ColumnKashif Bashir Khan

فوری انتخابات کی ضرورت …. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

عمران خان کے لاہور میں بہت بڑے جلسے کے بعد ملکی حالات بہت تیزی سے سیاسی تصادم کی طرف بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت کسی طور پر بھی اتحادی جماعتوں کی بنائی ہوئی حکومت کو ماننے کے لیے تیار نظر نہیں آرہے ۔اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ اقتدار سے الگ ہونے کے بعد جس بڑی تعداد میں عوام عمران خان کی حمایت میں باہر نکلے اس کی مثال ہی نہیں ملتی۔ ماضی پر نظر دوڑائیں تو 1977 میں جب ملک میں مارشل لاء لگایا گیا اور بھٹو صاحب کو گرفتاری کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے رہا کیا تو فقید المثال استقبال کے لیے عوام ان کے منتظر تھے۔ نواب صادق حسین قریشی کی ملتان کی رہائش گاہ پر جو نظارہ چشم فلک نے دیکھا تھا وہ یادگار ہے،پھر بھٹو صاحب ملتان سے ٹرین کے ذریعے جب لاہور پہنچے تو لگتا تھا کہ تمام پاکستان ہی ان کو دیکھنے امڈ آیاہے ۔عوام کی بھٹو صاحب سے محبت اور عقیدت دیکھ کر اس وقت کے آمر ضیاء الحق کی سیٹی گم ہو گئی اور پھر بھٹو کو گرفتار کر کے ان پر نواب محمد احمد خان کے قتل کا جھوٹا مقدمہ درج کرکے انہیں ایسے کیس میں پھانسی چڑھا دیا گیا کہ جس کی نظیر قانون میں نہیں ملتی۔بعد میں جسٹس نسیم حسن شاہ اور دوسرے منصفوں نے بھی تسلیم کیا تھا کہ بھٹو کو پھانسی دینے کے لیے ان پربے انتہا دباؤ تھا۔ ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کو آج بھی’’عدالتی قتل‘‘کہا جاتا ہے۔بھٹو کی پھانسی کے منفی اثرات اگلی قریباًتین دہائیوں تک اس ملک و عوام کو برداشت کرنے پڑے۔ میری ذاتی رائے میں اگر بھٹو کی بیٹی یا پھر کوئی بیٹا زندہ ہوتے تو آج پیپلز پارٹی یوں بدنام نہ ہوتی اور صوبہ سندھ تک محدود نہ ہو جاتی۔پیپلزپارٹی کی
موجودہ قیادت کا تعلق ہرگز ہرگز بھٹو سے نہیں اور نہ ہی یہ جماعت بھٹو کے سیاسی نظریات اور اقدار کی امین ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جماعت اور وہ خود کرپٹ نہیں تھے اور پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کی جو جنگ ذوالفقار علی بھٹو نے لڑی اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں تھی لیکن بےنظیر بھٹو کے قتل کے بعد آنے والی قیادت نے پیپلز پارٹی کو غیر جمہوری قوتوں کی بی ٹیم بنا کر بھٹو کی سیاسی جماعت کو دفن کردیا اور پھرچارٹر آف ڈیموکریسی کے نام پر شریف برادران کے ساتھ مل کرنہ صرف ملک کی چولیں ہلا دیں بلکہ بھٹو کی پیپلز پارٹی کو ایک صوبے کی سیٹوں تک محدود کر ڈالا۔افسوس تو اس امر کا ہے کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت اراکین اسمبلی کی خریدو فروخت میں ملوث بلکہ پیش پیش نظر آتی ہے۔ سینیٹ کے انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی کی قیادت نے اراکین کی خریدوفروخت کر کے سیاسی نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایاتھا۔آج بھٹو کانواسہ بلاول بھٹو زرداری لندن میں پنجاب سے کچھ سیٹیں مانگنے اسی نواز شریف کے پاس بیٹھا ہے جو ماضی میں محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف غیر اخلاقی اور غیر مہذب زبان استعمال کرتا رہا۔

