ColumnNasir Naqvi

فسادی ہمیشہ کی بربادی ۔۔۔۔ ناصر نقوی

ہمیشہ سمجھدار لوگ بولنے سے پہلے سوچتے ہیں بلکہ ہزار بار سوچتے ہیں اس لیے کہ تلوار کے زخم بھر جاتے ہیں لیکن زبان کی غیر ذمہ داری سے لگے گھاؤ ریکارڈ کا حصہ بن جاتے ہیں اور پھر گلی محلہ ہو کہ خاندان یاپھر ریاست ان ہی الفاظ پر لڑائی ہوتی ہے اگر تفصیلی جائزہ لیں تو دکھائی دے گا کہ معمولی تکرار پر کتنے ہی مارے جاتے ہیں کہاں ہمارے معاشرے میں جہاں اکثریتی کلمہ حق پڑھنے والوں کی ہے دین حق اسلام کا کہنا ہے کہ جس نے ایک شخص کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا مذہب کہتا ہے کہ جو اپنے لیے پسند کرو وہی اپنے مسلمان بھائی کے لیے پسند کرو ،حکم ہے کہ امربالمعروف و فہمی المنکر۔ پھر بھی رواداری اور برداشت کا فقدان موجود ہے کتاب الٰہی قرآن مجید بتاتا ہے کہ فتنہ فساد برپا کرنے والا ہم میں سے نہیں۔ بس اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو پھر دنیا بھر میں یہ بات ثابت بھی ہو گئی کہ فساد ی ہمیشہ کی بربادی ہے جس معاشرے اور ریاست میں بات بات پر فساد ہو گا وہاں ترقی وخوشحالی کبھی نزدیک بھی نہیں آئے گی لیکن ہم اور آپ سب کچھ جانتے ہوئے بھی محتاط رویہ اپنانے کو تیار نہیں حالانکہ چھپے دشمن کرونا نے دنیا بھر میں انسان دشمنی کے باوجود ہمیں یہی سبق دیا کہ محتاط انداز ہی زندگی ہے اس نے یہ بھی سمجھایا کہ زندہ رہنے کے لیے جہاں صفائی ستھرائی ضروری ہے وہاں سماجی فاصلے بھی رکھو یعنی کام سے کام کی عادت اپنالو،
ہلہ گلہ، پارٹیاں جاری بھی رکھو تو احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو ورنہ میں ہوں تمہیں دنیا سے نجات دلانے کے لیے ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ زندگی اور یہ حسین دنیا قدرت کا تحفہ ہے اور یہاں کوئی نہیں جانتا کہ کتنا عرصہ رہنا ہے پھر بھی زبان و بیان میں آزاد ، کون سی بات کب کرنی ہے اس کے نتائج کیا بھگتنے پڑیں گے سب چل رہا جس سے تعلق محبت اور مفادات و ابستہ ہیں وہی سب کچھ ہے باقی سب چھان بورا ۔ یہ سوچ کیوں ہے کبھی ہم غور نہیں کرتے؟ دراصل اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کا پیغام ملنے پر بھی غافل ہیں ہم رحمان سے ہمیشہ، ہر حال میں معافی کی تمنا رکھتے ہوئے شیطان کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں اور نتیجہ فساد، بات بات پر لڑائی جھگڑا ، قتل وغارت گری اور حضرت شیطان خوش کیوں کہ اللہ تو معاف کرنے والا ہے توبہ کے دروازے 24 گھنٹے کھلے ہیں پھر کس بات کا خوف؟ ویسے بھی ہم اللہ کے محبوب ﷺکے امتی ہیں وہ روز محشر بچالیں گے دنیا میں بھی تو آپ ﷺ ہی کے دم قدم سے سب کچھ اچھا برا جائز ناجائز کرکے جی رہے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو دوسری قوموں کی طرح ہم پر بھی عذاب آجاتا لیکن ایسا نہیں ہو سکتا اس لیے کہ مالک کائنات نے اپنے محبوب ﷺ سے اس کی قوم پر عذاب نہ بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔
