Column

 سیاست دانوں کا زعم ….. علی حسن

علی حسن

پاکستانی سیاست میں ہر تھو ڑے عرصے بعد ایسا طلاطم پیدا ہوتا ہے کہ سب کچھ کیا کرایا ڈھیر ہو جاتا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کا بھی کمال ہے کہ وہ جن کی انگلیاں پکڑ کر اقتدار کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں، ان ہی انگلیوں کو کُترنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹواور نواز شریف تو مثالیں تھے ہی، لیکن عمران خان تازہ ترین مثال ہیں۔ عمران خان کو کیوں زعم ہوگیا تھا کہ اپنی مقبولیت کی وجہ سے ہی بر سر اقتدار آئے ہیں۔ اقتدار کے ساڑھے تین سال اتنا عرصہ ضرور ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز شخص سمجھ سکے کہ اسے کس کے ساتھ کیا تعلق اور رویہ رکھنا ہے۔ قدم قدم پر ایوب خان نے بھٹو کی تربیت کی لیکن بھٹو ان ہی کے خلاف اس لیے ہو گئے کہ وہ خود اقتدار میں آنا چاہتے تھے ۔ بھٹو تو بہت عرصے سے منتظر تھے کہ ایوب خان کسی طرح منظر سے ہٹیں۔ بھارت کے معتبر صحافی کلدیپ نائر روس میں موجود تھے ۔ وہ اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ تاشقند میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات اور معاہدے کے بعد رات کو کسی پہر بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کا انتقال ہو گیا۔ انہیں ہوٹل کی لابی میں بھٹو مل گئے۔ انہوں نے انہیں شاستری کی موت سے مطلع کیا۔ بقول ان کے بھٹو نے فوری جواب میں پوچھا کہ کس حرامی کا انتقال ہو گیا ہے۔ ان کا اشارہ معلوم کرنا تھا کہ ایوب خان یا شاستری ؟۔

بھٹو نے لیفٹیننٹ جنرل گل حسن اور ایئر مارشل عبدالرحیم خان کو وزیر اعظم ہا ئو س مارچ 1973 میں طلب کیا، دونوں حضرات کو ایک کمرے میں بٹھایا گیا اور پھر باقاعدہ اغوا کر کے لاہور روانہ کر دیاگیا۔اغوا کرنے والوں میں غلام مصطفے کھراور ممتاز بھٹو شامل تھے ۔ گل حسن وہ شخص تھے جنہوں نے سقوط ڈھاکہ کے فوری بعد جنرل یحییٰ خان کو مجبور کیا تھا کہ اقتدار مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی کے سربراہ کے حوالے کر دیا جائے ۔ اس طرح بھٹو بر سر اقتدار آگئے تھے ۔ گل حسن اور رحیم خان اغوا ہونے تک لاعلم تھے کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔ ابھی وہ لوگ لاہور نہیں پہنچے تھے کہ سرکاری اعلان جاری ہو گیا کہ جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم خان کو ریٹائر کر دیا گیا ہے۔ بظاہر کوئی وجہ نہیں تھی کہ بھٹو اپنے محسنوں کے ساتھ ایسا ہتک آمیز سلوک کرتے۔ بھٹو وسوسوں میں گھرے رہتے تھے اور انہیں یہ خدشہ لاحق ہوگیا تھا  کہ گل حسن  انہیں  اقتدار سے علیحدہ کر کے خود اقتدار پر قابض نہ ہو جائیں۔ حالانکہ گل حسن نے تو فوج کی سربراہی سنبھالتے وقت بھی اپنے عہدے میں ترقی نہیں لی تھی۔ ایئر مارشل رحیم خان 1971 کی بھارت کے ساتھ پاکستان کی جنگ کے دوران ایئر فورس کے سربراہ تھے۔  وہ کہتے ہیں’’ میں نے  ان (بھٹو) سے وجہ معلوم کی تو انہوں نے کہا تھا کہ میرے مشیر کہتے ہیں کہ مجھے تمام پرانے جنرلوں سے جان چھڑانی چاہیے‘‘ حالانکہ جنرل گل حسن نئے کمانڈر انچیف تھے اور انہوں (بھٹو) نے ان کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے بھی جانا ہے جبکہ وہ تسلیم کرتے تھے کہ وہ نئے کمانڈر ہیں‘‘۔ وہ کہتے ہیں ’’ بھٹو نے اپنے آپ کو ایک آمر میں تبدیل کر لیا تھا۔ انہوں نے اقتدار لینے کے کافی عرصے تک مارشل لاء جاری رکھا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ میں نے اور جنرل گل حسن نے انہیں مارشل لاء اٹھانے کے لیے مسلسل کہا تھا ‘‘۔

