ColumnKashif Bashir Khan

میجر شبیر شریف شہید اور کرنل اعظم قادری!! …. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

پاک فوج کی پاکستان سے محبت اور اس کے دفاع کے لیے دی گئی قربانیاں ہمیشہ ہی ناقابل فراموش ہیں۔جنرل ہارون اسلم اس وقت سنیئر ترین جنرل تھے اور اگر میاں نواز شریف اپنا انتخابات سے قبل کا وعدہ نبھاتے تو پاک فوج کا چیف بننے کاحق ان کا ہی بنتا تھالیکن آئین پاکستان نے وزیر اعظم پاکستان کو اختیار دیا ہے کہ پانچ کے پینل میں سے جسے چاہیں آرمی چیف بنائیں۔جنرل ہارون اسلم بارہ اکتوبر 1999 کو ٹرپل ون بریگیڈ کے بریگیڈیئرتھے، اس تناظر میں ان کو آرمی چیف بنانا میاں نواز شریف کے بس میں نہیں تھا۔میری تو یہی رائے اور وجدان تھا اور ہے۔ویسے بھی میاں نواز شریف ماضی کی طرح ایس ایس جی کے ایسے کمانڈو کو آرمی چیف بنانے کا خطرہ مول لینے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوسکتے تھے جو ان کے دشمن جنرل مشرف کا ساتھی رہا اور طالبان بھی اس کے خلاف ہوں۔

آرمی چیف کی تقرری کو پاکستان کے میڈیا اور دوسرے حلقوں نے جتنی اہمیت دی بلکہ اب تک دے رہے ہیں دراصل یہ اتنا بڑاایونٹ ہر گز نہیں اور تمام ممالک میں ایک آرمی چیف کے عہدے کے خاتمے کے بعد خود بخود ہی سنیئر ترین جرنیل اس کی جگہ چارج سنبھال لیتا ہےاور اس کے بارے میں روایتیں بھی موجود ہیں۔ آرمی کاچیف دراصل حکومت کے ماتحت اور اس نے حکومتی پالیسی کے زیراثر ہی کام کرنا ہوتا ہے۔پھر اس تقرری کو سیاسی ماحول کو گرم کرنے کا ذریعہ بنانا اچھی روایت نہیں تھا۔

کرنل (ر)اعظم قادری میرے بہت اچھے دوست ہیں۔ فروری میں راولپنڈی میں میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی، اس وقت برطانیہ سے لارڈ شوکت نواز پاکستان آئے ہوئے اورمیرے مہمان تھے۔راولپنڈی کے ہوٹل میں جب ہم بینظیر بھٹو کی پولیٹکل سیکرٹری ناہید خان اور سینیٹر صفدر عباسی کے ساتھ گپ شپ کر رہے تھے، تو کرنل اعظم قادری خراماں خراماں وہاں آئے اور میجر شبیر شریف شہید پر اپنی کتاب "What More Can A Soldier Desire”  کی میرے نام کی دستخط شدہ کاپی مجھے دی جو میری لائبریری کی زینت ہے۔کرنل اعظم قادری، میجر شبیر شریف شہید کے دیرینہ اور بہت ہی قریبی دوست تھے۔انہوں نے جو کچھ اس کتاب میں میجر شبیر شریف کے بارے میں لکھا، وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور ماضی کے اس عظیم پاکستانی شہید کی زندگی کے پرت ایسے کھلتے جاتے ہیں کہ انسان اپنے ان شہیدوں کے کارنامے پڑھ کر فخر سے لبریز ہو جاتا ہے۔

بتانے کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کی تیاری سے لیکر اشاعت تک جنرل راحیل شریف نے کرنل قادری کی نہ صرف ہر ممکن مدد کی بلکہ انہوں نے کرنل اعظم کو کہا تھا کہ تمام شہیدوں پر کتابیں لکھیں پاک آرمی اس نیک مقصد میں ان کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرے گی اور کرنل قادری اب پاکستان کے نامور
شہید سپوتوں پر کچھ کتابیں لکھ بھی رہے ہیں۔میں نے کتاب پڑھنے کے بعد جنرل راحیل شریف کو اس کتاب کی کامیاب اشاعت پر ستائشی مبارکباد بھی دی تھی۔یہ کتاب کرنل اعظم قادری کی ایسی کاوش ہے، جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔

کتابوں پر کالم لکھنا یا اپنے کالم میں شعر لکھنا میرے لیے کبھی بھی پسندیدہ نہیں رہا، لیکن کرنل اعظم قادری کی کتاب جیسے جیسے پڑھتا گیا مجھ پر میجر شبیر شہید کی پاکستان  سے جنون کی حد تک محبت اوروابستگی آشکار ہوتی گئی اور افسوس بھی ہوا کہ آج کی نسل کو اپنے غازی اور شہداء کی پاکستان کے لیے دی گئی قربانیوں سے آشنا کرنے کے لیے آج تک کوئی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔اس کتاب کے صفحہ 172پر لکھا ہے کہ حوالدار امام حنیف جو پلٹون نمبر6بلاکBکے پلٹون حوالدارتھے۔ راوی ہیں کہ میجر شبیر شریف شہید1971 کی انڈو پاک جنگ میں میرے کمپنی کمانڈر تھے۔جنگ سے قبل ہم دفاعی پوزیشنوں پر تعینات تھے۔میں نے دیکھا کہ میجر شبیر شریف ایسے آفیسر تھے جو وقت کا شدت اور جذبے سے انتظار کر رہے تھے کہ جلد جنگ شروع ہو اور وہ دشمن کی صفوں میں گھس کر انہیں تباہ و برباد کر سکیں۔حوالدار امام حنیف نے اپنی یادداشتوں میں بتایا ہے کہ ایک انڈین لڑاکا گشتی ٹیم ہررات کو ہماری دفاعی چوکیوں کے پاس سے گزرا کرتی اور جب ہم انہیں ایسا کرنے سے منع کرتے تو  وہ منع ہو نے کی بجائے اشتعال میں آجاتے اور اکثر پاکستان آرمی اور پاکستان کے خلاف بکتے ہوئے واپس چلے جاتے۔

