Column

بڑی غلطی؟ ….. ناصر نقوی

ناصر نقوی

وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی یاد تڑپا رہی ہے ۔وہ جب بیماری کے باعث علاج کے لیے لندن جانا چاہتے تھے تو ڈاکٹر ز کی ٹیم کے علاوہ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے سر عام تسلیم کیا تھا کہ نواز شریف حقیقی طور پر شدید بیمار ہیں لہٰذا انہیں روکنا غلطی ہو گی کیونکہ نواز شریف اس بیماری میں زندگی کی بازی ہار بھی سکتے ہیں یوں یہ بات اور رائے زد عام ہوئی کہ اگر نواز شریف کو کچھ ہوا تو ایسا سیاسی طوفان آئے گا کہ نومولود تبدیلی سرکار کے پاو ¿ں اُکھڑ جائیں گے افوائیں خبریں بنیں وزیر اعظم عمران خان نے ڈاکٹر ز کی رپورٹس کا نہ صرف خصوصی جائزہ لیا بلکہ قوم کو یہ بتا کر کریڈٹ لیا کہ ہم انتقامی سیاست پر یقین نہیں رکھتے ، نواز شریف ”سچ مچ“ صحت کے مسائل سے دوچار ہیں اس لیے حکومت ان کے لندن جانے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں بنے گی بلکہ تمام تر سہولیات فراہم کرے گی لیکن اُن کے روانہ ہوتے ہی شور مچ گیا کہ ڈاکٹر ز اور نوازشریف کے حواریوں نے حکومت اور وزیر اعظم کو ماموں بنا دیا۔ پھر اعلان ہوا کہ ڈاکٹرز کی رپورٹس جعلی ہیں تحقیقات اور نوازشریف کو واپس لانے کا واویلا بھی مچایا گیا لیکن حکومت کے لیے اور بھی چیلنجز تھے اس لیے پونے چار سال میں کچھ نہیں ہو سکا ۔ ان کے ضمانتی شہباز شریف بھی بھر پور سیاست کر رہے ہیں ان کے خلاف عدالتی کارر وائی کی خبر بھی حکومتی حلقوں میں زوروشور سے سنائی دی پھر بھی نتیجہ صفر رہا اب ایک مرتبہ پھر منڈی بہاﺅالدین کے حکومتی جلسے میں وزیر اعظم عمران خان نے اپنی اس غلطی پر ماتم کیا ہے ۔ اگر اس بڑی غلطی کے اعتراف کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح طور پر دکھائی دیتی ہے کہ تبدیلی سرکار ہر چھ ماہ کے بعد نواز شریف کے باہر بھیجنے کی غلطی کا شور مچاتی ہے، اس سلسلے میں مشیر خاص شہزاد اکبر مرزا زمین آسمان کے قلالبے ملاتے ہوئے نوازشریف کو بطورمجرم واپس پاکستان لانے کے درجنوں دعوے کرتے رہے وہ ہر ماہ ٹی وی سکرین پر کاغذ لہرا کر واپسی کی خبر سناتے تھے تاہم وزیر اعظم کسی نہ کسی طرح اس بڑی غلطی کا ازالہ کرنے کے خواہشمند ہیں عوامی جلسہ عام میں انہوں نے مرتے دم تک پیچھا کرنے کا وعدہ ہی نہیں کیا بلکہ اپنا روایتی نعرہ پھر لگایا ہے” نہیں چھوڑوں گا “۔

