Column

آئندہ وزیر اعظم کون ؟ …. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی
ابھی چہار سوگرد اُڑ رہی ہے ، دھند پڑ رہی ہے، خوشیاں منانے والے بارش کے پانی میں لت پت اپنے چہرے پر پڑنے والے ’’آلودہ‘‘ چھینٹوں سے بے نیاز ہیں آج اگر کسی کی خوشی کا دن ہے تو کل کوئی دوسرا پٹاخے پھوڑے گا، یہی سچ ہے جو جاری و ساری رہتا ہے۔ ذرا ہنگامہ فردا کو تھم لینے دیں اس گرد کو بیٹھنے دیں، اس گرد کی کوکھ سے مزید گرد اٹھے گی، آلودگی پھیلے گی، بہت ساری کہانیاں اس فیصلے کی کوکھ سے جنم لیں گی اور حقائق بھی منظر عام پر آئیں گے۔ آج ’’ماضی‘‘ سے بہت مختلف ہے، آج بہت سارے کان اور آنکھیں ہر وقت کھلی رہتی ہیں، اس لیے حمود الرحمان کمیشن کی طرح اب کچھ بھی نہیں چھپایا جاسکے گا، ویسے بھی حقائق نے کبھی نہ کبھی باہر آہی جانا ہوتا ہے۔ سمندر بھی مردہ لاشوں کو اگل دیتا ہے، لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک آج کے اس سچ کو تسلیم کرتے ہوئے اسی پر بات کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ عدم اعتماد کے فیصلے اور پنجاب میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کے بعد عوامی سطح پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور دنیا اس فیصلے کو لے کر کیا سوچ رہی ہے ۔
ریموٹ کے ذریعے مختلف ٹی وی چینلز کو بدلنے، عمومی رائے کے ’تھڑوں‘ پر ہونے والی گفتگو اور تجزیہ نگاروں کی رائے کو دیکھتے ہوئے جو منظر نامہ ابھر کر سامنے آیا ہے اس کے مطابق عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی
تحریک کا ملا جْلا رد عمل سامنے آ رہا ہے۔ جہاں ایک طرف اپوزیشن جماعتیںاس تحریک سے نہ صرف خوش ہیں بلکہ مطمئن نظر آتی ہیں تو دوسری جانب عوامی حلقے اس بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔ کئی حلقوں کا کہان ہے کہ وزیر اعظم کو بدلنے کا یہ طریقہ (پریشر) درست نہیں، نہ اس کی حمایت کرنی چاہیے لیکن کچھ حلقوں کا یہ خیال ہے کہ کیونکہ عمران خان ملک چلانے میں ناکام ہو چکے ہیں، مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے، اگر یہ کچھ عرصہ اور برسر اقتدار رہے تو ملک میں بھوک کی وجہ سے انارکی پیدا ہو سکتی ہے، اس لیے ان کا جانا ضروری ہے۔پاکستان کی تاریخ میں آج تک کوئی بھی وزیر اعظم پانچ سال کی مدت پوری نہ کر سکا  ہے اور اب عدم اعتماد کی تحریک کی روشنی میں یہ روایت اب بھی برقرار رہتی محسوس ہوتی ہے جسے اچھا نہیں کہا جاسکتا۔ چلئے ایک نظر پاکستانی وزرائے اعظم کے انجام کی تاریخ پر بھی ڈال لیں کہ ان کے ساتھ کیا بیتی؟
1۔ لیاقت علی خان (قتل)2۔ خواجہ ناظم الدین( 3۔ محمد علی بوگرہ (زبردستی) 4۔ چودھری محمد علی (استعفیٰ لیا) 5۔ حسین شہید سہروردی 6۔ آئی آئی چندریگر 7۔ فیروز خان نون(تختہ الٹ دیا گیا) 8۔ ذولفقار علی بھٹو ( تختہ الٹ دیا گیا اور پھانسی ) 9۔ محمد خان جونیجو (برطرف) 10۔ بے نظیر بھٹو (برطرف) 11۔ نواز شریف (برطرف پھر بحال پھر زبردستی استعفیٰ)12۔ بے نظیر بھٹو ( برطرف اور بعد ازاں قتل)13۔ نواز شریف (تختہ الٹ دیا گیا اور جلا وطن)14۔ ظفراللہ جمالی ( استعفیٰ لیا گیا) 15۔ شوکت عزیز ( گمشدہ تلاش جاری ہے) 16۔ یوسف رضا گیلانی ( عدالتی برطرفی) 17۔ نواز شریف( عدالتی برطرفی) لیکن حیرت ہے یہ لوگ پھر بھی اسی خار زار کے مسافر ہیں۔
واپس آتے ہیں تازہ ترین صورت حال کی طرف ۔اس وقت سب کے ذہن میں یہی سوال ہے کہ اب کیا ہو گا؟عمران خان کے خلاف تحریک کی کامیابی کے بعد کیا ہو گا۔ اب ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف آئندہ اپنی پارٹی میں سے ہی کسی فرد کو وزیر اعظم کو نامزد کرے گی یا پارٹی بکھر جائے گی جیسے سوال عوام کے ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں، شنید ہے کہ تحریک عدم اعتماد کوناکام کرنے کے لیے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کا ایک اہم اجلاس ہوا ہے جس میں یہ سارے امور زیر بحث آئے ہیں، پاکستانی میڈیا کی اطلاعات اور ارد گرد کی کھسر پھسر کے مطابق پارٹی ہی کے ایک اہم رکن (جو اس وقت سب سے زیادہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جاتے ہیں خارجہ اور داخلہ امور پر ان کی گہری نظر ہے)پر نظر ٹھہر رہی ہے۔ شنید یہ بھی ہے کہ وہ آج کل ’’بالا حلقوں‘‘ میں کافی فعال بھی ہیں لیکن یہ بھی ایک خیال ہی ہے ۔ دوسری جانب اس امکان کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ حزب اختلاف کی جانب سے بھی وزیر اعظم کے عہدے کے لیے کوئی امیدوار نامزد کیا جاسکتا ہے جو شہباز شریف یا پھر خورشید شاہ ہو سکتے ہیں۔
تاریخ کے پنے الٹتے جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کے قریباً نصف حصے پرڈکٹیٹر اقتدار پر قابض رہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ ملکی خارجہ و دفاعی پالیسیوں پر فوج کا اثر و رسوخ ہے۔ اس وقت فوج کے ترجمان کے مطابق بھی فوج معاملات اپنے ہاتھ میں لینے میں اس لیے دلچسپی نہیں
رکھتی کیونکہ وہ کئی معاملات میں پہلے ہی کافی حد تک الجھی ہوئی ہے ۔ البتہ عوامی حلقوں میں کہا یہ یہ جارہا ہے کہ اب شاید ایسا نہ ہو کیونکہ پاکستانی عوام بھی ملک میں مارشل لا کے حق میں نہیں ہیں۔ پاکستانی فوج کو اپنی ساکھ اور عوامی سطح پر پائے جانے والے خیالات و تاثرات کا کافی خیال ہے۔ ماضی کے مقابلے میں آج کل فوج اقتدار میں کوئی دلچسپی بھی نہیں رکھتی، آئندہ چند روز ملکی سیاست میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوں گی، اقتدار کے قریب رہنے کی خواہش رکھنے والے کئی چہرے اِدھر سے اُدھر ہو جائیں گے۔ وقت امتحان کاہے کھرے کھوٹے کی پہچان کا۔ جواس وقت تک جاری و ساری رہے گا جب تک یہاں حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہوتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button