ColumnNasir Naqvi

جلسہ، جلوس اور زبان و کلام .. ناصرنقوی

ریاست مدینہ کے دعویدار عمران خان کو اقتدار سے بے دخلی کا دکھ کم نہیں ہوا۔ انہیں منتخب یا سلیکٹڈ وزیراعظم کے لحاظ سے آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکی غلاموں کو کسی بھی صورت پاکستان کا حکمران نہیں رہنے دیں گے۔ ملک و قوم کے لیے قربانی دینے کو تیار ہیں۔ دارالحکومت اسلام آباد دوبارہ جائیں گے اور جتنا وقت بھی رہنا پڑا، رہیں گے اس لیے کہ ان کے اقتدار کے خلاف امریکی سازش دراصل قوم کو ہمیشہ کے لیے غلام بنانے کی کوشش ہے۔ لہٰذا اُن کا لانگ مارچ اقتدار کی کرسی کے لیے نہیں، خالصتاً قومی آزادی کے لیے ہے۔ اُن کے دو مطالبے ہیں کہ اسمبلیاں تحلیل اور نئے انتخابات ۔تیسری کوئی بات قابل قبول نہیں۔ جان کی قربانی کے لیے بھی تیار ہیں لہٰذا فوج نیوٹرل رہے اور خان اعظم نے نیوٹرل رہنے کا مطلب بھی بڑی ذمہ داری سے سب کو سمجھا دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیغام یہ دیا گیا ہے کہ
ہم جمہوری جدوجہد کر رہے ہیں اور آپ سرکاری ملازم لہٰذا بے خبر رہیں فیصلہ ہم خود کر لیں گے ۔
عمران خان کی للکار کو ماضی کے آئینے میں پرکھنے کی کوشش کریں تو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے دور حکومت میں اسی طرح یا اس سے بھی زیادہ للکار کے ساتھ قاضی بھی اسلام آباد آیا تھا۔ اس جذباتی للکار میں جماعت اسلامی کے کارکن بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے تعداد دو یا تین تھی لیکن ردعمل میں پیپلز پارٹی کی حکومت چلی گئی تھی۔ یقینا اس وقت صورت حال ویسی ہرگز نہیں لیکن اس سے کم سمجھنا بھی غلط فہمی ہو گی، جلسہ، جلوس، دھرنا اور لانگ مارچ جمہوریت کا حُسن اور اپوزیشن کا حق ہے لیکن پی ٹی آئی کی یوتھ اور ان کے خان اعظم جو زبان استعمال کر رہے ہیں وہ ایک بڑے طبقے کی تنقید کا باعث ہیں حالانکہ پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ملک گیر تحریک میں بھی ایسے شواہد موجود ہیں بس وقت کے تقاضوں کے ساتھ ان میں زبان و کلام اور انداز کے تڑکے نے اس کی اہمیت بڑھا دی ہے جو ہضم کسی کو نہیں ہو رہی، پھر بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور کوئی رکنے کو تیار نہیں۔ اب مریم نواز کے حوالے سے شکوہ کیا جا رہا ہے کہ بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں ان کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے بہت کچھ سوچنا چاہیے لیکن ہمارے حافظے ساتھ نہیں دیتے کہ منتخب وزیراعظم حوا کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو اسمبلی فلور اور باہر کیا کچھ کہا گیا، میں اس کی تفصیل بیان اس لیے نہیں کر رہا کہ اب سوشل میڈیا کی سہولت سے کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہی لیکن کوئی ماضی کے حوالوں سے کچھ سیکھنے کو تیار نہیں، اپنی غلطیوں سے اور غیر ملکی سازشوں سے قطع نظر کہ کس نے کیا کچھ کیا، غلطی کس کی ہے، سزا کس کو ملنی چاہیے؟ حقیقت یہ ہے کہ مملکت پاکستان معاشی بحران میں پھنس چکی ہے اور بھنور میں پھنسی اس کشتی کو پوری قوم نے اجتماعی اور قومی مفادات کی خواہش پر تمام تر کوششوں سے نکالنا ہے لیکن حالات یکسر مختلف ہیں ۔ عمران خان نے حکومتی غم میں احتجاج اور جلسے شروع کیے تو حکومتی پارٹیاں بھی میدان میں نکل آئیں۔ اب چینلز اور اینکرز کو مصروفیت مل گئی ہر کوئی اپنے من پسندوں کی پرورش اور پذیرائی میں یوں سرگرم ہے جیسے آخری معرکہ یہی ہے۔
