Column

فتاویٰ مولانا فضل الرحمان …. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

پی ٹی آئی کی حکومت کے بارے میں جمعیت علماء اسلام (ف)کے امیر اور حکومت مخالف تحریک کے سرخیل مولانا فضل الرحمان نے کئی لاکھ علمائے کرام سے فتویٰ لے کر ایک نئی بحث چھیڑدی ہے کہ موجودہ حکومت ایک طرح سے غیر شرعی ہے اور حکومت کا ساتھ دینے والے گناہ گار ٹھہریں گئیں۔یہاں تک کئی ایک مواقع پر انہوں نے وزیراعظم کو یہودیوں کاایجنٹ بھی قرا ر دیا ہے ۔ کسی مسلمان کامغربی دنیا میں تعلیم حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیںوہ کسی غیر مسلم کا ایجنٹ ہے ۔ وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں ہونے والے جلسہ کا سلوگن’’ امر بالمعروف‘‘ رکھ کر کوئی جرم نہیں کیا ۔نیکی کا حکم تو کوئی بھی دے سکتا ہے جس کے لیے عالم دین ہونا ضروری نہیں۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ بنی نوع انسان کو قرآن مجید سے ہردور میں رہنمائی ملتی رہے گی۔اگرچہ قرآن پاک میں تبلیغ کاحکم تو رسولﷺ کے لیے آیاہے جسے نبی آخر الزمان ﷺ نے تمام اہل ایمان کے لیے عام کیا ہے۔

