ColumnNasir Sherazi

مکین کوئی مدت پوری نہیں کرتا …. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو پہلا برس مسائل سے بھرپور تھا، وہ انہی میں اُلجھے رہے۔ اقتدار سے رخصت ہونے والے صدر جنرل یحییٰ خان کو اُن کی رہائش گاہ میں ہی نظر بند کردیاگیا۔ وزیراعظم پاکستان کی رہائش کے لیے کوئی مناسب جگہ موجود نہ تھی پس اسی خیال کے پیش نظر ایک وسیع و عریض عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ کیاگیا جو وزیراعظم کی رہائش ، اُن کے دفتر کے ساتھ ساتھ سفارتی ضروریات اور اہم سٹاف کی رہائش کی ضروریات پوری کرسکے، ملکی اور غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں، انہیں تاکید کی گئی کہ عمارت مشرقی فن تعمیر کا نمونہ نظر آئے۔ پارلیمنٹ اور ایوان صدر کے لیے مخصوص قطعہ اراضی کے ساتھ اس کے لیے جگہ کا انتخاب کیاگیا اور تعمیر شروع ہوگئی۔ پراجیکٹ خاصا بڑا تھا، بہت تیز رفتاری سے تعمیر شروع کی جاتی، جب بھی چار پانچ برس لگ ہی جاتے، اِس کی تعمیر ہونے سے قبل ہی بھٹو صاحب کا اقتدار ختم ہوگیا۔ جنرل ضیا الحق نے اقتدار سنبھالا تو وہ پاکستان آرمی کے سربراہ تھے، اس حیثیت میں وہ پرانے آرمی ہائوس میں قیام پذیر تھے، صورتحال کے پیش نظر انہوں نے آرمی ہائوس میں ہی رہنا مناسب سمجھا، ان کی ترجیحات مختلف تھیں، بدلتے وقت کے تقاضے بھی قدرے مختلف تھے، وزیراعظم ہائوس کی تعمیر کے پراجیکٹ پر کچھ عرصہ کام رکا رہا، پھر ایک طویل وقفے کے بعد شروع ہوا اور جنرل ضیا الحق کے زمانہ اقتدار میں مکمل ہوگیا، مارشل لا اٹھالیاگیا،

صدر جنرل ضیا الحق نے سیاست دانوں کے پر زور اصرار پر آرمی چیف کے عہدے کو خیر باد کہا۔ انہوں نے اپنی جگہ اپنے نائب کو ذمہ داریاں سونپیں، خود سویلین صدر بن گئے اور ایوان صدر منتقل ہوگئے، وہ قدم بہ قدم جمہوریت بحال کرنے لگے، انہوںنے غیر جماعتی انتخابات کرائے پھر محمد خان جونیجو وزیراعظم
پاکستان بن گئے، نیا وزیراعظم ہائوس ان کا مسکن بنا، ابتدائی برس تو معاملات کو سمجھنے میں لگے پھر جونیجو صاحب نے محسوس کیا کہ وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آئے ہیں لہٰذا معاملات، حکومت چلانا اور اہم فیصلے کرنا ان کا استحقاق ہے۔

یہی وہ ایام تھے جب ان کے اور جنرل ضیا الحق کے مابین اختلافات شروع ہوگئے، ایک موقعہ پر جونیجو صاحب نے جنرل ضیا الحق سے کہا کہ معاملات میں کچھ ابہام ہے، اسے ختم ہونا چاہیے، جنرل صاحب نے پوچھا مثلاً کہاں؟ جونیجو صاحب کہنے لگے ، پہلے بطور آرمی چیف آپ میرے ماتحت تھے لیکن بطور صدر میرے باس تھے، اب بطور وزیراعظم حکومت کا سربراہ میں ہوں لیکن حکم آپ کا چلتا ہے، جنرل ضیا الحق نے خاموشی سے سنا مگر جواب نہ دیا، افغانستان میں روس کے خلاف عظیم کامیابی نصیب ہوئی تھی، روسی فوجوں کی واپسی کے حوالے سے جینوا میں معاہدہ ہونا تھا، محمد خان جونیجو اس کا کریڈٹ لینے کے لیے بے چین تھے اور چاہتے تھے کہ جلد ازجلد اِس معاہدے پر دستخط ہوں تاکہ ان کا نام اِس
حوالے سے تاریخ میں رقم ہوجائے،

