CM RizwanColumn

تحفظ ماحولیات اور حکومت کی ذمہ داریاں …. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

دنیا میں ماحولیاتی آلودگی اور منفی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان پانچواں بڑا ملک ہے۔ سابقہ سالوں میں ماہرین ماحولیات نے متعدد بار خبردار کیاتھا کہ فوری اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں پاکستان اور اس کے عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا شدید اندیشہ رہے گا۔

چند سال قبل عالمی ادارے جرمن واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان  ان ممالک میں شامل ہے جو ماحولیات سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس 2022 کے مطابق 1999 سے لے کر سن 2018 تک کے بیس برسوں کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں سے جو ممالک سب سے زیادہ متاثرہوئے، پاکستان کا ان میں پانچواں نمبر ہے۔ ماحولیاتی حوالے سے ماضی کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں نے ملک میں اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا تھا جبکہ عمران خان کی حکومت اس معاملے میں قدرے بہتر قرار پائی ہے۔ سابقہ حکومت نے خیبر پختونخوا میں ایک ارب درخت لگائے کا دعویٰ کیا بعدازاں مزید ایک ارب درخت لگائے کا دعویٰ کیا تھا۔ اکثر ناقدین ان دعوئوں کی تردید بھی کرتے ہیں لیکن اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ خیبرپختونخوا میں ایک ارب درخت نہیں لگے لیکن یہ تو بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان دو منصوبوںمیں کم از کم پچاس کروڑ درخت تو لگے ہی ہوں گے۔ اس صورت میں بھی یہ بہت بہتر اقدام ہے۔ ایسے اقدامات موجودہ حکومت کو بھی اٹھانے چاہئیں۔اس کے علاوہ پٹرول اور ڈیزل کی جگہ الیکٹرک کاریں درآمد کرنے کا ارادہ بھی سابقہ حکومتوں نے ظاہر کیا تھا۔ اب جبکہ مرکز اور پنجاب میں متحدہ پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوگئی ہے۔ موجودہ مرکزی حکومت کو بھی ماحول کے تحفظ کے حوالے سے سابقہ حکومت کے اس ضمن میں بہتر اور مناسب جاری منصوبوں کی نگرانی کرنی چاہیے تاکہ وطن عزیز ماحولیات کے تحفظ کے حوالے سے ایک محفوظ ملک بن جائے۔

کئی ماہرین کا خیال ہے کہ عالمی حدت کی وجہ سے پاکستان کے شمال میں پگھلتے ہوئے گلیشئیر ملک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ پاکستان کو اس وقت چار بڑے خطرات کا سامنا ہے، ایک گلیشیئرز کا پگھلنا، دوسرا کوئلے کا استعمال، تیسرا سموگ اور چوتھا پانی اور سبزے کی کمی اور روز بروز بڑھتی خشک سالی۔ مزید یہ کہ خشک سالی اور زراعت کے مواقع کم سے کم تر ہونے کی وجہ سے ملک کے کئی ساحلی علاقوں سے نقل مکانی کئی سال پہلے ہی شروع ہو چکی تھی جو اب بھی جاری ہے۔ اوماڑہ، پسنی، بدین، ٹھٹھہ، سجاول اور گوادر سمیت کئی علاقوں سے نقل مکانی اب بھی ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ملک کے کئی علاقے خشک سالی کے شکار ہوئے ہیں۔ یہ عوامل بھی فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ جنگلات کا کٹاؤ بھی فوری طور پر رکنا چاہیے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق پاکستان کے قریباً پچیس فیصد رقبے پر جنگلات ہونے چاہئیں، ہمارے ملک میں پہلے ہی جنگلات صرف سات سے آٹھ فیصد رقبے پر تھے لیکن یہ رقبہ اب تین فیصد سے بھی کم ہو گیا ہے، نیز یہ کہ ملک کا جنوبی حصہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ اس مسئلے پر ماضی میں کسی حکومت نے بھی توجہ نہیں دی۔ سندھ میں دو لاکھ ستر ہزار ہیکٹرز پر مشتمل ساحلی جنگلات اب ساٹھ ہزار ہیکٹرز تک آ گئے ہیں۔

پنجاب کی بات کی جائے تو صوبائی محکمہ تحفظ ماحولیات کا نام سامنے آتا ہے جو گزشتہ تین برسوں سے عمران خان کے وژن گرین پنجاب کو لیکر آگے چل رہا تھا، ادارے کے قیام کا مقصد عوام الناس کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے ماحول کو آلودگی سے پاک کرنا تھا،جس کے لیے گاہے بگاہے عوام میں مختلف قسم کی بیداری مہم چلائی گئیں جبکہ پانی اور ہوا وغیرہ کو صاف رکھنے کے لیے ایک ای پی اے نامی ایجنسی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا تاکہ عالمی سطح کے اصولوں کو نافذ کرتے ہوئے ماحول کو آلودگی سے بچایا جا سکے۔ بدقسمتی سے گزشتہ ایک دہائی کے دوران، لاہور اپنے درختوں کا قریباً 70 فیصد حصہ کھوچکاہے جو کہ صوبائی دارالحکومت میں ماحولیاتی آلودگی کا بہت بڑا باعث ہے۔ اس کے علاوہ لاہور میں ٹریفک کا معمول سے بڑھنا بھی ماحول کو آلودہ کررہا ہے۔ سابقہ حکومت نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے متعدد مہمات متعارف کروائی تھیں جن میں بلین ٹری سونامی اور کلین گرین پاکستان
شامل ہیں۔

