ColumnFayyaz Malik

 نئے امتحان اور حمزہ شہباز ۔۔۔ فیاض ملک

آخر کارپنجاب اسمبلی میں ہونے والی مار دھاڑ ، بھر پور احتجاجی رویوں، عدالتی چارہ جوئیوں اور اختلافات سے لبریز بیانات کے طویل سلسلوں سے نبردوصبرآزما ہونے کے بعد 30 اپریل کو پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کو اس کا وزیر اعلیٰ مل ہی گیا ،پونے چار سال کی جدوجہد کے بعد ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ نون نے پنجاب کا اقتدار سنبھال لیا ،اب کی بارپاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما میاں حمزہ شہباز شریف نے صوبے کے 21ویں وزیر اعلی کا حلف اٹھایا، وہ ایک متحرک اور کارکنوں میں مقبول رہنما خیال کئے جاتے ہیں۔ سیاست میں آئے تو حکومتی ایوانوں میں پہنچنے سے پہلے صرف 19برس کی عمر میں پہلی مرتبہ جیل گئے،جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء میں نواز شریف خاندان کو جلاوطن کیا گیا تو ان کو شریف فیملی کے ضامن کے طور پر پاکستان میں ہی رکھا گیا۔ 2008 اور 2013 کے الیکشن میں اندرون شہر کے حلقے این اے 119 سے دو مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے،جولائی 2018 میں رکن پنجاب اسمبلی بننے کے بعد پہلی مرتبہ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے، حمزہ شہباز گزشتہ ادوار کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نون کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کرتے رہے، انہیں پارٹی میں کارکنوں سے مسلسل رابطہ رکھنے والے سیاسی رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ باپ کے بعد بیٹے کا وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر فائز ہونے کا سفر جتنا کٹھن تھا اس سے کہیں زیادہ مشکلات عوامی خدمت اور ان کی توقعات پر پورا اترنے کے حوالے سے حمزہ شہباز کو پیش آئیں گی۔

