تازہ ترینخبریںدنیا

ہم ایک سیاسی جماعت پر دوسری سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرتے

وزیر اعظم شہباز شریف نے بیجنگ کو تعلقات کو مزید گہرا کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے امریکا اور بھارت کے ساتھ تعاون کی ضرورت کا اعادہ کیا جبکہ امریکا نے کہا کہ ہم ایک سیاسی جماعت پر دوسری سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرتے۔

واشنگٹن میں نیوز بریفنگ کے دوران ایک صحافی نے وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی سے پوچھا کہ پاکستان میں ہونے والی نئی پیش رفت پر انتظامیہ کا ردعمل کیا ہے، کیا صدر بائیڈن ملک کے نئے وزیر اعظم سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

سوال کے پہلے حصے کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکا ’آئینی جمہوری اصولوں کی پرامن برقراری کی حمایت کرتا ہے، ہم ایک سیاسی جماعت پر دوسری سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرتے اور ہم یقینی طور پر قانون کی حکمرانی اور قانون کے تحت مساوی انصاف کے اصولوں کی حمایت کرتے ہیں۔

شہباز شریف کے عہدہ سنبھالنے پر وائٹ ہاؤس کے بیان پر دفتر وزیراعظم کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ’نئی حکومت خطے میں امن، سلامتی اور ترقی کے مشترکہ اہداف کو فروغ دینے کے لیے امریکا کے ساتھ تعمیری اور مثبت انداز میں مشغول ہونا چاہتی ہے‘۔

اس سے قبل وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا تھا کہ ایک جمہوری پاکستان امریکی مفادات کے لیے اہم ہے۔

اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات اس وقت انتہائی نچلی سطح کو چھو گئے جب سابق وزیراعظم عمران خان نے امریکا پر ان کی حکومت کو گرانے کی سازش کا الزام لگایا۔

انہوں نے اپنا الزام ایک سفارتی کیبل پر لگایا جس میں مبینہ طور پر کہا گیا تھا کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کی صورت میں دو طرفہ تعلقات کے لیے نتائج سے خبردار کیا تھا۔

واشنگٹن نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

امریکا کے ساتھ تعلقات کی مرمت نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہوگی۔

شہباز شریف نے اپنے انتخاب کے بعد قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے تعلقات میں ’الجھن‘ کو نوٹ کیا اور کہا کہ اس کا مطلب تاریخی تعلقات کا خاتمہ نہیں تھا۔

دفتر وزیراعظم کے بیان میں بھی یہی بات دہرائی گئی، جس میں پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعلقات کی امریکی تصدیق کا خیرمقدم کیا گیا اور کہا گیا کہ نئی حکومت برابری، باہمی مفاد اور باہمی فائدے کے اصولوں پر اس ’اہم تعلقات‘ کو مزید گہرا کرنے کی منتظر ہے۔

اس بات کو دہراتے ہوئے کہ امریکا اور پاکستان پرانے اتحادی ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ اپنے دیرینہ تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ہمیشہ ایک خوشحال اور جمہوری پاکستان کو امریکی مفادات کے لیے اہم سمجھتے ہیں، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی قطع نظر اس کے کہ قیادت کوئی بھی ہو۔

صدر بائیڈن کے نئے وزیر اعظم کو فون کرنے کے بارے میں سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ’اس حوالے سے پیش گوئی کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے، ظاہر ہے ہم مختلف سطحوں پر ان کے ساتھ قریبی رابطے میں رہتے ہیں۔

ایک تیسرے صحافی نے ایک مختلف انداز آزمایا اور جو بائیڈن کی کال پر وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری سے مزید معلومات حاصل کرنے کو سوال کیا کہ انتظامیہ نے ان (شہباز شریف) سے رابطہ کرنے کے لیے کیا انتظامات کیے ہیں اور اس پر کیا آگے بڑھ رہا ہے؟

جین ساکی نے کہا کہ میرے پاس اس وقت کال کی کوئی پیش گوئی نہیں ہے، ظاہر ہے یہ خاص طور پر نئے رہنماؤں کے منتخب ہونے کے بعد روزانہ کی بنیاد پر کیے جانے والے جائزے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے پاکستان کے ساتھ ایک طویل، مضبوط اور پائیدار تعلقات ہیں، ایک اہم سیکیورٹی رشتہ ہے اور یہ نئے لیڈروں کے تحت بھی جاری رہے گا‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button