
Ahmad NaveedColumn
آئی ایم ایف اور پاکستان کی شادی کی حسین داستان ۔۔۔ احمد نوید
بشر کے روپ میں اک دلربا طلسم بنے
شفق میں دھوپ ملائیں تو اُس کا جسم بنے
وہ معجزات کی حد تک پہنچ گیا ہے قتیل
حروف کوئی بھی لکھوں اسی کا اسم بنے
پاکستان اور آئی ایم ایف کے عشق کی داستان بھی اِن اشعار سے زیادہ مختلف نہیں ۔ اس عشق کی ابتداپہلی بار 1958میں ہوئی تھی۔ جب پاکستان آئی ایم ایف کے عشق میں مبتلا ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب دونوں میں زیادہ قربت نہیں تھی ۔ تھوڑی سی جھجک ، شرم ، حیا ، تکلف، بھرم اور دونوں کے درمیان ابھی عشق میں شدت نہیں آئی تھی۔ دونوں کے درمیان ہونے والی اس پہلی ملاقات میں پاکستان نے ایک محبت بھرا خط آئی ایم ایف کو تھمایا تھا۔پاکستانی محبت نامے میں اُس وقت آئی ایم ایف کو
ایک شعر لکھ کر دیا گیا تھا۔
بھرم رکھ لو محبت کا ، وفا کی شان بن جائو
ہماری جان لے لو یا ہماری جان بن جائو
یہ پاکستانی عاشق کی آئی ایم ایف کو بہت بڑی آفر تھی۔ آئی ایم ایف سے ایسی محبت کا اظہار پہلے کسی سڑک چھاپ عاشق نے نہیں کیا تھا، لہٰذا آئی ایم ایف کے دل میں پاکستانی عاشق کے لیے جذبہ خیر سگالی پیدا ہو نے کا آغاز ہوا۔ پاکستان کے آئی ایم ایف کی جانب دو قدم اٹھانے پر آئی ایم ایف نے بھی ایک قدم بھرنے کی ہمت دکھائی ۔ آئی ایم ایف نے اپنے عاشق سے کہا کہ تمہاری محبت سر آنکھوں پر مگر تمہاری خیر خواہی ، تمہارے خلوص اور تمہاری اپنائیت پر میں آنکھیں بند کر کے اعتبار نہیں کر سکتی ۔ اس لیے میری کچھ شرائط ہیں جن پر تمہیں عمل کرنا ہوگا اور اگر میرے پیارے عاشق تم نے میری وہ شرطیں مان لیں تو میری آنکھوں میں بھی تم اپنے لیے محبت دیکھو گے ۔
پاکستانی عاشق نے آئی ایم ایف جیسی حسین ترین دلربا پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔ دوسرا اس عاشق کا اُس وقت تک کوئی بہت بڑا ذریعہ آمدن بھی نہیں تھا۔ یہ نوجوان اُس وقت تک 2مرلے کے کچے پکے گھر میں رہائش پذیر تھا۔ اُس نے دل میں سوچا کہ اگر ایک نہایت مالدار حسینہ سے شادی ہو گئی تو یقینا اُس کے دن پھر جائیں گے ۔ نوجوان عاشق دل میں طرح طرح کے خیالی پلائو پکانے لگا۔نوجوان نے سوچا کہ ظالم حسینہ سے ملنے والی بھاری رقم سے وہ کوئی کاروبار کرے گا۔ کاروبار بہتر ہونے پر جب وہ خود کفیل ہو جائے گا تو آئی ایم ایف رانی کو طلاق دے کر کسی پاکباز پاکستانی دوشیزہ سے شادی کر لے گا۔
دوسری طرف امریکی رانی آئی ایم ایف بھی ایک ساز ش بن رہی تھی ۔ وہ تہیہ کر چکی تھی کہ وہ اپنے اس نئے عاشق کو کبھی خود مختار ہونے نہیں دے گی ۔ اُس کے ترقی اور مضبوطی کے تمام خوابوں کو چکنا چور کر کے اپنے پائوں تلے روند دے گی ۔ اس منصوبہ بندی کے تحت حسینہ آئی ایم ایف نے اپنے پاکستانی عاشق سے کہا کہ ہم دونوں کی شادی سے قبل تمہیں اپنی حالت بدلنا ہوگی ۔ میں تمہیں کچھ پیسے قرضے کے طورپر دوں گی ۔ جس سے تم کوئی کاروبار شروع کرو۔ لیکن اُس کاروبار میں تمہاری کوئی مرضی نہیں چلے گی ۔ میں جو کہوں گی جیسا کہوں گی ، تمہیں ویسا کرنا ہوگا۔ پاکستانی عاشق نے دل میںسوچا کہ یہ تو مجھے اپنا غلام بنانا چاہتی ہے اور اگر میں ایک بار اس کا غلام بن گیا تو آئی ایم ایف کی مرضی کے تابع آجائوں گا۔ پاکستانی عاشق کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ اُس نے سوچا فی الوقت یہ زہر کا پیالہ پی لیتا ہوں ، بعد میں کوئی نہ کوئی راستہ نکال لوں گا ، کوئی جگاڑ لگا لوں گا۔
