Asad Ullah GalibColumn

یوم تکبیر کی قابل فخر،روشن اور منور یادیں .. اسد اللہ غالب

امت مسلمہ نے سرشاری اور کیف کے اس لمحے کا چودہ صدیوں تک انتظار کیا۔ 28مئی 1998ء کو چاغی کی چوٹیوں کا رنگ کیا بدلا، امت مسلمہ کی تقدیر کا افق قوس قزح کے ہفت رنگوں سے جگمگا اٹھا۔ پاکستان نے ایٹمی طاقت بننے کا اعلان یکے بعد دیگرے پانچ دھماکوں کی گونج میں کیا۔ بھارت اس سے پہلے 11مئی کو ایٹمی دھماکہ کر چکا تھا اور اب دنیا کو پاکستان کے ردعمل کا انتظار تھا۔
پاکستان میں بحث چل نکلی تھی کہ ایٹمی طاقت تو ہیں ہی، دھماکے نہ بھی کئے جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ امریکہ کا مسلسل دباؤ تھا کہ دھماکہ نہ کیا جائے۔ 11مئی کو بھارتی دھماکوں کے بعد پاکستانی قوم پل صراط پر معلق تھی۔ امریکہ لالچ دے رہا تھا کہ پاکستان دھماکے سے باز رہے تو اسے مالا مال کر دیا جائے گا اور اگر دھماکہ کر دیا تو اس کا حقہ پانی بند کر دیا جائے گا۔ ایک طرف ڈراوا تھا، دوسری طرف بہلاوا تھا۔ پاکستانی رائے عامہ تقسیم تھی۔ وہ لوگ جو ابتداء میں دھماکے کے حق میں تھے ان کی سوچ بھی بدلنے لگی۔ نواز شریف کی حکومت ان دو انتہاؤں کے منجدھار میں پھنسی ہوئی تھی۔ ایک طرف بیرون ملک سے دھمکیاں تھیں، دوسری طرف اندرونی طبقے پھنکار رہے تھے۔ نواز شریف نے ترازو ہاتھ میں لیا،نفع نقصان کا جائزہ لیا اور پھر بزن کا اشارہ دے دیا۔ پاکستانی قوم ہی نہیں، پوری امت مسلمہ جھوم جھوم اٹھی۔ یہ قرآنی حکم کی تعمیل تھی، ’’مسلمانواپنے گھوڑے تیار رکھو‘‘۔ مسلمانوں نے جب تک قرآنی حکم پر عمل کیا وہ فاتح عالم رہے، جب انہوں نے اس حکم کو پس پشت ڈال دیا تو وہ مفتوح عالم ٹھہرے۔ ہر کسی نے ان کو تاراج کیا۔
پاکستان تو 28مئی 1998ء سے پہلے ہی ایٹمی طاقت تھا۔ صدر ضیا الحق کے حوالے سے یہ دعویٰ امریکی ہفت روزہ ٹائم نے شائع کیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خانکے حوالے سے ایک خبر سید مشاہد حسین اور کلدیپ نائر نے رپورٹ کی تھی۔ امریکی سفیر متعینہ اسلام آباد چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ پاکستان نے ’’سرخ بتی عبور کر لی ہے‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو پروان چڑھانے میں ہر کسی نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے زخم خوردہ پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے اعلان کیا تھا کہ ’’ہم گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے‘‘۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بیرون ملک سے طلب کر کے یہ مشن سونپا گیا۔ صدر ضیاء الحق اور ان کے بعد صدر غلام اسحاق خان نے اس مشن کی تکمیل میں سردھڑ کی بازی لگا دی۔ ضیاء الحق کو ایٹمی پروگرام کے فروغ کی سزا دی گئی اور ان کا طیارہ بہاولپور کی فضاؤں میں بھسم کر دیا گیا۔ غلام اسحاق خان کو بھی انتہائی رسوائی کے عالم میں ایوان صدر سے رخصت کیا گیا۔ نواز شریف نے قوم کے جذبات اور مطالبوں کے پیش نظر دھماکہ تو کر دیا لیکن صرف ایک سال بعدخود ان کی حکومت کا دھماکہ کر دیا گیا۔ پہلے انہیں پابند سلاسل کیا گیا اور پھر ان کے پورے خاندان کو جلاوطنی کی سزا دے دی گئی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جنہوں نے دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود تنکا تنکا جمع کیا اور یورینیم کی افزودگی کا راستہ نکالا، پس پردہ دھکیل دیئے گئے۔ ان کا نام گالی بنا دیا گیا اور ان کی حیثیت ایک عالمی