ان سب باتوں کے باوجود یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ آپ فساد کاباعث بنیں، لوگوں کی زندگی اجیرن کریں، اپنے مفادات اور عیش وعشرت کے چکر میں دوسروں کو بھوکا مار دیں، آپ اپنی دانشمندی یا بے عقلی میں لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کر کے معاشرتی روایات بھسم کر دیں فلاحی معاشرے کی تشکیل کی بجائے کچھ ایسا کر دیں کہ معاشرہ یک آواز ہونے کی بجائے منتشر ہوکر ٹکڑوں میں بٹ جائے، ایسے میں یاد
رکھیں وہ صرف رحمان و رحیم ہی نہیں بلکہ جبار وقہار بھی ہے اور اس نے تمام جانوروں میں آدم زادے کو عقل و فہم دے کر اشرف المخلوقات بھی بنایا ہے اس لیے بے عقل جانوروں کے مقابلے میں احتساب آپ کا ہوگا کیوں کہ آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کا غلط استعمال کیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ وہ بہترین انصاف کرنے والا ہے اور جسے آپ انصاف سمجھتے ہیں وہ ہر گز انصاف نہیں ، اسی لیے سمجھدار لوگ اللہ تعالیٰ سے رحم وکرم مانگتے ہیں انصاف نہیں ، شیر خدا ، دامادرسول حضرت علیؓ سے کسی نے پوچھا کامیاب زندگی کا راز کیا ہے؟ آپؓ نے جواب دیا میانہ روی۔ بھوک ہو تو اتنا کھاؤ جس سے کام چل جائے، باقی بھوکوں میں بانٹ دو، مال ودولت ہے تو صرف ضرورت کے مطابق رکھو باقی شکر خدا میں غریبوں کو دے دو، جب تمہارے پاس سب کچھ ہے اس وقت صبر و تحمل کا مظاہرہ کرکے دوسروں میں خوشیاں پھیلائو، جب کچھ نہ ہو تو اپنے رب کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہیں کسی امتحان میں نہیں ڈالا مال و دولت فتنہ فساد کا باعث بنتی ہے لہٰذا مفلسی کو عیب مت سمجھو اس میں اس رب کا شکر ادا کرو جس نے تمہیں انسان بنایا جانور نہیں، جان دی اور جہان دیا عقل وسمجھد دی اپنے لیے نہیں، خلق خدا کی بھلائی کے لیے ۔ جھک جاؤ اس کے حضور۔ جس نے تمہیں افضل مخلوق بنایا، جہنم سے ڈرو نہ ہی جنت کی خواہش کرو۔ زندگی میں میانہ روی، یہی کامیابی کا راز ہے۔
ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر تیسرا رخ میں متعصب ہونے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں سے اس لیے ناراض ہو جائیں کہ وہ ہماری پسند کا سچ نہیں بول رہے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ سیاست نے الفاظ کو عزت اور وقار سے محروم کر دیا ہے لیکن وہ ایک کڑوی بات بھی برملا کر دیتے ہیں کہ بہت سے لوگ گالی دے کر اپنی نسل کی غلاظت کا راز فاش کر دیتے ہیں ان ارشادات ڈوگر کی روشنی میں آج کی سیاست کو پرکھیں تو ہوش اڑ جاتے ہیں سیاست میں لوٹا کریسی پرانی روایت ہے لیکن سیاست کو عبادت سمجھنے کے دعویدار بھی اپنے اپنے موقف پر نہ صرف ڈٹے ہوئے ہیں بلکہ ایک دوسرے کا گریبان پھاڑنے پر تلے ہیں صادق اور امین وزیراعظم اقتدار میں ہی فارن فنڈنگ کیس میں پھنسے ہوئے تھے اب فراغت کے بعد توشہ خانہ گلے کی ہڈی بن گیا ہے خان اعظم جلد از جلد الیکشن سے مسائل کا حل ڈھونڈنے کی فکر میں ہیں مسلم لیگ نون اور متحدہ اپوزیشن کس حد تک احتسابی چکی سے بچ نکلی ہے اس لیے اب ان کی خواہش ہے کہ کھلاڑی بھی اس میدان میں ایک آدھ میچ کھیل لیں