خونی لانگ مارچ کہنے والے سابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کو عثمان بزدار کے تقرر کردہ پنجاب کے اٹارنی جنرل احمد اویس نے مشکوک قرار دے دیا ہے۔ میں تو ہمیشہ سے انہیں ڈیوٹی فل تصور کرتا ہوں کیونکہ زمانہ طالب علمی سے دیکھ رہا ہوں جب ان کے پیارے ان کو چند سو روپے خدمت کا صلہ دیا کرتے تھے ، تمام زندگی وزارتوں کے چکر میں رہے۔ اب ریٹائرمنٹ کے دعویدار تھے لیکن عمران خان کی محبت اور وفاداری میں سیاست چھوڑنے کے لیے تیار نہیں، میرا خیال ہے کہ وہ عمران خان کو حقیقی انجام تک پہنچا کر ہی دم لیں گے کیونکہ ’’ڈیوٹی فل‘‘ ہیں۔ موجودہ متحدہ حکومت سیاسی انتقام سے انکاری تھی لیکن پہلی گرفتاری اور رہائی نے شیریں مزاری کو بین الاقوامی خبروں تک پہنچا دیا حالانکہ مقدمہ ان کی اپنی حکومت میں بنا تھا پھر بھی گرفتاری پر ان کی بیٹی نے قانون دان ہوتے ہوئے بھی سپہ سالار کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن ایک مرتبہ پھر عدالت رات کو کھلی اور شیریں مزاری کی گرفتاری کی سرکاری کا رروائی ادھوری قرار پانے پر رہائی مل گئی لیکن انہوں نے بھی الزام لگا دیا کہ ان کے موبائل فون چھین کر غائب کر دئیے گئے اور انہیں بلاوجہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خانِ اعظم عمران خان کے بھی موبائل فون چوری ہو چکے ہیں اور انہیں بھی اندیشہ لاحق ہے کہ اگر انہیں کسی بھی لمحہ گرفتار کر لیا گیا تو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جائے گا لیکن عمران خان اور مریم نواز میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں اپنے اپنے خطاب میں پاکستان دشمنی کے خلاف ڈٹ جانے کی دعوت دے رہے ہیں۔
فرق
یہ ہے کہ عمران خان لانگ مارچ سے اسلام آباد میں ایک بڑا اجتماع کرکے حکومت اور قومی اداروں پر دبائو بڑھانا چاہتے ہیں جبکہ مریم نواز کہتی ہیں کہ عوامی تقدیر کے فیصلے جتھوں اور فتنہ بازوں کے ہاتھوں نہیں ہو سکتے۔ معیشت کی بدحالی اور عوامی مشکلات پر اجتماعی رائے عامہ ہموار کر نی پڑے گی۔ موجودہ حکومت کا اقتدار عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا مرہون منت ہے وہ اکثریت کھو بیٹھے اور اپنی سیاسی جدوجہد کے لیے پارلیمنٹ میں بھی اس لیے نہیں آئے کہ ان کے خلاف سازش امریکہ نے کی اور سہولت کاروں میں اپوزیشن کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ بھی شامل ہو گئی ہے۔ اب ان کا نعرہ ہے وہ ہر حال میں اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل ختم کریں گے کیونکہ سب سے بڑی فساد کی جڑ یہی ہے تاہم ماضی گواہ ہے کہ انہیں حصولِ اقتدار کے لیے اسٹیبلشمنٹ اتنی اچھی لگی کہ انہوں نے اس کی مخالفت کرنے والے اپنے دیرینہ ساتھی ممتاز قانون دان حامد خان سے بھی کنارہ کشی کر لی تھی۔
