ColumnM Anwar Griwal

روزہ دارو، پکوڑے بڑی نیامت!! … محمد انور گریوال

محمد انور گریوال
پکوڑوں کی مقبولیت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ رمضان المبارک اور پکوڑے لازم و ملزوم ہیں، اگر افطاری کے وسیع و عریض دستر خوان پر پکوڑے نہیں ہوں گے تو افطاری ادھوری ،پھیکی یا شاید نامکمل ہوگی۔ شاید کوئی وقت ایسا بھی آجائے جب پکوڑوں کو افطاری کے ثواب کا لازمی حصہ قرار دے دیا جائے، یعنی جس افطاری میں پکوڑے نہ ہوں وہاں روزے کی تکمیل کو ہی مشکوک کہا جانے لگے۔ اگلے وقتوں میں فتوے علماء کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر تبصرہ نگاران بھی دیا کریں گے، جو رجحان ٹاپ ٹرینڈ بن گیا وہ قانون بھی بنتا جائے گا ، اصول بھی اور روایت بھی کہلائے گا۔ پکوڑے تو ایسی چیز ہیں جن پر مفتیانِ کرام کا کوئی زیادہ اختلاف بھی نہیں ہوگا، البتہ جو یکسوئی حلوہ کے بارے میں پائی جاتی ہے، شاید رمضان میں پکوڑے وہ مقام حاصل نہ کر سکیں، تاہم پکوڑوں کو رمضان میں حلوہ پر بھی فضیلت و فوقیت حاصل ہے۔
میں نے بھی بڑی کوشش کی ہے کہ کوئی افطاری ایسی بھی ہو جائے، پکوڑے جس کا لازمی حصہ نہ ہوں، مگر ابھی تک کامرانی نصیب نہیں ہوئی۔ گرمی کے رمضان میں جب نمازِ عصر کے بعد انسان مکمل طور پر نڈھال ہو چکا ہوتا ہے، ایسے میں سخت جان و سخت کوش خواتین کچن میں پہنچ کر آلوئوں کی خبر گیری شروع کرتی ہیں، ٹوکری میں پڑے آلو خوفزدہ نظروں سے خاتونِ خانہ کو دیکھتے اور ایک دوسرے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر حملہ آور ترس کھانے کی پوزیشن میں بالکل نہیں ہوتیں۔ چنانچہ آلو کی کھال اتار کر مختلف زاویوں سے اس کی تکہ بوٹی کی جاتی ہے، کوئی لمبوتری قاشیں بنتی ہیں، کوئی آلو ہی کی شکل کی کٹائی کر کے چپس بنائی جاتی ہے ، یاپھر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے پکوڑوں کی رونق میںاضافہ کیا جاتا ہے۔ یہ آلو تو درمیان میں یونہی ٹپک پڑا، دراصل جیسے پکوڑے رمضان المبارک کا لازمی حصہ ہیں، اسی طرح یہ آلو پکوڑوں کی خاص ضرورت ہیں۔
پکوڑے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ کسی ایک پکوڑے کی شکل دوسرے سے نہیں ملتی، یہی عالم آلوئوں کا بھی ہے۔ شاید اسی قدرِ مشترک کی وجہ سے اِن دونوں کی آپس میں گاڑھی چھَنتی ہے۔ جیسے ہر پکوڑے کی شکل دوسرے سے مختلف ہے، اسی طرح خود پکوڑوں کی بھی بہت سی اقسام ہیں، جو روزہ داروں کے چٹخارے کے کام آتے ہیں۔ پکوڑے کی بنیاد تو چنے کا آٹا بیسن ہی ہے، مگر یار لوگ چونکہ کسی بھی خالص چیز کو صحت کے لیے مضر سمجھتے ہیں، اس لیے بیسن میں گندم وغیرہ کے آٹے کی ملاوٹ جزوِ ایمان جانتے ہوئے ضروری خیال کرتے ہیں۔ صرف بیسن سے پکوڑے بن تو جائیں گے، مگر روایات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ رہے گا، اس لیے اس میں خشک یا سبز دھنیا، پودینہ، آلو، پالک وغیرہ کا استعمال بہت مفید تصور کیا جاتا ہے۔ ان تمام جزویات میں سے سب سے اہمیت آلو کو ہی حاصل ہے۔