کلین گرین پاکستان انڈیکس سکیم لاہور میں ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوئی۔ ( بھاری ٹریفک اور پرانی ٹیکنالوجی کے حامل اینٹوں کے بھٹوں وغیرہ کی وجہ سے جو آلودگی کا انڈیکس اونچی سطح پر پہنچ جاتا ہے) یہاں جدید الیکٹرک مشینری متعارف کروائی گئی جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ لاہور، گوجرانوالہ، راولپنڈی، فیصل آباد، سرگودھا، ساہیوال، ملتان، ڈیرہ غازی خان، اوکاڑہ اور بہاولپور سمیت 19 شہروں کا انتخاب کیا گیااور یہاں پینے کے صاف پانی، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، مائع کچرے کے انتظام، شہر کی خوبصورتی، گلیوں کی صفائی وستھرائی، پارکوں کے استعمال، پودے لگانے، حفظان صحت اور کمیونٹی کی شرکت جیسے امور کو حل کرنے پر زورر دیا جا رہا ہے۔ ادارے کے فرائض میں کسی بھی قسم کی انڈسٹری کے قیام سے قبل محکمہ تحفظ ماحولیات سے جانچ ضروری ہے اور صوبہ بھر میں قائم بھٹوں کی مانیٹرنگ کا عمل بھی جاری ہے جبکہ سڑکوں پر چلنے والی عوامی گاڑیوں کا معائنہ بھی لازمی کروایا جارہا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی کو مانیٹر کرنے کے لیے  لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور ملتان میں مانیٹرنگ اسٹیشنز بھی قائم ہیں۔ ہر تحصیل اور ڈسٹرکٹ میں ماحولیاتی دفاتر بھٹوں میں خاص طور پر زگ زیگ ٹیکنالوجی کے استعمال کی نگرانی کررہے ہیں۔ پنجاب بھرمیں قائم لگ بھگ دس ہزاربھٹوں میں سے صرف زگ زیگ یا ماحول دوست ٹیکنالوجی کے اینٹوں کے بھٹوں کو چلانے کی اجازت دی گئی تھی۔ محکمہ ماحولیات نے بی ٹی کے ٹیکنالوجی کے حامل نئے اینٹوں کے بھٹوں کی تعمیر پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔ اب موجودہ پنجاب حکومت کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ آیا یہ منصوبے صرف کاغذوں اور سرکاری فائلوں ہی میں موجود ہیں یا عملاً بھی کوئی وجود رکھتے ہیں اور اگر ان کا وجود ہے تو کیا یہ اپنے مقاصد حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کی فٹنس وغیرہ کی چیکنگ کے لیے 26 کمپیوٹرائزڈ یونٹس قائم کئے گئے تھے۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کا ڈیٹا روزانہ کی بنیاد پر محکمہ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا جارہا ہے اور اس نظام کی جانچ ، نگرانی اور بہتری توجہ کی متقاضی ہے۔

القصہ سابقہ حکومت کی تحفظ ماحول کے حوالے سے ان خدمات اور ترجیحات کا ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سابقہ عمران حکومت نے گو کہ ملک کا سیاسی اور سماجی ماحول حدت، حرارت اور شدت سے دوچار کر دیا ہے۔ سیاسی مخالفین کی شکلوں پر بے جا تنقید اور تبصرے کرنا اور اپنے مخالفین کو کچھ سوچے  سمجھے بغیر ملک دشمن اور غدار قرار دے دینا ایک عام روایت بن گئی ہے۔ اپنے علاوہ کسی اور کو حکومت اور اقتدار پر برداشت نہ کرنا جائز ٹھہرا دیا گیا ہے۔ اس سب کے باوجود عمران خان کا ماحولیات کے حوالے سے ویژن کافی حد تک قابل عمل تھا۔ ان کے ماحول دوست منصوبے جیساکہ کلین اینڈ گرین پروگرام، بلین ٹری سونامی اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانے جیسے منصوبہ جات موجودہ حکومت کو نہ صرف جاری رکھنے چاہئیں بلکہ ان میں مزید بہتری، وسعت اور استحکام لانے کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہئیں کیونکہ ماحول کے تحفظ کے حوالے سے فوری اور موثر پروگراموں اور آگاہی مہموں کی جتنی ضرورت آج ہے آج سے قبل کبھی بھی نہیں تھی لہٰذا موجودہ صوبائی اور وفاقی حکومت کو اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button