ColumnNasir Sherazi

صرف چوبیس گھنٹے! (2) .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

حُسن ِ رن اور حُسن ِ ذن سے بہت سے بگڑے کام بنتے دیکھے، شاید یہی وجہ ہے کہ کاروباری و سیاسی شخصیات میں دو دو کرنے کا رواج عام ہوا لیکن یہ کرشمہ دوسری کا ہوتا ہے، پہلی کے ذمے تو گھر اور بچوں کو سنبھالنا ہوتا ہے، یہ شوق رکھنے والے اپنے دفاع میں مصرعہ پیش کرتے نظر آتے ہیں، وجود ِ ذن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ، گویا جتنی یادہ ذن اتنے زیادہ رنگ، میں آج بات حُسن ِ طن سے شروع کرنا چاہتا ہوں، فرض کرلیجئے وہ ریاست مدینہ بن گئی جس کا خان نے ارادہ ظاہر کیا تھا، اب ذرا تصور کریں خان فیصل مسجد کے وسیع و عریض صحن میں بیٹھا ہے، ملک کے طول و عرض سے اُس کی بیعت کے لیے قافلے پہنچ رہے ہیں، خلق خدا اتنی ہے کہ اسلام آباد میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں، یہی حال موٹر ویز، جی ٹی روڈ، ریلوے سٹیشن اور ایئر پورٹ کا ہے۔ اہل راولپنڈی و اسلام آباد کا ایثار دیدنی ہے، وہ آنے والوں کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کئے ہوئے ہیں، کسی ادارے نے کہیں کنٹینر لگاکر راستے بند نہیں کیے، پولیس اہلکاروں نے دودھ اور پانی کی سبیلیں لگا رکھی ہیں، ہر ادارہ اپنا قبلہ درست کرنے میں مصروف ہے، انہیں اندازہ ہوگیا ہے کہ خان اب پہلے والا خان نہیں رہا، وہ کسی بھی وقت ہاتھ میں دُرّہ  پکڑ کر چوک میں آجائے گا اور کوڑے کھاتے کھاتے مرجانے والے مجرم پر باقی رہ جانے والے دُرّے پورے کرکے ’’مرے پہ سو دُرّے‘‘پورے کرنے کے واقعے کو تازہ کردے گا۔
دوسری طرف دنیا بھر نے نیو ریاست کے لیے نیک خواہشات و جذبات کا اظہار کیا ہے، تہنیتی پیغامات موصول ہورہے ہیں، پاکستان میں اسلامی نظام رائج ہونے کے بعد اظہار یکجہتی کے لیے دنیا کے کونے کونے سے ڈالر ، یورو، پائونڈ، درہم اور ریال کی نہ تھمنے والی بارش کا رُخ پاکستان کی طرف ہوچکا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر ایک ہزار ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، سٹیٹ بینک کے پاس ڈالر رکھنے کی گنجائش ختم ہوچکی ہے، فیصلہ کیاگیا ہے کہ ڈالر بیرونی قرضے دینے والوں کے منہ پر مارے جائیں بلکہ انہیں کچھ ہزار ڈالر بطور ٹپ بھی دے دیئے جائیں، پھر بھی ڈالروں کے انبار میں اضافہ ہوتا رہے تو انہیں رکھنے کے لیے وزیراعظم ہائوس کو خالی کراکے بطور سٹور استعمال کیا جائے، پاکستان میں آنے والے اِس حیرت انگیز انقلاب کی دنیا بھر میں دھوم ہے،
بین الاقوامی میڈیا خان اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے اپنا سب کچھ یعنی تن من دھن قوم کے لیے وقف کردینے کے واقعے کو نمایاں طور پر جگہ دے رہا ہے، اس انقلاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نمائندے اسلام آباد پہنچ رہے ہیں، دنیا کے بڑے بڑے نیوز چینل اور اخبارات کے نمائندے خان کا خصوصی انٹرویو لینے کے لیے بے چین ہیں اور اس کا وقت لینے کے لیے خان کے میڈیا منیجرز کے پائوں پڑ رہے ہیں لیکن فرداً فرداً سب کو وقت دینا مشکل ہے، لہٰذا فیصلہ کیاجاتا ہے کہ سب کو ایک اجتماعی انٹرویو دیا جائے، لہٰذا نماز جمعہ کے بعد فیصل مسجد کے صحن میں اس امر کا اہتمام کیا جاتا ہے، وقت مقررہ پر سینکڑوں ٹی وی کیمرے لائن اپ ہوجاتے ہیں،
خان کا یہ انٹرویو دنیا بھر کے ایک سو اسی ملکوں میں دکھایا جانا ہے، دیئے گئے وقت کے مطابق خان ایک عجب شان ِ بے نیازی سے مسجد کے صحن میں پہنچتا ہے، وہ سیاہ چوغہ پہنے ہوئے ہے، کھڑانووں کی کھٹ کھٹ اور ڈنڈے کے ٹھک ٹھک سے حاضرین پر ایک سحر طاری ہوچکا ہے، سب خاموش اور ہمہ تن گوش ہیں، ہرشخص اپنے دل کی دھڑکن واضح طور پر سن سکتا ہے، ماضی میں کسی اور کے دل کی دھڑکن پر کان رکھنے والے اب اپنی دھڑکن سننے پر مجبور ہوچکے ہیں، خان کی شیو بڑھی ہوئی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے، اس نے داڑھی رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے، داڑھی کتنی لمبی ہوگی ، ترشوائی جائے گی یا نہیں اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے، خیال ہے آئندہ ایک دو ماہ میں اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا،