دوسری طرف جنرل ضیا الحق اپنی منصوبہ بندی کے مطابق قدم بہ قدم آگے بڑھنا چاہتے تھے، وہ بہتر جانتے تھے کہ کس وقت کیا کرنا ہے کیوں کہ یہ جنگ اُن کی قیادت اور حکمت عملی کے مطابق لڑی اور جیتی گئی تھی۔ جینوا مذاکرات میں جانے سے قبل ایک روز اِس حوالے سے وزیراعظم جونیجو نے کابینہ کا اجلاس طلب کیا لیکن جنرل ضیا الحق کو بے خبر رکھا، وزیر خارجہ زین نورانی تھے، جونیجو صاحب بطور وزیراعظم، وزیر خارجہ کو ہدایات دے چکے تو اچانک ضیا الحق اجلاس میں پہنچ گئے ، جنہیں دیکھ کر سب کے چہرے زرد پڑ گئے۔

اُنہوں نے براہ راست زین نورانی سے مخاطب ہوکر پوچھا کہ آج کے اجلاس میں اب تک کیا فیصلے ہوئے ہیں، زین نورانی پھسل کر گرنے سے اپنا بازو تڑوابیٹھے تھے، پلاسٹر لگے ہاتھ کو گلے میں ڈالے بیٹھے تھے، انہوں نے دوسرے ہاتھ سے فائل جنرل ضیا الحق کے سامنے رکھ دی، جنرل ضیاالحق نے کاغذ ایک نظر دیکھا، پھر اُسے فائل سے نکال کر تہہ کرکے جیب میں ڈالتے ہوئے بولے مسٹر فارن منسٹر، اِسے بھول جائیے اور جو میں کہتا ہوں اُسے نوٹ کیجئے۔ وزیر خارجہ کو کچھ اہم نکات نوٹ کرانے کے بعد وہ رخصت ہوئے تو وزیراعظم جونیجو کو کئی ماہ سے شیر بننے کا مشورہ دینے والے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے وزیراعظم کو خداحافظ کہے بنا ہی رخصت ہوگئے۔

چند ماہ بعد محمد خان جونیجو دورہ چین سے واپس اسلام آباد پہنچے تو وی آئی پی لائونج میں رکھے ٹی وی پر خبر چل رہی تھی، وزیراعظم کو برطرف کردیاگیاہے، خبر نشرہونے کے بعد وہ لائونج سے باہر آئے تو جھنڈے
والی گاڑی بغیر جھنڈے واپس جاچکی تھی۔ پروٹوکول عملے کا بھی کوئی فرد موجود نہ تھا۔ محمد خان جونیجو اب سابق وزیراعظم بن چکے تھے۔ انہوں نے ایک پرائیویٹ گاڑی منگوائی اور وزیراعظم ہائوس کی بجائے اپنے پرائیویٹ گھر کی راہ لی۔ اُن کے وہاں پہنچنے سے قبل اُن کا سامان وہاں پہنچ چکا تھا۔ جنرل ضیا الحق کا طیارہ کریش ہونے کے بعد ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں بینظیر بھٹو وزیراعظم بنیں،

