ColumnQadir Khan

تمہیں ظلم میں مہارت ہے! …. قادر خان یوسف زئی

قادر خان یوسف زئی

ملک میں جب سے حالیہ سیاسی بحران شروع ہوا ہے ،بعض حلقوں کی جانب سے اشاروں اور کنایوں میں یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جسے اس کے پس پردہ مقتدر حلقوں کا کوئی کردار ہے۔ یہ حلقے بڑے تواتر سے ایسی افوائیں پھیلا کر قیاس آرائیاں کررہے ہیں، ایسی شر پسندی کا مطلب کیا ہے،بتانے کی ضرورت نہیں۔ تحریک انصاف جس تواتر کے ساتھ جارحانہ انداز میں جلسے کررہی ہے اور اسلام آباد دھرنے کا اعلان بھی کیا جاچکا اورحتجاجی مظاہروں سے سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے تو جواباً حکومت بھی ترکی با ترکی جواب دے رہی ہے۔ اس کی وجوہ سے سب آگاہ ہیں کہ عمران خان فوری طور پر انتخابات چاہتے ہیں، ان کی دانست میں اس وقت وہ پاکستان کے مقبول ترین سیاسی لیڈرہیں اور انہیں عوام کی ہمدردی اور مکمل حمایت حاصل ہے، لہٰذا انتخابات کے نتیجے میں انہیں دو تہائی اکثریت ملنے کا یقین ہے ۔
ملک کے فہمیدہ حلقے جانتے ہیں کہ اس وقت جو فضا بنی ہوئی ہے اس میں حکومتی اتحاد کے لیے بڑے چیلنجز ہیں کہ وہ کسی بھی صورت سیاسی اور معاشی بحران کے مضر نتائج سے بچ نہیں سکتے، ان حالات میں سیاسی عدم استحکام کے ساتھ سکیورٹی ریاست کے لیے پریشانیوں کا موجب بنی ہوئی ہے۔ صورت حال اب کچھ یوں ہے کہ پی ٹی آئی سے پونے چار برس تک حکومتی دور میں اٹھائے گئے اقدامات پر سوال نہیں اٹھایا جارہا ۔ عام انتخابات اگر ہوتے بھی ہیں تو اس میں عوام کے پاس جانے اور ووٹ مانگنے کے لیے کارکردگی کے بجائے تھیوریوں کا سہارا لیا جائے گا ، اگر کسی سیاسی جماعت کا بیانیہ کسی تھیوری پر مشتمل ہوگا تو ان کی مخالف جماعت کی تمام قوت اس بیانیہ کو رد کرنے پر صرف ہوگی۔ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ نہیں مانگا جارہا کہ عوام کے لیے ایسا کیا کیا گیا جس سے انہیں کوئی ریلیف ملا ہو ، صرف تکلیف ، تکلیف اور تکلیف ملنے پر ووٹ مانگنے کا نیا رجحان یقیناً قابل دل چسپ ہوگا، جب سیاسی جماعتیں خو د کو پہنچنے والی تکالیف پر عوام سے ووٹ مانگ رہے ہوں گے۔
یہ کوئی اتفاق نہیںکہ ایک جانب تو سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گذر رہا ہے تو دوسری طرف تواتر سے معاشی حب کراچی کے مصروف ترین بازاروں میں دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ بم دھماکے انتہائی مصروف ترین بازاروں میںہوئے ہیں ، خوش قسمتی سے قیمتی جانوں کے نقصان کم ہیں لیکن ان دھماکوں سے معاشی سکیورٹی کو بے یقینی کا سامنا ہے، جب کہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے،اب تصور کیاجائے کہ ایک جانب موجودہ حکومت معاشی بحران کو کم کرنے کے لیے فیصلہ کن عمل کرنے میں تامل کا شکارہے تو دوسری جانب ڈالر کی تاریخی اڑان کے نتیجے میں افراط ِ زر اور مہنگائی میں اضافہ سے عوام کا غیض و غضب اور سرمایہ کاروں کی بے چینی ہے۔ تیسری جانب پی ٹی آئی کے روزانہ جلسوں میں مختلف سازشی تھیوریاں اور حکومت سے فوراً انتخابات کرانے کا مطالبہ ۔ ان حالات میں اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ موجودہ معاملات کا فائدہ براہ راست کس جماعت کو جائے گا۔ پاکستان مزید کسی سیاسی بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا ، حکومت کو اپنی تمام تر توجہ سیاسی بحران کو حل کرنے پر مرکوز رکھنی چاہیے ، ملک میں آئین موجود ہے، پارلیمنٹ موجود ہے اور جمہوریت موجود ہے، لہٰذاایسا نہیں کہ نظام میں کسی بحران کا حل موجود نہیں، اگر بحران کے حل کے لیے کہیں کسی آئینی مشکل کا معاملہ آتا ہے تو عوامی نمائندے اسے بھی طے کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے ضد اور انا کوچھوڑنا پڑے گا ۔ حالیہ سیاسی بحران کو شروع ہوئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہوچکا، اس بحران کے اثرات معیشت سے لے کر انتظامیہ تک مرتب ہو رہے ہیں، غیر ملکی قوتیں اس بحران کو دیکھ رہی ہیں، ایسی صورت حال کے باوجود سیاسی قیادت کا کسی فیصلہ کن رائے پرمتفق ہونا ضروری ہے۔ مشکل فیصلے کل بھی کرنا ہی ہوںگے، لہٰذاسیاسی مفادات کے بجائے ملکی ترجیحات کو اہمیت دینا زیادہ ضروری ہے۔
پاکستان کی سیاسی قیادت بالغ نظر اور تجربہ کار ہے ، وہ حالات کو بخوبی سمجھ رہی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ ابھی تک اس بحران کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی جانب نہیں بڑھ سکی۔ اسی وقت صورت حال یہ ہے کہ تمام تر معاملات میں حکومتی اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں میں معاملہ جوں کا توں ہے ، ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی اپنے رویئے میں لچک پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں ۔سیاسی بحران و عدم استحکام کو سیاسی انداز میں ہی حل ہونا چاہیے ، گیند کو ایک دوسرے کی کورٹ میں پھینکنے سے گریز کرنا چاہیے ، کسی ریاستی ادارے کو براہ راست مداخلت کی دعوت دینے کے بجائے اپنا معاملہ خود ہی حل کرنا چاہیے ، کسی تیسرے فریق کو معاملے میں لانے سے ماضی میں ناقابل تلافی نقصان اٹھائے جاچکے ہیں، اس سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے ، وقت تیزی سے گذر رہا ہے اور ان حالات میں الزام تراشیوں کی نہیں بلکہ عمل کی ضرورت ہے، حکومت اور اپوزیشن جماعتیں بلاتاخیر بامعنی اور بامقصد مذاکرات کریں تو یہ بحران خوش اسلوبی سے حل ہوسکتا ہے ۔ لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایسے کسی عمل کا حصہ بننے کے بجائے سیاسی تپش کو بڑھا رہے ہیں۔
آئینی بحران نے پنجاب کو بری طرح جکڑ دیاہے، صدر، گورنر پنجاب کو برطرف تسلیم نہیں کررہے، پنجاب میں کابینہ موجود نہیں، آئینی طور پر گورنر پنجاب برطرف ہیں لیکن نیا گورنر تعینات نہیں ہوسکتا کیونکہ صدر پاکستان اسے خلاف آئین اور اپنا صوابیدی اختیار سمجھتے ہیں، قائم مقام گورنر اپنا عہدہ سنبھالنے کے لیے تیار نہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور سندھ میں ابھی تک نیا گورنر تعینات نہیں کیا جاسکا ۔ تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے اراکین کے استعفے آئین کے مروجہ طریقہ کار کے مطابق منظوری کے عمل سے گذرنے باقی ہیں۔ منحرف اراکین کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد صورت حال بڑی گنجلک ہوگئی ہے کیونکہ منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہیں ہوسکتے۔ جس کے بعد پنجاب میں ایک بڑا آئینی بحران جنم لے گا ۔ جس کے اثرات قومی سیاست پر پڑیں گے ۔ افوائیں سرگرم ہیں کہ ان حالات کا سکرپٹ ماہرانہ انداز میں لکھا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں آج آئینی بحران اور سیاسی عدم استحکام عروج پر ہیں۔ اس نئے بحران کے قیمت ملک و قوم کو کس صورت میں ادا کرنا ہوگی ، اس کے لیے سب کو تیار رہنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button