Column

 تحریک انصاف کے استعفے سیاسی خود کشی؟ …. فرخ شہبازوڑائچ

فرخ شہبازوڑائچ

پاکستان تحریک انصاف نے اسمبلیوں سے استعفے دے دیئے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں یہ کوئی نئی بات نہیں اور اجتماعی استعفوں کی بازگشت پہلے بھی سنائی دیتی رہی ہے۔ 2014ء میں جب میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے تو تحریک انصاف کی جانب سے 126دن کا دھرنا دیا گیا جس میں ان کے ہم خیال و ہم رکاب ڈاکٹر طاہر القادری تھے۔ پاکستان عوامی تحریک کی بہت بڑی فور س تھی جو ان کے ساتھ تب کھڑی تھی۔ یہ دونوں جماعتیں مل کر دھرنا دے رہی تھیں۔ تقاریر کا ایک لمبا سلسلہ چلا۔ روزانہ شام کو ہلا گلا بھی ہو ا کرتا تھا۔ پورے پاکستان کا میڈیا اس دھرنے کی بھرپور کوریج میں لگا ہو اتھا۔ کچھ تقاریر میں ایمپائر کی انگلی کھڑی کرنے کی باتیں بھی ہوتی تھیں۔ ایمپائر کی انگلی کے حوالے سے آج کے سیاسی ماحول میں ہر باشعور پاکستانی سمجھ سکتا ہے کہ ایمپائر نے انگلی کب کھڑی کی اور کب نہیں کی، اور اس سے نقصان کس کا ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف نے 123سیٹوں پر اجتماعی استعفے جمع کر وا دیئے اور وہ منظور بھی ہوچکے ہیں۔ تحریک انصاف کا یہ خیال ہے کہ جیسے ہی وہ استعفے دیں  گے، حکومت کا کاروبار رک جائے گا۔ ساری چیزیں وہیں پر تھم جائیں گی۔ اور اس کے بعد تازہ انتخابات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ یہ بات درست ہے کہ سپریم کور ٹ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا جا چکا ہے کہ ہم چھ سات ماہ سے پہلے عام انتخابات کروانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

اب جب کہ پاکستان تحریک انصاف نے استعفے دے دیئے ہیں تو پی ڈی ایم کی مشترکہ حکومت کے پاس اب بڑا سنہری موقع ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اب حکومت ضمنی الیکشن کروا دیتی ہے تو کیا تحریک انصاف انتخابات میں حصہ لے گی۔ اگر انتخابات میں حصہ لے گی تو پھر سوال یہ پیدا ہوگا کہ پہلے ہی استعفے کیوں دیئے اور اگر نہیں لڑے گی تو پھر دوسری جماعتوں کے پاس چانس ہوگا کہ وہ اسمبلی میں اپنی بھرپور قوت پوری کریں اور اپنی مرضی سے حکومت چلائیں۔ اپنی مرضی سے قانون سازی بھی کریں اور ترقیاتی کام بھی اپنے حلقوں میں کروائیں۔ انتخابات میں رجحان یہی ہوتا ہے کہ جو حکومت وقت ہوتی ہے اس کے امیدوار ہی انتخابات جیتتے ہیں۔تحریک انصاف کے حصہ نہ لینے سے حکومتی جماعتوں کا کام مزید آسان ہوجائے گا۔ فیصل واوڈا کے نااہل ہونے کے بعد کراچی میں سیٹ خالی ہوئی۔ اس پر پاکستان تحریک انصاف اور نون لیگ کے درمیان مقابلہ تھا لیکن وہاں سے پیپلز پارٹی کے مندوخیل صاحب جیت گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گراؤنڈ لیو ل پر کا م کرنے کی صلاحیت پیپلز پارٹی کے پاس تھی کیونکہ ان کے پاس صوبے کی حکومت ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ ضمنی انتخابات میں جیتنے کا ٹرینڈ کیا ہوتا ہے۔
الیکشن کمیشن کا اب امتحان ضرور ہے مگراس کے پاس بھی آپشنز موجود ہیں۔ الیکشن کمیشن یہ انتخابات دو تین مرحلوں میں کروا سکتا ہے۔ وہ کہہ سکتا ہے کہ چونکہ وسائل کم ہیں اس لیے ہم ایک ہی دن یہ سب کروانے سے قاصر ہیں۔ تین سے چار ماہ کے اندر بھی ضمنی الیکشن ہوجائیں تو پراسس مکمل ہو جائے گا۔ اس کے بعد بھی موجودہ حکومت کے پاس ایک سال کا عرصہ ہوگا۔ ایک سال کا عرصہ کسی بھی سمجھدار حکومت کے لیے کافی ہوتا ہے کہ وہ کارکردگی دکھا کر مستقبل کے لیے اپنی جگہ پکی کر لے اور مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سمیت جو جماعتیں اس وقت حکومت میں ہیں ان کے پاس وسیع تجربہ ہے کہ کیسے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ حکومتی جماعتیں اپنے امیدواروں کو بھرپور فنڈز دیں گی تا کہ اگلے انتخابات میں بھی ان کے پاس کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے اور لوگ انہیں دوبارہ منتخب کرلیں۔
جو لوگ بھی پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کو مشورے دے رہے ہیں، میری رائے میں وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب 2014ء میں تحریک انصاف استعفے دینا چاہتی تھی تو ایاز صادق نے اس پراسس کو لمبا کر دیا تھا۔ استعفے پاس پڑے تھے مگر اس کو منظور نہیں کیا جاتا تھا۔ اب بھی یہی سوچا جا رہا تھامگر چونکہ ڈپٹی سپیکر نے جن کا تعلق تحریک انصاف سے تھا ، انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا تھا تو انہوں نے استعفوں کی منظور ی کو لمبا کھینچنے والا کام خود ہی ایک جھٹکے میں نمٹا دیا ہے۔ اب تحریک انصاف نے سڑکوں پر آنے کا اعلان کر دیا ہے اور دوبارہ سے پرانا احتجاجی جلسوں اور شاید ہفتہ وار دھرنوں کا دور شروع ہونے والا ہے۔
نئی حکومت کا پہلا ٹارگٹ یہ ہے کہ وہ اگلے عام انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات پر کام کریں۔ پی ڈی ایم کے پاس صر ف یہی ایک نقطہ تھا کہ جس کے اوپر وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے تھے۔ پاکستان مسلم لیگ نون او رتحریک انصاف کو فی الحال کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر الیکشن کبھی بھی ہوجائیں تو ان کے پاس کچھ نہ کچھ تیاری مکمل ہے۔وقت اس سوال کا جواب دے گا کہ عمران خان کا اسمبلیوں سے باہر آکر عوام میں جانا اچھا فیصلہ تھا یا سیاسی خودکشی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button