ہیں،اس سے واضح ہے کہ ان کے لیے اپنی نشستیں جیتنا کاروارد ہے لیکن انتخابی جادوگری سے تحریک انصاف ناواقف ہے جبکہ اس کے مخالفین کی ساری زندگی اس میں مہارت حاصل کرتے گذری ہے، ضمنی انتخابات عوامی سطح پر تحریک انصاف جیتتی نظر آتی ہے لیکن ریاستی سطح پر اس کا نتیجہ آناابھی باقی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button