خان اپنے لیے مخصوص کردہ جگہ پر آکر بیٹھ چکا ہے، مائیک اور کیمرہ آن ہوچکے ہیں، خان کی آنکھیں بند ہیں، وہ ہاتھ میں پکڑی تسبیح کے دانے تیزی سے گرارہا ہے، تسبیح مکمل ہونے کے بعد وہ آنکھیں کھولتا ہے اور اپنے دائیں بائیں اور سامنے بیٹھے حاضرین پر پھونک مارتا ہے، پھر خان ہوا میں ہاتھ بلند کرکے سب کو خاموش ہوجانے کا کہتا ہے، یکدم خاموشی چھاجاتی ہے، ان گنت کیمروں کی فلیش لائٹس سے لگتا ہے جیسے سینکڑوں سورج طلوع ہوگئے ہیں، خان اپنا خطاب شروع کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ اردو کو قومی زبان کا درجہ تو حاصل ہے، آج سے یہ ہماری دفتری و سفارتی زبان بھی ہوگی، جس کو ہماری بات سمجھنا ہے وہ اردو سیکھے یا پھر ترجمان کی خدمات حاصل کرے، فضا میں ایک بار نعرہ گونجتا ہے، ہماری آن، تمہاری شان عمران خان، عمران خان، اس مرتبہ نعرے کے ساتھ میوزک نہیں ہے کیونکہ اِسے حرام قرار دیا جاچکا ہے صرف دف بجانے کی اجازت ہے،
خان گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتاتا ہے کہ آج سے دو برس قبل جب اِس نے ریاست مدینہ بنانے کا اعلان کیا تھا تو وہ اس وقت اِس معاملے میں سنجیدہ نہیں تھا لیکن پھر کالم نگاراور صحافی ناصر شیرازی نے مجھے ایک فائل پیش کی جس میں اِس حوالے سے بہت کچھ واضح کیاگیا تھا، میں نے وہ فائل لے تو لی لیکن اسے کھول کر نہ دیکھا اور ایک کونے میں رکھ دیا، اقتدار کھودینے کے بعد ایک روز میری اہلیہ نے خواب میں ایک بزرگ ہستی کو دیکھا جو انہیں کہہ رہی تھی کہ اٹھو اور ریاست مدینہ قائم کرو، میری بیگم کو یہ خواب مسلسل تین مرتبہ آیا تو انہوں نے مجھ سے اِس خواب کاذکر کیا،
جس پر میں نے انہیں وہ فائل تلاش کرنے کا کہا جو ایک کونے میں میز پر پڑی تھی، ہم دونوں نے اِس فائل کا ایک ایک لفظ غور سے پڑھا اور اِس نتیجے پر پہنچے کہ چونکہ خواب میں اِس حوالے سے تلقین کی جاچکی ہے، لہٰذا وقت آگیا ہے کہ اب صرف باتوں اور وعدوں کی بجائے عملی قدم اٹھایا جائے، پس میں نے اپنی بیگم کے حوصلہ دینے پر اُسی صبح اپنے ساتھیوں کو اکٹھا کیا اور اعلان کیا کہ ریاست مدینہ بنانے کے حوالے سے جو کرنا ہے آج ہی کرنا ہے اور آج کا کام کل پر نہیں چھوڑنا، اس نیک کام کا آغاز میں نے اپنے گھر بنی گالہ سے کیا ہے، آج پاکستان بھر سے بچہ بچہ اِس عظیم کام میں میرا ہم رکاب ہے، میں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس نے اِس نیک کام کے لیے مجھے راہ دکھائی اور میں ناصر شیرازی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے صرف رو رو کر دعائیں کرنے کی بجائے مجھے تحریری شکل میں تفصیلات پیش کیں،
میرے اقدامات دنیا بھر کے سامنے ہیں، ہم نے آزاد خود مختار پاکستان کے لیے باتیں ختم کرکے عمل کا آغاز کردیا ہے، ہم ان شا اللہ عالم اسلام کو متحد کریں گے اور اس کا کھویا ہوا وقار بلند کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا خاتمہ کریں گے، خان ایک لمحے کے لیے رُکا تو میڈیا نمائندوں نے سوالات کی بوچھاڑ کردی، جس کے جواب میں خان نے کہا کہ وہ اب کسی کے سوال کا جواب نہیں دے گا بلکہ اس کا اور اس کی حکومت کا ہر عمل دنیا کے ہر سوال کا جواب پیش کرے گا۔ خان اپنی فرشی نشست سے اٹھا اس نے ایک مرتبہ پھر عالم اسلام کے ایک عظیم رہنما کے سٹائل میں ہاتھ بلند کرکے اِسے لہراکر تمام حاضرین کو الوداع کہا اور فیصل مسجد سے متصل اپنے ہجرے میں داخل ہوگیا، فضا ایک بار پھر نعروں سے گونج اٹھی، خان پائندہ باد ۔ خان نے پاکستان کو تو سیدھے راستے پر ڈال دیا ہے لیکن انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے میرا نام لیکر ذکر کرکے مجھے ایک نئی مشکل میں ڈال دیا ہے۔  (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button