محبِ وطن پاکستانی موجودہ حالات میں بہت پریشان ہیں۔ مسائل اور سیاسی بحران کسی طرح بھی نتیجہ خیز نہیں ہو رہے۔ عمران خان اور ان کی جماعت کی للکار گلی گلی محلے محلے میں سنی جا رہی ہے۔ افواہوں کا بازار بھی گرم ہے حکومت کسی وقت بھی جا سکتی ہے۔ مقتدرہ قوتیں نگران وزیراعظم کی تلاش میں ہیں کیا الیکشن اسی سال بجٹ کے بعد ہو جائیں گے یا نگران حکومت 2023ء میں شیڈول کے مطابق الیکشن کرائے گی۔ انتخابی اصلاحات اور حلقہ بندیاں ہو بھی سکیں گی کہ یہ بھی محض تاخیری حربے ہیں؟ ایسے سوالات ہر کوئی پوچھ رہا ہے لیکن جواب کسی کے پاس نہیں لہٰذا مایوسی سبھی کو لاحق ہے۔ گورنر پنجاب کی تعیناتی ہو کہ گورنر سندھ کی صدر مملکت کسی قسم کا مثبت جواب دینے کو تیار نہیں اس لیے کہ وہ بھی عمرانی حکومت کی رخصتی پر کافی غم زدہ ہیں انہیں آئین اور قانون سے زیادہ پارٹی قائد کی فکر ہے۔ جمہوریت کا یہ حُسن پاکستانی قوم کا نصیب بنا ہے کہ پہلے ملک کا بڑا صوبہ وزیراعلیٰ کے بغیر چل رہا تھا اب کابینہ اور گورنر کے بنا دوڑ رہا ہے یہی نہیں، باقی صوبوں میں بھی سیاسی ہلچل موجود ہے لیکن نوعیت مختلف ہے۔ وزیر داخلہ سابقہ حکومت کے ہوں یا موجودہ حکومت کے، بڑھکیں ایک جیسی ہیں۔ شیخ رشید احمد کہتے ہیں نفرت اور بے یقینی کی بارودی سرنگیں بچھ چکی ہیں ایک چنگاری تحریک کو خونی بنا سکتی ہے۔ رانا ثناء اللہ کہہ رہے ہیں غنڈہ گردی کا انتظام کر لیا ہے قانون کو ہاتھ میں لینے والے کے خلاف قانون حرکت میں ضرور آئے گا۔
ان جلسوں اور لانگ مارچ سے کسی کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ شہریوں کو ہر قیمت پر تحفظ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ لہٰذا اگر اتحادیوں نے فیصلہ کیا تو فسادیوں کو گھر سے نہیں نکلنے دوں گا۔ وزیر اطلاعات کہتی ہیں عمران کی ذہنیت فاشسٹ ہے۔ اگر جمہوری ہوتی تو وہ بھی بلاول بھٹو اور مریم نواز کی طرح لانگ مارچ کی قیادت کرتے، کوئی مانے یا نہ مانے ، سوچیں منتشر دکھائی دے رہی ہیں ایسے میں جلسہ، جلوس اور زبان و کلام میں تحریک انصاف اور حکومت دونوں جانب سے رواداری اور برداشت کے مظاہر ے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی بھی جانب سے کی گئی معمولی غلطی کی بھی گنجائش نہیں۔ لانگ مارچ ، حقیقی آزادی مارچ اور جہاد کے نام پردونوں جانب سے جو کچھ ہوا وہ قابل مذمت اور وطن عزیز کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ مارپیٹ، پکڑ دھکڑ اور خون خرابے سے اپنا نقصان ہوا، دنیا نے جمہوریت کے نام پر تماشا دیکھا اور ہم تماشائی بنے رہے اگر ملک کو استحکام دینا ہے پھر جلسہ، جلوس اور زبان و کلام کا یہ انداز نہیں چلے گا۔ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داری میں رواداری اور صبر و برداشت کا مظاہرہ کرنا ہو گا ورنہ ۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button