ان کا خیال تھا کہ وہ عوامی ووٹ کے نتیجے میں وزیراعظم بنی ہیں حالانکہ منصب سنبھالنے سے قبل آرمی چیف جنرل اسلم بیگ مرزا نے ایک طویل ملاقات میں ان سے کہی ان کہی سب کہہ دی تھیں اور واضح کردیا تھا کہ ان کے مینڈیٹ کی حقیقت کیا ہے، وہ کہاں تک جاسکتی ہیں، انہیں کہاں جاکر رک جانا ہے، لیکن انہوں نے تن تنہا فیصلے کرنے شروع کیے، اٹھاون ٹو بی کی طاقت رکھنے والے صدر غلام اسحق خان نے روک ٹوک شروع کی۔ دونوںکے مابین تعلقات کشیدہ ہوگئے، پھر کشیدگی اپنی انتہا کو جاپہنچی، بینظیر بھٹو کی اسمبلی توڑ دی گئی، انہیں دو سال سے بھی کم عرصے میں وزیراعظم ہائوس خالی کرنا پڑا۔ وزیراعظم ہائوس کے نئے مکین نوازشریف تھے، جو اپنے اتحادیوں کی طاقت کے ساتھ حکومت میں آئے تھے، ان کا خیال تھا کہ بینظیر حکومت ختم کرکے انہیں لایاگیا ہے، پس اب سب کچھ ان کی مرضی سے ہوگا، انہوںنے وزیراعلیٰ پنجاب سٹائل میں حکومت پاکستان چلانا چاہی،

صدر غلام اسحق خان ایک مرتبہ پھر آڑے آئے، دونوں میں ٹھن گئی، نوازشریف نے ٹی وی پر آکر اعلان کیا کہ وہ ڈکٹیشن نہیں لیں گے، اپنی مرضی سے کام کریں گے۔ ٹھیک دوسرے روز قومی اسمبلی توڑنے کا اعلان ہورہا تھا، وزیراعظم ہائوس کا مکین ایک مرتبہ پھر بے دخل ہوا۔ دریں اثنا بینظیر بھٹو اپنے غیر ملکی اتحادیوں کو باور کرانے میں کامیاب ہوگئیں کہ وہ پاکستان کو بہتر انداز میں چلاسکتی ہیں، یہی پیغام ملکی اسٹیبلشمنٹ تک بھی پہنچایاگیا، اس مرتبہ وہ بہتر تیاری اور نئے عزم کے ساتھ میدان میں اُتریں اور انتخابات کے بعد وزیراعظم پاکستان کا منصب سنبھالنے میں کامیاب ہوگئیں، ان کے طویل عرصہ تک دست راست رہنے والے فاروق لغاری صدر پاکستان تھے، بینظیر کا خیال تھا کہ اب ایوان صدر سے ان پر کوئی حملہ نہ ہوگا لیکن ان کا اندازہ غلط نکلا، فاروق لغاری پیپلز پارٹی کے صدر نہیں،

صدر پاکستان بن چکے تھے، بینظیر بھٹو کی اِن سے بھی نہ بن سکی، اِس مرتبہ صدر لغاری نے اسمبلی توڑ دی۔ بینظیر بھٹوکو مدت پوری کرنے سے بہت پہلے وزیراعظم ہائوس چھوڑنا پڑا، اِسی اثنا میں فاروق لغاری اور نوازشریف ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے، یہی قربت نوازشریف کو دوبارہ وزیراعظم بنانے میں معاون ثابت ہوئی لیکن وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے اپنے اعتماد کا صدر لانا چاہا پھر دوستوں کے مشورے پر انہوں نے رفیق تارڑ کو صدر بنایا، اِس مرتبہ اُن کے تعلقات صدر سے ٹھیک رہے مگر آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے بگڑ گئے، نتیجتاً جنرل مشرف نے ٹیک اوور کرلیا اور انہیں ایک مرتبہ پھر وزیراعظم ہائوس چھوڑنا پڑا۔ وہ معزول ہوکر جدہ چلے گئے جبکہ جنرل پرویز مشرف ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔

پیش خدمت ہے میرا ذاتی شعر
گھر کا چال بھی خانۂ دل سا ہے
مکین کوئی مدت پوری نہیں کرتا
(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button