Column

وہ بہت یاد آئے …..  روشن لعل

روشن لعل

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگر ایک طرف حکومت کا آناً فاناً نافذ کردہ پیکا آرڈیننس(PECA ordinance) اُکسا رہا ہے کہ اس پر کچھ لکھا جائے تو دوسری طرف سوئس سیکرٹس(Suisse Secrets) مائل کر رہی ہیں کہ ان پر اظہار خیال کیا جائے۔گو کہ ان دونوں موضوعات پر لکھنے کے لیے بہت کچھ ہے مگر اپنی کیفیت یہ ہے کہ دل کچھ ایسے لوگوں پر لکھنے کی طرف راغب ہو رہا ہے جو ایک خاص وجہ سے یاد آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ویسے تو ان لوگوں کو پیکا آرڈیننس کے حوالے سے بھی یاد کیا جاسکتا ہے مگر سوئس سیکرٹس ایسا موضوع ہے جو ان کی یاد کے ساتھ خاص مطابقت رکھتا ہے ۔سوئس سیکرٹس وہ رپورٹ ہے جس کے ذریعے ان لوگوں کے نام افشا کیے گئے ہیں جنہوں نے سوئٹزرلینڈ کے سوئس کریڈٹ بنک میں اپنا کالا دھن چھپایا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جن لوگوں نے سوئس کریڈٹ بنک میں پیسہ رکھا وہ ان کی حق حلال کی کمائی نہیں بلکہ غبن ، بدعنوانی اور دیگر جرائم کرتے ہوئے لوٹی گئی دولت تھی۔ ان لٹیروں میںشامل پاکستانیوں کی تعداد 1400 ہے جنہوں نے وہاں600 اکاﺅنٹس میں اپنا کالا دھن چھپایا۔ ان پاکستانیوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہیں ” صم بکم ، رزم آراﺅں “ جیسے خطاب دے کر کچھ قلم فروشوں نے کتابیں تک لکھ رکھی ہیں۔ واضح رہے کہ کالے دھن کی شکل میں”سوئس کریڈٹ بنک “میں چھپائی گئی دولت میں سے آدھے سے زیادہ حصہ پاکستانیوں کا ظاہر ہوا ہے۔ ان پاکستانیوں میں عسکری قیادت سے وابستہ رہ چکے لوگ، سیاستدان، کاروباری شخصیات ، میڈیا ہاﺅس کے مالک اور حتیٰ کہ میڈیا پرسنز تک کے نام بھی شامل ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برکتوںکے باعث یہ نام اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔ سوئس بنکوں میں کالا دھن رکھنے والے جن لوگوں کے نام سامنے آچکے ہیں ، ان میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ انہیں خاص طور پر یاد کیا جائے ۔ اس وقت جو لوگ خاص طور پر یاد آ رہے ہیں یہ وہی ہیں جو ماضی میں تو کسی کے متعلق محض کرپشن کی افواہوں پر سر پیٹتے اور زمین آسمان ایک کرتے ہوئے نظر آئے مگر آج سوئس سیکرٹس شائع ہونے کے باوجود یہ کہیں نظر نہیں آرہے۔