اپوزیشن کہتی ہے کہ نوازشریف کو لندن بھیجنا غلطی نہیں تھی بلکہ بڑی غلطی آئی ایم ایف سے بھاری شرائط پر حاصل کیے گئے قرضہ جات ہیں، نا تجربہ کاری اور نااہلی میں انہیں پتا نہیں لگا کہ ترقی اورخوشحالی قرضوں اور سود والی رقم سے کبھی حاصل نہیں ہوتی، عوام بجلی ،گیس اور پٹرول کی قیمتوں سے پریشان ہیں جبکہ ان قیمتوں کے اضافے سے ہو شربا مہنگائی نے غریب کے ساتھ متوسط طبقے کے بھی ہوش اڑا دیے ہیں لوگ خود کشی پر مجبور ہو گئے ہیں حالانکہ آئی ایم ایف کی بجائے خودکشی کا نعرہ عمران خان نے لگایا تھا اپوزیشن کہتی ہے حکومت عمران خان کی قیادت میں غلطی کر رہی ہے جس سے عوامی مسائل بڑھتے جارہے ہیں اس لیے اب عمران خان کو جانا چاہیے ماضی کے ادوار کاجائزہ لیں تو تبدیلی سرکار ناکام ترین دکھائی دیتی ہے لیکن حکومت اپنی غلطی ہی نہیں ، غلطیاں ماننے کو تیار نہیں ، حالانکہ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق پٹرول کی قیمت بڑھنے سے 28 اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں اضافہ ابتدائی طور پر ریکارڈ کیا جاچکا ہے جبکہ 12 اشیاءکی قیمتیں برقرار رہیں جن کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا کہ کب تک برقرار رہیں گی کیونکہ بجلی کے بلوں میں دسمبر سے اضافہ کر کے نئے بلوں میں ایڈجسٹمنٹ کی اطلاع نے قوم کو ایک نیا جھٹکا لگا دیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کہتے ہیں کہ اپوزیشن نے آصف زرداری کی تجویز پر عدم اعتماد کا فیصلہ کر کے بڑی غلطی کی ہے ، اپوزیشن چلا ہوا کارتوس ہے اس کی کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی ، کیونکہ وہ اپنے مفاد ات کا کھیل چاہتی ہے، اس کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ عمران خان کے منڈی بہاو ¿الدین کے جلسے سے اپوزیشن کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اس لیے کہ ساری جماعتیں مل کر بھی اتنے لوگ اکٹھے نہیں کر سکیں ۔ وزیر اعظم کے پہلے جلسے نے اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔ اپوزیشن عدم اعتماد کا شوق پورا کر لے ہم جانتے ہیں کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں ، ابھی تک پونے چار سال میں عدم اتفاق کے باعث اپوزیشن حکومت کے خلاف کچھ نہیں کر سکی ، اس لیے اگراپوزیشن نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو تحریک عدم اعتماد ان کی بڑی غلطی ثابت ہو جائے گی۔ اتحادیوں کے تحفظات جمہوریت کا حُسن ہیں، اپوزیشن ملاقات کا ڈرامہ کھیل کر سمجھ رہی ہے کہ اتحادی حکومت کو چھوڑ دیں گے جو حقیقت نہیں غلط فہمی ہے ۔ تحریک انصاف اور اتحادی ایک مضبوط رسی سے بندھے ہیں ۔
پیپلز پارٹی کے جیالے اور مسلم لیگ (ن) کے متوالے دعویدار ہیں کہ عمران خان عوامی لیڈر نہیں۔ سلیکٹرز نے ان کی سلیکشن سے بڑی غلطی کی جس کا نقصان ملک وملت دونوں کو ہوا ، نہ تجربہ کاری نے قومی مفادات کو نہ قابل تلافی نقصان پہنچایا جس کے ازالے کے لیے برسوں درکار ہونگے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تبدیلی سرکار کو آئینی اور قانونی طریقے سے چلتا کیا جائے ، سابق مفاہمتی صدر اور شریک چیئرمین پیپلز پارٹی آصف علی زرداری روز اول سے عدم اعتماد کی تحریک لانے پرزور دے رہے تھے لیکن حضرت مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ (ن) استعفے کی رٹ لگا رہی تھی تاہم اپوزیشن اس وقت تحریک عدم اعتماد پر متفق دکھائی دے رہی ہے لیکن مبصرین اور تجزیہ کار وں کی رائے ہے کہ ایمپائرز کے اشارے کے بغیر تحریک لانا بڑی غلطی ہو گی۔ سینیٹر کامل علی آغا اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی فی الحال وقت کو مناسب قرار نہیں دے رہے اس لیے کہ حکومتی اتحادی چودھری براداران اور ایم کیو ایم ملاقاتوں کے باوجود ابھی اتحاد سے فرار اختیار کرتے نظر نہیں آرہے بلکہ رانا ثنااللہ بھی نمبرز پورے نہ ہونے کا اندازہ لگا رہے ہیں اگر یہ اندازہ درست ہے تو یقیناً عدم اعتماد کی کوشش بڑی غلطی بن جائے گی۔ موجودہ صورت حال میں پہلے اپوزیشن کو نمبرز پورے کر کے اسد قیصر سپیکر قومی اسمبلی یا وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو ٹیسٹ کیس بنانا ہو گا کیونکہ ہر حال میں عمران خان ان دونوں سے مضبوط ہیں، یہی نہیں ، اپوزیشن کی قیادت کو بلوچستان میں باپ اور سندھ میں مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر آف پگاڑاسے ہاتھ ملا کر آگے بڑھنا ہو گا کیونکہ عدم اعتماد کے اعلان پر حکومتی صفوں کی کھلبلی یہ چغلی کھا رہی ہے کہ حکومت عوامی اجتماعات سے اپوزیشن کا زہر ختم کرنے کی کوشش کے ساتھ نئے مشیر احتساب کے تعاون سے ایک مرتبہ پھر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو جیل بھجوانے کی کوشش کرے گی کیونکہ تمام تر شواہد کے دعویدار سابق مشیر شہزاداکبر ایسا کرنے میں ناکام رہے تاہم ایک خیال یہ بھی ہے کہ اگر تبدیلی سرکار نے مثبت حکمت عملی کی بجائے نادان دوستوں کے مشورے پر پکڑ دھکڑ اور جکڑ شروع کی تو اس کا فائدہ اپوزیشن کو ہو سکتا ہے۔ اس لیے ایسا کرنا بھی بڑی غلطی ہو گی لہٰذا حکومت کو جوش کی بجائے ہوش کی حکمت عملی اپنانا ہوگی، موجودہ حالات میں سیاسی افراتفری بڑھ رہی ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن نے مستقبل کی معرکہ آرائی کی صف بندی بھی کر لی ہے۔ اپوزیشن ایک زوردار حملے کے موڈ میں ہے اور حکومت دفاعی حکمت سے کام لے گی لیکن دونوں میں اصل فرق ان پس پردہ دوستوں کا ہوگا جو اقتدار دلانے اور گرانے میں مددگار ہوتے ہیں۔ اپوزیشن نے اگر ہوم ورک مکمل کیے بغیر حکومت پر وار کیا تو یہ بھی بڑی غلطی ہوگی اور اس کی بڑی قیمت ادا کرنا ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button