آج پاکستان کی سیاست میں جو مقبولیت عمران خان کو حاصل ہو چکی ہے وہ ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کو بھی بہت پیچھے چھوڑ چکی۔عمران خان کی اکثریتی جماعت کو اقتدار سے نکال کر 13 جماعتوں کے اتحاد کو مسند اقتدار پر بٹھانا پاکستان کے عوام کو بہت گراں گزرا ہے اور وہ اس حکومت کو ماننے پر بالکل بھی تیار دکھائی نہیں دے رہے جس پر نہایت کامیابی سے عمران خان’’امپورٹڈ‘‘کا ٹھپہ لگا چکے ہیں۔عوام کے غم و غصہ کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عمران خان کی جگہ لائے گئے وزیراعظم اوروفاقی کابینہ میں شامل وزراء کی اکثریت ضمانتوں پر رہا ہیں اور ان پر مختلف عدالتوں میں مختلف نوعیت کے مقدمات چل رہے ہیں۔شاید موجودہ وفاقی کابینہ دنیا کی واحد کابینہ ہو کہ جس کہ 38 وزراء میں سے قریباً 28 عدالتوں سے ضمانتوں پر باہر ہیں اور ان کی اکثریت کے نام ای سی ایل میں بھی ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان شہبازشریف کو حلف اٹھائے قریباً15 دن ہوچکے ہیں اور ملکی معیشت دن بدن گرتی ہی چلی جارہی ہے اور ڈالر روزانہ اوپر جارہا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف تمام دن مختلف اتحادیوں کو منانے ملک کے مختلف شہروں کے دورے کرتے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ دوسری جانب عمران خان کی عوام میں مقبولیت ہر گزرتے دن
کے ساتھ آسمانوں کو چھوتی دکھائی دے رہی ہے اور وہ فوری انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ مشکل ترین دور ہے اور مختلف سیاسی جماعتوں کو خوش رکھنے کی کوشش کہ نون لیگ کے پاس تو قومی اسمبلی کی صرف 84 سیٹیں ہیں۔اب سوچنا یہ ہے کہ کیا موجودہ حکومت عمران خان کی مقبولیت اور جارحانہ سیاست کا بوجھ برداشت کر پائے گی؟سردست تو عالمی مہنگائی سے بری طرح اثراندازپاکستانی معیشت کو سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ مشیر خزانہ کے واشنگٹن پہنچنے اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد کے بیانات تو عوام پر مہنگائی کی بجلی گرانے کا عندیہ دے رہے ہیں۔پیٹرولیم کی قیمتیں 20 روپے سے زیادہ بڑھانے کا غیر سرکاری اعلان تو کیا جا چکا ہے جبکہ حکومت میں آتے ہی بجلی کے نرخوں میں 4 روپے 80 پیسے کا اضافہ پہلے ہی کیا جا چکاہے۔ ملک کے سیاسی بدترین حالات اور عمران خان کے احتجاجی جلسوں اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کے اعلان کے بعد موجودہ حکومت کی مشکلات میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے ایسے میں مہنگائی کا ریلا عوام کو حکمرانوں سے اور زیادہ متنفر کر سکتا ہے۔ کل ہی بنی گالا میں عمران خان نے انہیں اور تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے کی کسی بھی کوشش کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سے استعفیٰ کا مطالبہ کیااور سابق سفیر پاکستان کا قومی سلامتی کمیٹی میں ان کے موقف کی تائید کرنے پر شہبازشریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے مراسلے پر اوپن جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومت کا قومی سلامتی کمیٹی کا دوبارہ فوری اجلاس بلانا ان کی مشکلات میں اضافہ کر گیا ہے۔ بالخصوص امریکہ میں سابق سفیر پاکستان اسد مجید کی بیرونی مداخلت بارے پرزور طریقے سے بریفنگ اور اصرارنے سیاسی صورتحال کو اورزیادہ گمبھیرکردیا ہے۔ مراسلہ کے اصل ہونے، نے عمران خان کے بیانیے کو تقویت بخشی اور موجودہ حکومت کی پوزیشن کو کمزور کیا ہے۔نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں بھی وہ ہی بات کہی گئی ہے جو پچھلے اجلاس کے اعلامیے میں کہی گئی تھی۔پاکستان کے مسائل بہت بڑھ چکے ہیں اور ان کا واحد حل فوری انتخابات ہی ہے۔موجودہ اتحادی حکومت نے اگر اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کی تو نہ صرف ان کی عوام میں مقبولیت گھٹے گی بلکہ ملک تیزی سے انارکی اور خانہ جنگی کی طرف بڑھتا جائے گا۔مسلم لیگ نواز اور بالخصوص شہباز شریف کو سمجھنا ہو گا کہ موجودہ ملکی حالات میں متحدہ اپوزیشن بالخصوص آصف علی زرداری کی جانب سے انہیں وزیر اعظم بنوانے کر اپنے سیاسی مقاصد پورے کئے جا رہے ہیں بلکہ ملک میں موجود تمام مسائل کے نتیجے میں تنقید کی توپوں کا رخ بھی ان کی جانب موڑا گیا ہے۔ موجودہ سیاسی حالات میں عوام کے مسائل تو کیا کم ہونے ہیں، موجودہ حکومت کی انتخابی اصلاحات کو بھی اپوزیشن ماننے کو تیار نہیں ہو گی اور پھر ملک میں انتشارہی انتشار ہو گا۔مسلم لیگ نون کی مستقبل کی سیاست کی بہتری اسی میں ہے کہ میاں شہباز شریف بجٹ کے بعد انتخابات کا اعلان کر کے عمران خان کی جانب سے اپنے اوپر لگنے والی ’’امپورٹڈ حکومت‘‘کا داغ دھونے کی کوشش کریں۔ فوری انتخابات ہی ملک کے گمبھیر مسائل کا حل ہیں اور موجودہ اقتدار کو طول دینے کی کوئی بھی کوشش پاکستان کے نظام اور جمہوریت کو سخت نقصان پہنچا سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button