شریعت کی اصطلاح میں معروف سے مراد وہ فعل ہے جس کو اچھائی اور خوبی کی ہر عقل سلیم گواہی دیتی ہے۔ منکر شریعت کی اصطلاح میں اس فعل کو کہتے ہیں جس کو ہر سلیم الفطرت انسان برا جانتا ہو او ر اسے ناپسند کرتا ہو۔امر بالمعروف کا سادہ سا دینی مفہوم ہے کہ لوگوں کو اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کے احکامات پر چلنے کا حکم دیا جائے جب کہ نہی عن المنکر کا سادہ سا دینی مفہوم یہ ہے کہ جن باتوں سے اللہ سبحانہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسولﷺ نے روکا ہے، ان سے انسان خود رک جائے اور معاشرے میں رہنے والے دوسرے افراد کو بھی ان سے روکنے کی کوشش کرے ۔قرآن پاک میں امر بالمعروف اورنہی عن المنکر بارے بہت سی آیات ہیں ۔جمعتہ المبارک میں عام طورپر علمائے کرام خطبات میں جو آیت پڑھتے ہیںان میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی نسبت حق تعالیٰ نے اپنی طرف سے فرمائی ہے جیسا کہ سورہ النحل آیت نمبر 9 اللہ تعالی عدل، احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بری اور بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ حضرت ابوذرؓسے روایت ہے نبیﷺ نے فرمایا نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے۔ اسی طرح حضرت حذیفہؓسے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!تم ضرور نیکی کا حکم کرو اور برائی سے منع کرو ورنہ قریب ہے کہ اللہ تم پر اپنا عذاب نازل کر دے۔ پھر تم اس سے دعائیں کروگے لیکن وہ قبول نہ ہوں گی۔
جیسا کہ مولانا فضل الرحمان نے پانچ لاکھ علمائے کرام سے فتویٰ لینے کا دعویٰ کیا ہے ہمارا سوال ہے کیا فتویٰ دینے والے مستند علمائے کرام اتنی بڑی تعداد میں ملک میں موجود ہیں؟ہمارا نہ تو وزیراعظم عمران خان اور نہ ہی مولانا فضل الرحمان سے لینا دینا ہے ۔اگر عمران خان نے اپنے جلسہ کا سلوگن امر بالمعروف رکھ ہی دیا تھا تو اس میں کون سی قیامت آگئی تھی کہ مولانا فضل الرحمان نہی عن المنکرکا فتویٰ لے کر آگئے ۔بے شک علمائے کرام کی دین اسلام کے لیے بڑی خدمات ہیں جن سے کسی کو انکار نہیں۔ ہمارا سوال ہے کہ نیکی کا حکم کوئی عالم دین ہی دے سکتا ہے یا کوئی عام مسلمان بھی دے سکتا ہے؟مملکت پاکستان میں مولانا فضل الرحمان سے بڑھ کر عالم دین موجود ہیں شاید مولانا نے ان سے رجوع کئے بغیر اپنے طور پر ایک مسلمان حکمران کے
بارے میں فتویٰ جاری کر دیا ہے۔ مولانا صاحب کے والد محترم ایک جید عالم دین تھے، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے میں ان کا اہم کردار تھا۔مولانا بتا سکتے ہیں وہ اپنے والد مفتی محمود کی وفات کے بعد سے اب تک دین اسلام کے لیے کیا خدمات انجام دے چکے ہیں؟ وزیراعظم عمران خان جنہیں اپوزیشن نے کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا، ان کے باوجودان کے دور میں رحمت اللعالمین اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا، غریبوں کے لیے پناہ گاہیں بنائی گئیں وغیرہ۔ جہاںتک فریق ثانی وزیراعظم عمران خان کی ریاست مدینہ کے قیام پر معترض ہیں ۔کیا ریاست مدینہ جیسی ریاست کا قیام پاکستان جیسے ملک میں چند سالوںمیں ممکن ہے؟ وزیراعظم نے ریاست مدینہ کے قیام کی طرف ایک کوشش تو ضرور کی ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان جیسے کرپٹ معاشرے میں ریاست مدینہ کے ہم پلہ ریاست کا قیام کوئی آسان بات نہیں جس ملک کے سیاست دان لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک لے جائیں ان سے ایک راست باز حکمران کا مقابلہ ایک کٹھن راستہ تھا جس کا اعلان کرکے وزیراعظم عمران خان کسی جرم کے مرتکب تو نہیں ہوئے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا جب عمران خان نے ریاست مدینہ کے طرز پر ملک کو لے جانے کا نعرہ لگایا تو ہر سیاسی جماعت کے رہنما کوریاست مدینہ کے قیام کے لیے حکومت کا دست وبازو بننا چاہیے تھا۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی اچھا کام کرنے کی ابتدا کرے تو اس کی حوصلہ فزائی کی بجائے اس پر تنقید کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔ جیسا کہ ہم اپنے ایک کالم میں لکھ چکے ہیں کہ بھٹو حکومت کے خلاف نو جماعتوں کے اتحاد نے نظام اسلام کے نفاذ کا نعرہ لگایا تھا جب بھٹو کو اقتدار سے علیحدہ کیا گیا تو اسلامی نظام کے نفاذ کا نعرہ کہیں گم ہو گیا جو آج تک کہیں گم ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ماسوائے مولانا فضل الرحمان کے، کسی عالم دین نے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کی مخالفت نہیں کی بلکہ ان کے بعض اقدامات کی ستائش کی ہے۔ عمران خان نے کوئی خلاف شریعت کام کیا ہوتا تو مفتی اعظم مولانا تقی عثمانی، مولانا طارق جمیل جیسے جید عالم دین اس اقدام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے۔ مدارس کے طلبہ کو سٹرکوں پر لا کر سیاست کرنا بھی کوئی قابل ستائش اقدام نہیں۔ یہاں تو اقتدار کی جنگ ہے۔ ایک سیاست دان بارے بے نظیر بھٹو نے کہا تھا وہ اقتدار سے باہر ہوں تو وہ ۔۔۔۔ہو جاتے ہیں ریکار ڈپر ہے۔ سیاست دانوں کوملکی سالمیت کو اولین ترجیح دینی چاہیے اور محض اقتدار کی خاطر فتویٰ جاری کرنے کی روش ترک کر دینی چاہیے۔ ملک کے عوام اب خاصے باشعور ہو چکے ہیں انہیں اچھے اور برے کی پہچان ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button