ColumnQadir Khan

پاکستان کی اندرونی جنگ ۔۔۔ قادر خان یوسف زئی

آئے روز نئے نئے سیاسی نعرے اور صدائیں گونجتی سنائی دیتی ہیں ، مختلف سیاسی پلیٹ فارموں سے نئے نئے مطالبات منظر عام پر آتے ہیں، یہ سب نعرے عوام کی نمائندگی کے دعوے کے ساتھ سامنے لائے جاتے ہیں ، لیکن ان کا تجزیہ کریں اور ان کے پس منظر پر نگاہ ڈالیں تو ان میں سے اکثر و بیشتر کا اصل مقصد سیاسی مفاد پرستیوں اور حصول اقتدار کی کشمکش سے زیادہ نہیں ہوتا ، کہیں لسانیت تو کہیں نسل پرستی، تو کہیں فرقہ وارانہ حقوق کے تحفظ کے نام پر، تو کہیں صوبائی خود مختاری کے خاطر ۔ آپ دیکھیں گے کہ جس سیاسی طالع آزما کو اپنی ہوس اقتدار کے لیے کوئی نعرہ زیادہ کار آمد اور ساز گار نظر آتا ہے ، وہ اُسے لے کر میدان میں چلا آتا ہے اور اس کا قطعاً احساس نہیں کہ اس سے ملکی سا لمیت پر کیا اثر پڑے گا ، اسے قوم کی وحدت و اتحاد کے تقاضے کیونکر زیر و زبر ہو کر رہ جائیں گے ، اس سے حیات ملی میں کس قدر انتشار رونما ہوگا، کوئی قطعاً نہیں سوچتا کہ یہ نعرے بازی اور ہنگامہ آرائی اس مملکت کو کس انجام سے دوچار کرے گی ، جس کے حصول و قیام کے لیے اس قدر عظیم جنگ لڑی گئی اور جس کے دفاع و تحفظ کے لیے ائوں کے نور نظر قربان ہوئے اور انسانوں کو بیش بہا قربانیاں دینی پڑیں۔