عام اور غریب پکوڑوں کے علاوہ وی آئی پی پکوڑے بھی ہوتے ہیں، جنہیں عام اور غریب لوگ نہیںبلکہ وی آئی پیز ہی کھا سکتے ہیں،بڑے ہوٹلوںکے بوفے سسٹم میں یہ پکوڑے کھائے جاتے ہیں۔ الگ بات ہے کہ چکن پکوڑے اور فش پکوڑے تو باہر سے کسی درمیانے سے ہوٹل سے بھی مل سکتے ہیں، مگر یہ بھی تو ہے کہ جب پکوڑے کسی بڑے ہوٹل میں بنیں گے تو ان کو کھانے والے بھی بڑے لوگ ہوں گے، یوں ان پکوڑوں کی کلاس بدل جائے گی اور یہ پکوڑے اونچے نصیبوں والے کہلوائیں گے۔
افطاریوں میں تو پکوڑے اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو ہی چکے ہیں، تاہم رمضان کے علاوہ بھی اس کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں کئی عشرے قبل ایک بابا جی پکوڑوں کی ریڑھی لگاتے تھے۔وہ شام کو اپنے مقام پر پہنچتے اور وہیں کڑاہی میں گھر سے کاٹے ہوئے آلو، کٹی ہوئی سبز مرچیں وغیرہ بیسن میں ڈالتے، (یہاں کے آلوئوں کا ذکر بھی ضروری ہے، یہ بہت ہی چھوٹے سائز کے آلو ہوتے تھے، جن کو بس درمیان میں سے کاٹ لیا جاتا تھا، چھلکا وغیرہ اتارنے کا رواج نہیں تھا،چھلکا البتہ تیار شدہ پکوڑوں میں گاہک ہی کھاتے تھے) آستین چڑھاتے اور پورے مسالے  مکس کرتے اور اسی دوران کڑاہی میں پڑا گھی بھی گرم ہو جاتا، وہ لکڑی سے آگ بھی جلاتے رہتے اور بیسن کڑاہی میں بھی ڈالتے جاتے، بہرحال ہاتھ دھونے کا وہاں کوئی بندوبست نہیں تھا، ان کے یہ کام کرتے کرتے اتنے گاہک اکٹھے ہو جاتے تھے ، کہ کڑاہی خالی ہوتے ہی پکوڑے نکل جاتے۔ آجکل اُس بابے کے پوتے اُسی انداز میں اپنا کام چلا رہے ہیں، ہمارے چھوٹے سے شہر میں یہ چوک ’’پکوڑا چوک‘‘ کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔
پکوڑے کی اہمیت تو دیکھتے ہی دیکھتے افطاری پر حاوی ہو گئی ہے، پہلے والے لوگ تو سادہ پانی یا کسی معمولی چیز سے بھی روزہ افطار کر لیا کرتے تھے، مگر نئی نسل نے جو کچھ دیکھا وہی آگے جا کر کرے گی اور اپنی اولادوں کو بہت ہی یقین کے ساتھ بتائے گی کہ افطاری میں ہم اپنے آبائو اجداد کو اسی طرح پکوڑے کھاتے ہوئے دیکھتے آئے ہیں۔ اگر ان میں سے کسی نے مزاحمت کی کوشش کی، یا افطاری کی بنیادی چیزوں پر اصرار کرنے کی جرأت کی تو وہ تب کے بڑوں کے غیظ وغضب کا نشانہ بھی بن سکتے ہیں۔ اب بھی اگر نوجوانوں کو یقین ہو کہ افطاری میں پکوڑے میسر نہیں ہوں گے تو شاید وہ روزہ رکھنے سے انکار ہی نہ کردیں اور ساتھ ہی روزہ کے لازمی عنصر یعنی پکوڑا کے منکر کو منکرِ روزہ ہی نہ قرار دے دیں۔ بہرحال ابھی وقت ہے کہ نئی نسل پر یہ واضح کر دیا جائے کہ پکوڑا افطاری کا لازمی (شرعی) جزو نہیں ہے، بعد میں صفائیاں پیش کرنا پڑیں گی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم نے خطرے سے بروقت آگاہ کرکے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ قارئین کرام! افطاری سے بچ رہنے والے پکوڑے اب تراویح کے بعد چائے کے ساتھ کھانے ہیں، اجازت دیجئے!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button