اس پاکستانی گٹارسٹ کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے جو اداکاری کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کی بھی شہرت رکھتا ہے ، جس کی وجہ شہرت ایک میوزک گروپ بھی ہے اور جس نے 1990 کی دہائی میںایک خاص سیاسی خاندان کی مبینہ کرپشن کے خلاف جاری مہم میں بہت بڑا حصہ ڈال کر اپنی خاص پہچان بنائی تھی۔ اتنی زیادہ شہرتوں اور صفات کا حامل یہ گٹار بجانے والا آج بہت یاد آرہا ہے۔ ایک جمہوری حکومت کے خاتمے کے فوراً بعد اس حکومت کے سرکردہ لوگوں کے خلاف کرپشن کی جو مبینہ کہانیاں پھیلائی گئیں ان سے متاثر ہو کر اس گٹار بجانے والے فنکار نے ایک ویڈیو گیت ریلیز کیا تھا جس میں پالتو گھوڑوں کو مربہ کھاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ بدعنوانی کرتے ہوئے گھوڑوں کو مربے کھلانے جیسی تمام کہانیاں من گھڑت اور جھوٹ ثابت ہو چکی ہیں مگر اس گٹارسٹ کو اب بھی کہیں موقع ملے تو یہ اپنے اس گیت کو کرپشن کے خلاف بہت بڑا کارنامہ قرار دیتا ہے۔ خیر اس گٹارسٹ کا کرپشن اور نظام انصاف کے متعلق جو بھی فہم ہے وہ اسے مبارک ہو، ہمیں تو یہ فنکار اس لیے یاد آیا ہے کہ کہیں تو اس نے محض کرپشن کی سنی سنائی باتوں پر گھوڑوں کو مربے کھلانے جیسے لاممکن کام پر ویڈیو بنا ڈالی اور کہیں دیدہ دلیری سے کی گئی کرپشن کے حیران کن کارنامے منظر عام پرآنے کے باوجود بھی اس کی فنکاریاں ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آرہی ہیں۔ گزشتہ ساڑھے تین برسوں کے دوران چینی، آٹا، ادویات ، پٹرول ، گندم اور کھاد جیسے نہ جانے کتنے سکینڈل سامنے آئے اور اس فنکار کو کرپشن کے خلاف اپنی فنکاریاں دکھانے کے مواقع فراہم کرتے رہے مگر یہ فنکار ہر موقع پر نہ جانے کس ضروری کام کی وجہ سے سویا رہا۔
”ضروری کام کی وجہ سے سوئے ہونے“ سے یاد آیا کہ یہ جملہ ایک گلوکار نے لوگوں کے کرپشن اور دیگر جرائم سے آنکھیں چرانے جیسے رویوں پر طنز کرنے کے لیے بنائے گئے اپنے ویڈیو گیت میں بولا تھا۔ بدعنوانیوں کے خلاف تیار کیا گیا یہ گیت اس قدر مقبول ہوا کہ اسے ایک بھارتی فلم میں شامل کر لیا گیا تھا۔ یہ گلوکار سوشل ورکر ہونے کی شہرت بھی رکھتا ہے۔ ایک سوشل ورکر کے طور پر اس گلوکار نے اس وقت سندھ حکومت کے خلاف سندھ ہائیکورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایاجب سندھ حکومت نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو اپنے صوبہ سے تبدیل کرنا چاہا۔ سابقہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے سندھ سے تبادلے کے خلاف ہائیکورٹ تک جانے والا یہ گلوکار ہر اس موقع پر یاد آیا جب پنجاب میںسات آئی جی یکے بعد دیگرے ایسے تبدیل کر دیئے گئے جیسے کپڑے تبدیل کیے جاتے ہیں۔ نہ جانے یہ گلوکار کس ضروری کام کی وجہ سے سویا ہوا تھا کہ اسے پنجاب میں ہونے والا وہ کام نظر ہی نہ آیا جسے اس نے سندھ میں غلط سمجھ کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔
آج جہاں محض خاص مواقع اور خاص لوگوں کے خلاف متحرک ہونے والے فنکار یاد آئے ہیں وہاں ایک ایسے شخص کا چہرہ بھی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے جس کی شہرت تو سماجی کارکن کی ہے مگر سماجی کارکن کا کردار وہ بھی صرف چنندہ مواقع اور چنندہ لوگوں کے لیے ہی کرتا نظر آتا ہے۔ دیگر بہت سے کاموں سمیت اس سماجی کارکن کی وجہ شہرت شاہ رخ جتوئی کی رہائی کے خلاف متحرک ہونا بھی ہے ۔ اس سماجی کارکن کے کردار کو اس وقت بہت سراہا گیا جب یہ سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر شاہ رخ جتوئی کی رہائی کے خلاف سپریم کورٹ گیا اور وہاں ایک درخواست دائر کرتے ہوئے دیت کی رقم اداہونے کے باوجود شاہ رخ کی رہائی کا حکم منسوخ کرایا۔ مذکورہ سماجی کارکن کے اس کردار کو بہت سراہا گیا کیونکہ شاہ رخ جتوئی نے جس طرح ایک بے گناہ نوجوان شاہ زیب کو قتل کیا اسے کسی نے بھی پسند نہیں کیا تھا۔ شاہ رخ جتوئی کی رہائی کا حکم منسوخ کرانے والا یہ سماجی کارکن اس وقت بہت یاد آیا تھا جب پنجاب میں شاہ زیب کی طرح ایک بے گناہ نوجوان زین کو بے دردی سے قتل کرنے والا مصطفیٰ کانجو دیت کی ادائیگی کے بعد اس طرح رہا کر دیا گیا کہ رہا ہوتے ہی وہ ناجائز اسلحہ رکھنے جیسے ان مقدمات کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھ کر ملک سے باہر چلا گیا جن میں ابھی وہ بری نہیں ہوا تھا۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ جو سماجی کارکن شاہ رخ جتوئی کے خلاف انتہائی جو ش و خروش سے متحرک ہو جاتے ہیں وہ مصطفیٰ کانجو جیسے لوگوں کے خلاف کوئی حرکت کرتے ہوئے کیوں شرما جاتے ہیں۔
جو لوگ آج یاد آئے ، ان کے یاد آنے کی وجہ ان کے کردار کا ابہام ہے ۔ اگر ایسے لوگ سوئس سیکرٹس پر بھی خاموش رہیں گے تو ان کا کردار زیادہ مبہم ہو جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button