موجودہ حکومت کا سب سے بڑا چیلنج معاشی و اقتصادی بحران سے نمٹنا ہے لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکے گا جب مخلوط حکومت اپنے اتحادیوں کو راضی رکھ سکے گی، وزارت اعلیٰ کی مسند پر بیٹھنے والے حمزہ شہباز ایسے وقت میں برسراقتدار آئے ہیں جب پنجاب کی عوام کو روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بیروزگاری ،امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سمیت دیگر سنگین نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے،یہی نہیں جہاں حمزہ شہباز کوان عوامی مسائل سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے وہیںپنجاب میں پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک سے بھی نمٹنے کے لیے موثر سیاسی حکمت عملی اختیار کرناپڑے گی۔ حمزہ شہباز کے لیے مختلف پارٹیوں سے شامل وزرا پر مشتمل کابینہ کو ساتھ لیکر چلنا بھی ایک چیلنج ہو گا۔ وزیراعلیٰ حمزہ شہبازنے عوامی خدمت کے لیے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اقتدار کی مسند پر بیٹھتے ہی سب سے پہلے سول ہسپتال بہاولپور کا دورہ کیا ،
انہوں نے ہسپتال میں صفائی کے ناقص انتظامات اوربعض آلات خراب ہونے پر بھی متعلقہ حکام کی سرزنش کی اور ہدایت دی کہ آئندہ ایک ماہ کے اندر تمام خراب آلات کو درست کیا جائے، اس موقع پر ہسپتال کے بچہ وارڈ میں زیر علاج بیمار بچی کے والد کو دیکھ کر رک گئے اور ان سے بچی کو لاحق بیماری پوچھنے کے بعدکمشنر بہاولپور اور قائد اعظم میڈیکل کالج کے پرنسپل کو اسکے علاج کیلئے فوری طورپر ڈاکٹروں کا بورڈ تشکیل دینے کی ہدایت دی۔لاہور میں کوٹ لکھپت جیل میں قیدیوں کی سزائوں میں 60 روز کی کمی اور جیل میں متعین سپاہیوں کی تنخواہیں بڑھانے کا اعلان کیا،انہوں نے صوبے کے بعض شہروں میں ڈیزل کی قلت کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ڈیزل کی دستیابی یقینی بنانے اور اس کے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کیں،حمزہ شہباز کے عوامی فلاح و بہبود کے حوالے سے کئے جانیوالے ہنگامی دوروں میں ان کے والد کی (جھلک) نمایاں نظر آرہی ہے۔
جب شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے انہوں نے عوامی فلاح بہبود کے حوالے سے سینکڑوں اقدامات کئے جن میں سرفہرست غریبوں کے لیے بلکہ ہر شہری کے لیے روٹی کی قیمت ایک روپے والا اقدام تھا، جس کا سب سے بڑا فائدہ غریب، محنت کش، دیہاڑی دار طبقے کو ہوا ، اسی طرح صوبے بھر کے تمام بڑے چھوٹے ہسپتالوں میں شہریوں کو ہر قسم کے مفت علاج و معالجہ کی سہولت کی فراہمی بھی ان کا ایک اہم اقدام تھا ۔پولیس اور بیوروکریسی کو حقیقی معنوں میں عوام کا تابعدار بنانے کے لیے کئے جانیوالے اقدامات کوشہری آج بھی یاد کرتے ہیں،سابقہ ا دوار میں جس طرح شہباز شریف نے پنجاب کی ترقی کے لیے جو کام کئے اس کی بناء پر دیگر صوبوں کی عوام یہی مطالبہ کرتی نظر آتی تھی کہ ہمیں شہباز شریف جیسا ایڈمنسٹریٹر چاہیے،لیکن پی ٹی آئی کی حکومت میں مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے
غریب متوسط طبقہ شدید متاثر ہوا۔
ایک روپے کی روٹی لیکر کھانے والا غریب اور محنت کش طبقہ ایک بار پھر شہباز شریف کو یاد کرنے لگا، مہنگائی کی وجہ سے روزمرہ اشیاء کی قیمتیں عام آدمی کی قوت خرید کی پہنچ سے دور ہوگئیں ، پٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس سمیت روزمرہ سے جڑے معاملات میں واقعی لوگ پریشان ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تبدیلی کا حقیقی ایجنڈا کہاں ہے۔مہنگائی کی وجہ جہاں عالمی حالات ہوسکتے ہیں وہیں ایک بڑا مسئلہ حکومتی سطح پر معاشی مینجمنٹ، نگرانی، جوابدہی اور شفافیت سے جڑے مسائل ہیں جو اس مسئلہ کا بہتر حل تلاش کرنے میں ناکام ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ وہی ملک ترقی کرتا ہے جس کی عوام خوشحال ہو، عوام کی خوشحالی کے بغیر ترقی کا تصور ایسے ہی ہے جیسے بلی کو چھیچھڑوں کے خواب، کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ ملک ترقی کرے گا تو ہی عوام خوشحال ہو گی
لیکن درحقیقت ترقی کا اصل راز یہی ہے کہ سب سے پہلے عوام کو خوشحال بنایا جائے تاکہ وہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی فکر سے آزاد ہو سکیں اور اپنی پریشانیوں و مشکلات سے نکل کر بہتر انداز میں ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں، موجودہ نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ کس طرح عوام کو بنیادی ضروریات حاصل کرنے کی فکر سے آزاد کیا جا سکے ، اب پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ملکی سلامتی، بھائی چارے کے فروغ، غربت کے خاتمہ، کرونا سے پیدا شدہ معاشی و اقتصادی بحران، مہنگائی کے خاتمہ اور عام آدمی کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی خاطر متحد ہو کر کام کریں اور مثبت سیاسی نظریے کو فروغ دیں،اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 2023 کے انتخابات میں ایک بڑی سیاسی جنگ پنجاب میں لڑی جانی ہے یہی سیاسی جنگ مستقبل کی حکمرانی کے نظام کا تعین بھی کرے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button