غلام اسحاق خان 1975-77 میں سیکریٹری دفاع تھے۔ انہوں نے جنرل ضیاء کو مطلع کیا کہ بھٹو نے ان کی فائل منگوائی ہے۔ ضیاء نے گن سن حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ وقت غالباً پہلا موقع تھا جب ضیاء اور ان کے رفقاء نے بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کے بارے میں سوچنا شروع کیاتھا۔ پاکستان میں ایوب خان سے جنرل باجوہ تک، تمام ہی جنرل اپنے ذہن میں یہ بات ضرور رکھتے ہیں کہ جن سیاست دانوںکو اقتدار میں لانے میں تعاون کرنے کا احسان انہوں نے کیا، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سیاست دان کسی مرحلے پر آنکھیں پھیر لیںاور اسی قسم کا خدشہ سیاست دان بھی رکھتے ہیں۔ سیاست دان کیوں نہیں سمجھتے کہ فوجی ان سے بہت زیادہ معلومات حال کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ اس خطے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں فوج طاقت ور ہو کیوں کہ بھارت کے ساتھ دوستی کی خواہشات رکھنے والے بھی سمجھتے ہوں گے کہ بھارت پاکستان کو برداشت کرنے کے لیے
تیار نہیں ہے۔ بھارت تو سری لنکا تک کو اپنے انگوٹھے کے نیچے رکھنا چاہتا ہے۔ ضیاء الحق اور محمدخان جونیجو کے درمیان تعلقات میں بال اس وقت پڑا تھا جب ایک ملاقات میں جونیجو نے ضیاء نے سوال کر دیا تھا کہ آپ مارشل لاء کب اٹھا رہے ہیں۔ اس سوال کا دوسرا مطلب یہ تھا کہ جنرل صاحب آپ وردی کب اتار رہے ہیں؟۔

نواز شریف کے تعلقات تو اپنے تینوں ادوار میں جنرلوں کے ساتھ زیادہ دوستانہ نہیں رہے۔ خصوصاً   1997 کے انتخابات کے بعد دوسری بار اقتدار میں آنے کے بعد تو بقول چودھری شجاعت حسین ’’ انہوں نے نواز شریف سے کہا تھا کہ تین باتوں سے ہوشیار رہیں، تکبر، منافقت اور خوشامد۔ ان کے مشورے پر عمل کرنے کی بجائے نواز شریف نے تینوں برائیوں کو اپنے گلے لگایا ‘‘۔ وزیر اعظم ہائوس میں 12 اکتوبر 1999کو کیا ہوا تھا، صحافی رئوف کلاسرا نے چودھری نثار علی خان کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو کی روداد میں کچھ اس طرح لکھا ہے۔ ’’ 12 اکتوبر 1999 کی شام چودھری نثار علی خان وزیر اعظم ہائوس میں موجود تھے جب نواز شریف نے جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف مقرر کر دیا ۔ 12 اکتوبر والے دن شہباز شریف نے چودھری نثار کو وزیر اعظم ہائوس لنچ پر بلایا تھا ۔ دونوں نے وزیر اعظم ہائوس میں شہباز شریف کے کمرے میں بیٹھ کر لنچ کیااوران دونوں کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم ابھی ملتان سے واپس لوٹے ہیںاور کسی میٹنگ میں مصروف ہیں۔نثار اور شہباز نے وزیر اعظم کو پیغام بھجوا دیا کہ وہ ساتھ والے کمرے میں موجود ہیں۔ جب وہ فارغ ہو جائیں تو انہیں بلوالیا جائے۔ اس اثناء میں شہباز شریف سوگئے اور چودھری نثار ٹی وی دیکھتے رہے۔ اچانک چودھری نثار نے پی ٹی وی پر جنرل مشرف کی برطرفی کی خبر سنی اور فوری طور پر شہباز شریف کو جگایا۔ شہباز شریف کو یقین نہیں آرہا تھا کہ نواز شریف نے جنرل مشرف کو برطرف کر دیا ہے۔ انہوں نے بڑے غصے میں چودھری نثار سے کہا کہ وہ ابھی جاکر وزیر اعظم کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیں گے کیوں کہ وہ اگر اپنے سگے بھائی پر بھروسہ نہیں کر سکتے تو اس کے بعد وزیر اعلیٰ رہنے کا کیا فائدہ‘‘۔

’’نو اپریل کی رات وزیر اعظم ہائوس میں کیا ہوا ‘‘کے موضوع پر کئی تجزیہ نگاروں نے اپنی اپنی معلومات کے بعد خاصا لکھا ہے۔ہر ایک کی معلومات اور اندازے اور قیاس ہیں۔ وزیر اعظم ہائوس میں رات ساڑے نو بجے سے قبل گہما گہمی تھی۔ وزراء موجود تھے ۔ صحافیوں کا ایک گروپ بھی موجود تھا۔ ماحول میں اچانک تنائو پیدا ہو گیا جب ایک ہیلی کاپٹر پہنچا۔ آنے والے مہمانوں کا وزیر اعظم( جو اس وقت صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے) کو پیغام ملا کہ وہ مہمانوں سے ملاقات کرنے اندر جائیں۔ ابھی عمران خان اندر ہی تھے کہ قومی اسمبلی میں قرار داد تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کا آغاز ہو گیا۔ عمران خان کے ساتھ و ہی ہوا جو ہمارے تمام سربراہان حکومت کے ہوا ہے۔ ان کے گرد خوشامدیوں کا ایسا گھیرا ہوتا ہے کہ انہیں حالات کے رخ اور اس کے تبدیل ہونے کا ادراک ہی نہیں ہو پاتا ہے۔ عمران خان کو یہ مشورہ بھی جس نے دیا کہ وہ قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیں ، بظاہر کوئی صائب مشورہ تو نہیں ہے۔ اسی طرح کسی مستحکم ادارے کے اعلیٰ سربراہ کی برطرفی کا مشورہ کسی نے دیا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button