مجرم کی سی ہو کر رہ گئی۔بھارت نے اپنے ایٹمی ہیرو عبدالکلام کو صدر مملکت کے مرتبے پر فائز کیا ہے،ہم نے محسن پاکستان اور ایٹمی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ذلیل و رسوا کر کے رکھ دیا ہے۔
نائن الیون کے بعد جب امریکی لشکر دھاڑ رہے تھے اور بی 52فضاؤں میں چنگھاڑ رہے تھے تو قوم کے ہونٹوں پر ایک ہی سوال تھا کہ ہماری ایٹمی ڈیٹرنس کہاں ہے اور ہم اس کے ہوتے ہوئے کمزوری کے راستے پر کیوں چل نکلے ہیں۔ سوال اس حد تک درست تھا کہ قوم کو میرے جیسے کالم نویسوں نے باور کرا دیا تھا کہ ہم ایٹمی طاقت سے لیس ہیں۔ہم عالم اسلام کا قلعہ ہیں اور کوئی ہمارا بال بیکا نہیں کر سکتا،لیکن جب پاؤں پر کھڑے ہونے کا وقت آیا تو ہماری ٹانگیں کپکپانے لگیں اور ہماری گھگھی بندھ گئی۔ ہم امریکی صدر کی ایک ٹیلیفونک دھمکی پر ساری چوکڑی بھول گئے۔
میرے نزدیک اس کمزوری، بزدلی اور کم ہمتی کے مظاہرے کے باوجود پاکستان کے ایٹمی ڈیٹرنس پر کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ پاکستان اس اسلحے سے لیس ہے اور دنیا جانتی ہے کہ ایٹم بم کیا بلا ہے۔ اس لیے افغانستان اور عراق پر امریکی اتحادی افواج کی جارحیت کے باوجود کسی کو پاکستان سے چھیڑ چھاڑ کی جرأت نہیں ہو سکی۔ ایٹمی ڈیٹرنس آج بھی قرآنی گھوڑے کی طرح اللہ کی چھتری بن کر ہمارے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کافی ہے۔
مجھے شدید رنج ہے کہ پاکستان کی شاہراہوں اور عوامی مقامات سے چاغی کے ماڈل مسمار کر دیئے گئے۔یہ سب کچھ بھارت کو خوش کرنے اور دنیا کو پاکستان کا ’’سوفٹ‘‘ چہرہ دکھانے کے لیے ہے لیکن ہمارے دشمنوں پر اچھی طرح واضح ہے کہ پاکستان ناقابل تسخیر ہے۔ اس کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتااور دنیا مجبور ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعہ کشمیر کو حل کرائے۔ یہ ہل چل پاکستان کے ایٹمی ڈیٹرنس کا کرشمہ ہے۔
کاش! اس برس یوم تکبیر کے موقع پر نواز شریف ہمارے درمیان کیک کاٹنے کے لیے  موجود ہوتے۔
محترمہ بینظیر بھٹو بھی زندہ ہوتیں کہ ان کے والد نے اسی ایٹمی ڈیٹرنس کی خاطر پھانسی کے تختے کو چوما تھا۔
میری خواہش ہے کہ 28مئی کی گھڑیاں تھم جائیں اور آنے والے ہزاروں برسوں پر محیط ہو جائیں۔ 28مئی کا سورج ہمیشہ چمکتا رہے اور میرے وطن کے بچے بچے کی پیشانی 28مئی کے جذبوں سے دمکتی رہے!
میاں شہباز شریف خوش قسمت ہیں کہ اس یوم تکبیر پر وطن کی حفاظت کے لیے ایٹمی ڈیٹرنس کا بٹن بطور وزیر اعظم ان کے توانا ہاتھوں میں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button