جبکہ عمران خاں کا خیال ہے کہ کراچی، پشاور اور لاہور میں دھمکی آمیز خط اور قومی سلامتی کا چورن ہاتھوں ہاتھ بکا ہے اس لیے فوری الیکشن سے ان کی جیت یقینی ہے انہوں نے پہلے پہل اداروں اور عسکری قیادت کو زبردست تنقید کے نشانے پر رکھا لیکن جلد ہی انہیں سمجھ آگئی کہ یہ نقصان کا سودا ہے یا پھر کسی نے سمجھا دیا کہ سمجھ جاؤ اور وہ سمجھ گئے اب فرماتے ہیں میں ضروری نہیں ، مملکت کی بقاء اور سلامتی کے لیے فوج ضروری ہے پھر بھی یو تھیئے ۔ اپنے قائد کی یہ بات نہیں مانتے حالانکہ وہ اسے نجات دہندہ سمجھتے ہیں خان اعظم کا فرمان ہے کہ اللہ نے میری تربیت کر کے پاکستان اور پاکستانیوں کی فلاح کے لیے بھیجا اور اللہ معاف کرے یوتھیئے اپنے قائد کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے ایمان رکھتے ہیں، لیکن کسی یوتھیئے کے سامنے یہ بحث نہ چھیڑیئے گا ورنہ ٹوٹو میاں کی طرح آپ کے سر کی بھی خیر نہیں ہو گی ۔ سیاست میں تعصب پھیل چکا ہے ادھر والے ہوں یا اُدھر والے سب کے سب اس قدر متعصب ہو چکے ہیں کہ ایک دوسرے کی سننے کو بھی تیار نہیں ۔ ایسے میں ہی سب فسادی بن جاتے ہیں
حالانکہ فساد بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں یعنی لاحاصل پھر پھر بھی اس غلطی سے قومیں تباہ ہو جاتی ہیں لیکن جب کھلاڑی یہ یاد دلائیں گے کہ عوامی جمہوریہ چین کرپشن پر پھانسی دیتا ہے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کرپشن پر وزارتیں بانٹتا ہے تو پھر متوالے فساد کریں گے جب کھلاڑی نشاندہی کریں گے کہ وزراء کی اکثریتی ضمانت پر ہے اور جو ضمانت پر نہیں وہ ضمانت کروانے والا ہے تو متوالے ردعمل میں یہ راگ تو الاپیں گے کہ عمران خان، صدر عارف علوی ، شاہ محمود قریشی نے جب اقتدار سنبھالا تو یہ اہم ترین بھی ضمانت پر ہی تھے ،ان کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف، شہباز شریف ، حمزہ ، مریم اور ان کے اہم دوستوں پر انتقامی کارروائی پر مقدمات بنائے گئے لیکن یہ نڈر اور دلیر تھے صبرو تحمل سے جیل کاٹ لی اور کسی پر کچھ ثابت نہیں ہو سکا ، بقول عمران خان ۔ گھبرانا نہیں ۔ یو تھئے گھبرائیں نہیں ، اب ان کی باری آگئی ہے ہم بھی دیکھیں گے کہ وہ کتنی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہیں ؟
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھیں تو خبر یہی ہے کہ بڑے بڑوں کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کر دیا گیا ہے بلکہ انجینئرموجود ہیں ہمہ وقت اسی خدمت کے لیے پشاور اور کراچی کے بعد لاہور میں کپتان کا انرجی لیول بھی درست نہیں تھا حالانکہ چاہنے والے کم نہ تھے لیکن وہ جو کچھ سننے آئے تھے وہ مصلحت پسندی کی نذر ہوگیایوتھیوں کو خان اعظم نے مایوس کیا تاہم شیخ رشید جیسے ابھی بھی عمران خاں کے قریب ہیں ان کی جذباتی تقاریر کوئی چن چڑھا سکتی ہیں جو بربادی کا سامان بن جائے گی موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت کو اس کے حال پر چھوڑ کر الیکشن کی تیاری کی جائے ، لڑائی جھگڑے کی بجائے قومی یکجہتی کو پروان چڑھائیں متحدہ اپوزیشن کے لیے حکومت کڑا امتحان ہے مہنگائی اور معاشی بد حالی جادو کی چھڑی سے ہر گز کنٹرول نہیں ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button