تازہ ترینخبریںپاکستان

منی لانڈرنگ کیس، شہباز شریف کو 4 اپریل کے لیے نوٹس جاری

اسپیشل کورٹ سینٹرل نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی شوگر ملز کے ذریعے منی لانڈرنگ کرنے کے مقدمے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو ضمانت منسوخی کی درخواست پر جواب دینے کے لیے 4 اپریل کو طلب کر لیا۔

ایف آئی اے نے چینی کے کاروبار کے ذریعے منی لانڈرنگ کرنے کے مقدمے میں شہباز شریف کی ضمانت منسوخی کے لیے اسپیشل کورٹ سینٹرل میں درخواست دائر کی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں وکیل عثمان گل نے مؤقف اپنایا ہے کہ شہباز شریف عبوری ضمانت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں، اس لیے ان ضمانت میں توسیع ختم کی جائے۔

یف آئی اے کے وکیل نے اپنی درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ عدالت قانون اور آئین کی محافظ بھی ہے، عدالت ہمارا کیس سننے کو ہی تیار نہیں ہے، آرڈر عدالت نے پاس کرنا ہے لیکن کم از کم ہمیں سن تو لیں، اگر کوئی بھی غیر قانونی کام ہو جائے تو عدالت اسے درست کر سکتی ہے، لہٰذا عدالت ضمانت میں توسیع کا حکم واپس لے۔

اسپیشل کورٹ سینٹرل کے جج نے کہا کہ اگر عبوری ضمانت میں توسیع غلط ہے تو ایف آئی اے ہائی کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے، عدالت اپنے ہی حکم پر کیسے نظر ثانی کرے، دوسری پارٹی کو سنیں بغیر کیسے آرڈر پاس کر سکتے ہیں۔

جج اعجاز حسن اعوان کا کہنا تھا کہ یہ عدالت حاضری سے استثنیٰ کے آرڈر پر نظرثانی نہیں کر سکتی، دوسرے فریق کو سنے بغیر کوئی حکم نہیں کر سکتا، نوٹس جاری کر دیتے ہیں، 4 اپریل بروز پیر دونوں فریقین بحث کے لیے عدالت میں آجائیں۔

عدالت نے شہباز شریف کو 4 اپریل کو عدالت میں پیشی کے لیے نوٹس جاری کر دیے اور طلبی نوٹس تعمیل کنندہ کے حوالے کر دیا گیا۔

عدالت نے نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ ضمانت منسوخی کی درخواست پر شہباز شریف پیش ہو کر اپنا جواب داخل کریں، ضمانت منسوخی کی درخواست میں پیش نہ ہونے یا جواب جمع نہ کروانے پر شہباز شریف کے خلاف یکطرفہ کارروائی کی جائے گی۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے جون 2021 میں وفاقی تحقیقاتی ادارے میں پیش ہونے پر گرفتاری سے بچنے کے لیے عبوری ضمانت حاصل کی تھی۔

شہباز شریف نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایف آئی اے والے مجھ سے جیل میں بھی تفتیش کرنے آئے تھے، ایف آئی اے کو بتایا کہ میرا شوگر اسکینڈل سے کوئی تعلق نہیں ہے، بتایا کہ میرے بچے خود مختار ہیں جبکہ بطور وزیر اعلیٰ فیصلوں سے میرے بچوں اور پنجاب کی شوگر ملز کو نقصان ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ نہ شوگر مل کا ڈائریکٹر ہوں نہ پالیسی بنانے میں کوئی کردار ہے، مجھ پر جھوٹا کیس بنایا گیا ہے، میں نے ماضی میں شوگر ملوں کو سبسڈی دینے سے انکار کیا، مجھے گنے کی قیمت کم کرنے کا کہا گیا، میں کسان بھائیوں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا اس لیے میں نے کہا کہ ایک دھیلا بھی سبسڈی نہیں دوں گا۔

عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو 10، 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

منی لانڈرنگ کیس

یاد رہے کہ ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ، کرپشن کی روک تھام ایکٹ اور انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو شوگر اسکینڈل میں منی لانڈرنگ کے کیس کا سامنا ہے۔

شہباز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کو ان کی آمدنی کے نامعلوم ذرائع سے مال جمع کرنے میں مدد دی۔

ایف آئی اے نے 13 دسمبر 2021 کو شہباز شریف اور حمزہ شہباز اور دیگر ملزمان کے خلاف 16ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا چالان بینکنگ عدالت میں جمع کروایا تھا اور دنوں کو مرکزی ملزم نامزد کر دیا تھا۔

ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرایے گئے 7 والیمز کا چالان 4 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے جس میں 100 گواہوں کی لسٹ بھی جمع کرا دی تھی اور کہا تھا کہ ملزمان کے خلاف 100 گواہ پیش ہوں گے۔

چالان میں کہا گیا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 28 بے نامی بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جو 2008 سے 2018 تک شہباز شریف فیملی کے چپراسیوں، کلرکوں کے ناموں پر لاہور اور چنیوٹ کے مختلف بینکوں میں بنائے گئے۔

ایف آئی اے کے مطابق 28 بے نامی اکاؤنٹس میں 16 ارب روپے، 17 ہزار سے زیادہ کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی منی ٹریل کا تجزیہ کیا اور ان اکاؤنٹس میں بھاری رقم چھپائی گئی جو شوگر کے کاروبار سے مکمل طور پر غیر متعلق ہیں اور اس میں وہ رقم شامل ہے جو ذاتی حیثیت میں شہباز شریف کو نذرانہ کی گئی۔

چالان میں کہا گیا کہ اس سے قبل شہباز شریف (وزیر اعلیٰ پنجاب 1998) 50 لاکھ امریکی ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ میں براہ راست ملوث تھے، انہوں نے بیرون ملک ترسیلات (جعلی ٹی ٹی) کا انتظام بحرین کی ایک خاتون صادقہ سید کے نام اس وقت کے وفاقی وزیر اسحق ڈار کی مد سے کیا۔

ایف آئی اے نے کہا تھا کہ ’یہ چالان شہباز شریف اور حمزہ شہباز (دونوں ضمانت قبل از گرفتار پر) اور سلیمان شہباز (اشتہاری) کو مرکزی ملزم ٹھہراتا ہے جبکہ 14 بے نامی کھاتے دار اور 6 سہولت کاروں کو معاونت جرمکی بنیاد پر شریک ملزم ٹھہراتا ہے۔

چالان میں کہا گیا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں ہی 2008 سے 2018 عوامیہ عہدوں پر براجمان رہے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button