نئے اور پرانے پاکستان کی منطق کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ آج اس مملکت کے بیشتر افراد ملک کے مفاد کو اپنا مفاد سمجھتے ہیں اور نہ اس کے نقصان کو اپنا نقصان ۔ جب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فلاں اقدام سے ملک کو نقصان پہنچے گا تو ملک کے عوام اس کا کوئی گہرا اثر قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے ، وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اس سے ان کا کیا نقصان ہوگا ، نقصان ہوگا تو ان دو تین سو خاندانوں کا جو ملک کی دولت سمیٹ سمیٹ کر کروڑ پتی اور ارب کھرب پتی بن بیٹھے ہیں اور اگر عوام سے یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں کام کرنے سے ملک کو فائدہ پہنچے گا تو وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں بھلا اس سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے ، اگر کوئی فائدہ پہنچے گا تو ان کو جو اپنے کاروبار اور سیاست کے زور پر ایک سے دس بنارہے ہیں ۔ سوچئے کہ یہ ذہنی ردعمل جو افراد مملکت میں پیدا ہوچکا ہے کس ہولناک رجحان کی نشان دہی کررہا ہے ۔
جب ایک مملکت میں صورت یہ پیدا کردی گئی ہو کہ چند سو خاندانوں کو معاشی اور سیاسی اجارہ داری حاصل ہو اور باقی کروڑوں ان کی جلب ِ زر و ہوس اقتدار کے ہاتھوں ضروریات زندگی اور بنیادی حقوق سے محروم ہوتے جارہے ہوں تو انہیں کیونکر ایک مشترک مفاد اور مشترک مقصد پر لایا جاسکتا ہے ۔آج پاکستان کی سب سے بڑی بد نصیبی یہی ہے کہ اس کے افراد مملکت میں نہ نظری طور پر وحدت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور نہ عملی طور پر انہوں نے معاشرت سے معاشیات کا کوئی نظام بروئے کار لایا گیا جس سے پسے ہوئے طبقے کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی رونما ہوسکتی۔ یہ ہماری ملکی تاریخ کی ایک درد ناک داستان ہے جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک برابر جاری ہے اور اس کے نتیجے میں جو بدنصیبی اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے اس پاکستان کے حصے میں آئی ہے ، اس پر جس قدر آنسو بہائے جائیں کم ہیں ، میں اس داستان ِ غم کے ماضی کے اوراق الٹنا نہیں چاہتا کیونکہ یہ داستان اس قدر طویل ہے کہ اس تفصیل بیان کرنے کے لیے سینکڑوں صفحات چاہئیں ۔ اس وقت اس تازہ ہنگامہ آرائی کو سامنے لانا مقصود ہے جس میں ایک بار پھر حزب اختلاف سڑکوں اور کنٹینر کی سیاست کے لیے اسلام آباد میں عام انتخابات کے اعلان کئے جانے تک دھرنا دینے کی دھمکی دے چکی ہے۔
جمہوری نظام میں احتجاج ، جلسے جلوس ، دھرنے وغیرہ کی معمانت نہیں لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ جب اسی جمہوری نظام کے ماننے والوں میں یہ اختلاف پیدا ہوا کہ پارلیمنٹ میں آئین کے مطابق ہوئے اقدام کو اپنی مرضی کے مطابق نتائج نہ ملنے پر مسترد کردیا جائے۔ شنید ہے کہ بڑا احتجاج اور مظاہرے عید الفطر کے بعد ملک گیر سطح پر برپا کیا جائے گا ، آئین کے مطابق عمل اور آئین کے خلاف اقدامات کے مسئلے کو جس رنگ میں رنگا جا رہا ہے اس نازک مرحلہ پر مذہب کا رنگ دے کر قومی اتحاد اور ملکی امن کو جس طرح فتنہ و فساد کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ ہمارے ملکی و قومی سالمیت کے لیے بہت بڑے خطرے کا الارم ہے اور ایسے حالات میں اداروں نے گر کمزوری یا مصلحت کا مظاہرہ کیا تو خطرہ ہے کہ ان کی یہ روش مصلحت آمیز اس فتنہ و شر کی حوصلہ کا موجب بنتی چلی جائے گی ۔
ایک وقت تھا کہ روس انتہائی رویہ اختیار کرکے، یعنی ایک طرف کشمیر کو بھارت کا حصہ کہہ کے اور دوسری طرف پشاور کے گرد دائرہ کھینچ کے اسے تباہ کردینے کا اعلان کرکے، جہاں بھارت کو پوری طرح اپنا ممنون بنا لینا چاہتا تھا وہاں پاکستان کو جتانا چاہتا تھا کہ امریکہ کی دوستی اور روس کی دشمنی میں اس کے لیے کون سا انتخاب سود مند رہے گا۔ یہ حقیقت تعجب انگیز ہی سہی لیکن اپنی جگہ اہم ہے کہ پاکستان کے بارے میں اتنا مخالفانہ رویہ اختیار کرنے کے باوجود روس نے ہمیشہ پاکستان سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا کئی بار اظہار کیا۔ دراصل وہ بھارت اور پاکستان دونوں کی امریکہ سے وابستگی ختم کرنا چاہتا تھا اقوام متحدہ میں بھی اس کا یہی کردار رہا۔ تاہم روس نے یہ بھی کوشش کی کسی بھی طرح کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے تاکہ خطے میں امن قائم ہو، اس کی دلچسپی امریکی داخلت کو خطے میں بڑھنے سے روکنی تھی، کیونکہ استعماری قوتیں نہیں چاہتیں کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو۔
کچھ یہی حال اس وقت ہمارے اہل سیاست کا ہے کہ ایک ملک میں رہتے ہوئے، ان کے سیاسی نظریات ایک دوسرے مطابقت نہیں رکھتے، مخالفت میں اتنا آگے بڑھ جاتے ہیں کہ واپسی کا تصور کرنا ہی محال ہوجاتا ہے، لیکن یہ بھی سب دیکھتے ہیں کہ بدست و گریباں ہونے والے شیر و شکر ہوجاتے ہیں، یہی حال اب ایسے عناصر کا ہے جو ایک مرتبہ پھر اسلام آباد کو تختہ مشق بنانے کی سعی کرنا چاہتے ہیں، حالاں کہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ماضی میں کی جانے والی کوشش بری طرح ناکام اور بدنام ہوئی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button