جب اس صورتحال کا میجر شبیر شریف کو بتایاگیا تو انہوں نے اسی وقت حکم دیا کہ اگر اب بھارتی ایسا کریں اور پاکستان اور پاکستان کی آرمی کے خلاف کچھ بکواس کریں تو فائر کھول دیا جائے۔ایسا فائر جو ان کو جہنم رسید کرے، تاکہ ان کو معلوم ہو جائے کہ پاک آرمی ان کے ساتھ کیا کر سکتی ہے۔کچھ دنوں کے بعد انڈین آرمی کی اسی ٹیم نے پھر اپنی وہ ہی ناپاک حرکت دھرائی اور پاک آرمی کے بارے میں مغلظات بکیں جس پر ہم نے ان پر فائر کھول دیا پھر بھارتیوں نے دوڑ لگا دی اور اپنے ایک حوالدار اور چار سپاہیوں کی لاشیں بھی ہمارے علاقے میں چھوڑ کر جھانجر پوسٹ کی طر ف بھاگ کر جانیں بچائیں۔ میجر شبیر شریف شہید پاکستان اور اس کی آرمی کی عظمت اور وقار کے لیے کچھ بھی کرسکتے تھے اور یہ اس کی ایک چھوٹی سی مثال تھی۔ اسی کتاب میں آگے لکھا ہے کہ دشمن کے علاقے میں گھس کر اس کے ایسے علاقے پر قبضہ کرنا کہ جس کے لیے بھارت نےایک نہر بنا کر بندھ باندھا ہواتھا، ناقابل یقین اور حیرت ناک کارنامہ تھا۔جنگ ختم ہونے کے بعد بہت عرصہ تک انڈین آرمی و سولین سلیمانکی کی اس جگہ کا دورہ کرتے اور پریشان ہوتے رہے کہ ایک میجر نے کس طرح وہ کام کر دکھایا جو ناممکن ترین دکھائی دیتا تھا۔

میجر شریف شہید کی شہادت کے بعد جب جنگ بندی ہوئی اور15گز کے فاصلے پر کھڑے دونوں ملکوں کی افواج کھڑی تھیں اور لاشوں کے تبادلے کے لیے فلیگ میٹنگز ہو رہی تھیں۔دشمن کے لاتعداد افراد میجر شبیر شریف کی بہادری پرحیران وپریشان اور ان سے ملنے کے خواش مند تھے۔جب انہیں بتایا گیا کہ میجر شبیر شریف شہادت حاصل کر چکے ہیں تو دشمن کی افواج کے جوانوں نے ایک منٹ کی خاموشی میجر شریف شہید کے احترام میں اختیار کی تھی۔ جنرل راحیل شریف اسی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ایک میجر کے بیٹے۔ایک عظیم شہید میجرشبیر شریف کے چھوٹے بھائی۔میجر راجہ عزیز بھٹی کے بھانجے۔میجر شبیر کی والدہ میجر راجہ عزیز بھٹی کے چچا زاد ہیں۔آج ملک و قوم جس مشکل ترین حالت کا شکار ہے اس کے تناظر میں ہمیں ایسے حکمرانوں کی ضرورت ہے جو میجر شبیر شریف شہید جیسی قومی غیرت اور حمیت کا ثبوت دیتے ہوئے دشمن کو اس طاقت کے ساتھ جواب دے سکیں کہ ان کی نسلیں بھی پاکستان کے خلاف کچھ کرنے سے پہلے100 مرتبہ سوچنے پر مجبور ہوں۔

ایک عظیم پاکستانی ہیرو پر لکھی کرنل اعظم قادری کی کتاب میں تو اتنا کچھ ہے کہ اس پر 50 کالم بھی کم ہوں گے لیکن اس کالم کو لکھنے کا مقصد صرف اورصرف یہ ہےکہ ایک تو موجودہ آرمی چیف کو اپیل کی جا سکے کہ بھارت اور امریکہ کی موجودہ جارحیت اور پاکستان کی خود مختاری پر حملے عوام کے لیے ناقابل برداشت ہیںاور پھر ان کے آباو اجداد کی پاکستان کی سلامتی کے تناظر میں افواج پاکستان کے حوالے سے خدمات بھی متقاضی ہیں کہ وہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے پاکستان کی قومی غیرت اور خودمختاری کو ممکن بنائیں۔

"What More Can A Soldier Desire” نامی کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ کرنل اعظم قادری کی خدمات کو سراہنا ہو گا اور میری قارئین سے اپیل ہے کہ وہ اس کتاب کو خود بھی پڑھیں اوراپنے بچوں کو بھی پڑھائیں تاکہ ہم اپنے عظیم اسلاف کی بے بہا قربانیوں کو اپنی آنے والی نسلوں سے روشناس کروا سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button