پاکستان اورآئی ایم ایف کی منگنی ہوئی تو رانی آئی ایم ایف نے اپنے عاشق کو پہلی بار 25لاکھ امریکی ڈالر نذر کیے ۔ پاکستانی عاشق نے رقم ملتے ہی اپنے خوابوں کو سرخرو کرنے کے لیے جدو جہد شروع کر دی۔ اُس نے کچھ ترقیاتی پروگرام بنائے ، اپنے گھر کے حالات بدلنے کے لیے کچھ معاشی پالیسیاں مرتب کی ۔ کچھ ذہین لوگوں کو اپنا ہمنوا بنا کر کام کا آغاز کیا۔ شاطر آئی ایم ایف اپنے عاشق پر مسلسل آنکھ رکھے ہوئے تھی۔ بیچارہ عاشق کڑی شرائط میں اپنی محبوبہ آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لیے کوشا ں رہا ۔ دوسری طرف عاشق کے اپنے دوست ، ساتھی ، ہمنوا اُسے دھوکہ دینے کا آغاز کر چکے تھے۔ پاکستانی عاشق کو ملنے والے 25لاکھ امریکی ڈالرز پر اُس کے ساتھی لالچی نظریں جمائے بیٹھے تھے ، بیچارہ پاکستان دن رات محنت کر رہا تھا اور اُس کے مکار ، خود غرض، دھوکے باز دوست اُس رقم میں خرد برد اور کرپشن کاآغازکر چکے تھے۔ پاکستانی عاشق کو پہلے پہل تو پتہ ہی نہیں چلا کہ اُس کے قریبی دوست اور بہت سے بڑے عہدوں پر بیٹھے ملازم اُن پیسوں میں ہیرا پھیری کر رہے ہیں ۔ پاکستانی عاشق کے ملازموں نے کاروبار کے منافع کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے لیے بھاری مراعات اور بڑی بڑی تنخواہوں کا تعین کر لیا ۔
اب رانی آئی ایم ایف کا عاشق مشکل میں پھنس چکا تھا۔ ایک طرف آئی ایم ایف اُن پیسوں پر سود اور سود کے ساتھ ساتھ کڑی اور سخت شرائط پر عمل درآمد مانگ رہی تھی ۔ دوسری جانب پاکستانی عاشق کے دوست دونوں ہاتھوں سے پاکستان کو قرضے میں ملنے والی دولت کو لوٹ رہے تھے ۔
دوستو! پاکستانی عاشق اور ملکہ آئی ایم ایف کی ملاقاتوں کا انجام با لآخر شادی پر اختتام پذیر ہوا۔ پاکستان اپنی بیوی کو کئی بار طلاق دینے کی کوشش کر چکا ہے لیکن شاید ایسا ممکن ہونا بہت مشکل ہے ۔ ایک غریب ترین شوہر اور امیر ترین بیوی کے رشتے میں طلاق یا خلع صرف اُسی وقت ممکن ہے جب بیوی کو شوہر پر ترس آجائے ۔ فی الحال آئی ایم ایف جیسی حسینہ جس کے چنگل سے آزاد ہونا بہت مشکل ہے ، اپنے عاشق اور شوہر پر ترس کھانے کے لیے ہر گز تیار نہیں ۔ ملکہ آئی ایم ایف جانتی ہے کہ اُس کے عاشق کے ساتھی ، دوست اور ملازم دیانت دار نہیں بلکہ کرپٹ ہیں ۔ رانی کو معلوم ہے اُس کا عاشق اُس کا مکمل طور پر غلام بن چکا ہے اور وہ اُس وقت تک غلام اور بے مراد ہی رہے گا، جب تک اُس کے دوست اُسے دھوکہ اور فریب دیتے رہیں گے۔
دوستو! اس شادی کا انجام کسی کو نہیں معلوم ۔ تاہم سننے میں آیا ہے کہ پاکستانی عاشق کی طرح اُس کے کچھ ہمسایہ دوست بھی اس ظالم حسینہ کے چنگل میں پھنس گئے تھے ، مگر پاکستان کے اُن ہمسایہ دوستوں نے بہت محنت ، ذہانت ، جانفشانی اور جدوجہد سے اس امریکی خوبرو حسینہ سے جان چھڑا لی ہے ۔ اب وہ ہمسائے ترقی بھی کر رہے ہیں اور خوشحال بھی ہیں۔ مگر پاکستانی عاشق اب بھی اپنی محبوبہ اور ظالم دلربا آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر زندہ ہے۔
بیچارہ پاکستانی عاشق ، محبت کی تو وہ غلط جگہ ۔ جو دوست اور ہمنوا بنائے ، وہ کرپٹ اور دھوکے باز نکلے ۔
دوستو! غلط محبتوں اور غلط دوستیوں کے یہی انجام ہوتے ہیں۔