مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کے27فروری کو شروع ہونے والے لانگ مارچ کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے تاہم تحریک عدم اعتماد پر اتفاق نہ ہو سکا۔ لیگی صدر شہباز شریف پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات کے لیے بلاول ہائوس پہنچے جہاں پر ان کے ساتھ رانا ثنااللہ، احسن اقبال، سعد رفیق اور مریم اورنگ زیب بھی ساتھ تھے۔ آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی، پرویز اشرف، مخدوم احمد محمود، رخسانہ بنگش نے استقبال کیا۔
بعد ازاں جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے مولانا اسعد الرحمان اور اکرم درانی بھی بلاول ہائوس پہنچ گئے۔ آصف زرداری سے شہباز شریف کی ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا۔
قائدین میں تحریک عدم اعتماد پر فیصلہ کن اقدام پر مشاورت ہوئی اور اتفاق کیا گیا کہ مہنگائی کی آگ عوام کے گھر جلا رہی ہے، حکومت کو گھر بھجوا کر عوام کو اس ظلم سے بچایا جا سکتا ہے۔
عوام کی خواہشات پوری کرنے کے لئے تندہی سے کام کریں گے، جلد رزلٹ دیں گے۔ فسطائیت اور آمریت کو پیکا ترمیمی قانون کا نام دیا گیا ہے، میڈیا اور اظہار رائے کی آزادیاں چھیننے والے حکمران سے اقتدار چھین لیں گے۔
قائدین نے بدامنی اور لاقانونیت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عوام کی جان و مال اور بنیادی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
اعلامیہ کے مطابق زرداری، شہباز شریف، فضل الرحمان اور بلاول بھٹو میں آج مشترکہ ملاقات کرنے پر اتفاق ہوا۔ یہ ملاقات آج دوپہر شہباز شریف کی رہائش گاہ پر ہوگی۔
دوسری طرف آصف زرداری اور شہباز شریف کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی، ملاقات میں عدم اعتماد سمیت دیگر آپشنز پر تبادلہ خیال کیا گیا، ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن نے حکومت کے10سے15ناراض ارکان کے استعفوں کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن عدم اعتماد کی بجائے وزیراعظم سے اعتماد کے ووٹ کا مطالبہ کرے گی۔
پیپلز پارٹی نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی نے ناراض حکومتی ارکان کے استعفےٰ قبول نہ کئے تو اپوزیشن کو سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی نے عمران خان سے پہلے سپیکر کے خلاف عدم اعتماد لانے کی تجویز دے دی تاہم اس دوران مسلم لیگ ن وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد لانے پر بضد ہے۔ ذرائع کے مطابق ن لیگ نے پیپلز پارٹی کی تجویز پارٹی قائد کے سامنے رکھنے کی یقین دہانی کرا دی۔
ذرائع کے مطابق زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔ ذرائع کے مطابق فضل الرحمان نے تجویز پیش کی کہ دو الگ الگ لانگ مارچ کرنے سے اپوزیشن کی تقسیم کا تاثر ملتا ہے، پیپلز پارٹی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ لانگ مارچ میں شریک ہو۔ مولانا نے تجویز پیش کی کہ پہلے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانی چاہئے۔
زر داری نے کہا کہ پہلے وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانی چاہئے تاہم مولانا اور زرداری میں اتفاق نہ ہوسکا۔ مسلم لیگ ٟنٞ نے بیرون ملک مقیم اپنے ارکان قومی اسمبلی کو48گھنٹوں میں پاکستان واپس پہنچنے کی ہدایت کر دی اور ساتھ ہی تمام پارٹی ارکان قومی اسمبلی کو آئندہ3روز لاہور اور اسلام آباد میں ہی قیام کرنے کا کہہ دیا گیا ہے۔
مزید برآں سابق صوبائی وزیر رحیم داد خان کی وفات پر ان کے بیٹے اسد خان سے تعزیت کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ملک کو بچانے کے لئے جعلی اور سلیکٹڈ حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنا پاکستانی قوم پر فرض ہو چکا ہے۔ عمران اور پاکستان میں سے اےک کا انتخاب کرنا ہو گا کیونکہ کپتان اور پاکستان مزےد اےک ساتھ نہیں چل سکتے۔ پی پی پی کا لانگ مارچ موجودہ حکومت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکے گی۔
میڈیا سے گفتگو میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر مشاورت ہورہی ہے ، اب عمران خان کو گھبرانے کی ضرورت ہے، غیر قانونی اور غیر آئینی وزیر احتساب کو اپنے اثاثوں کا جواب دینا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ صدر کا عہدہ ملک کا اہم عہدہ ہوتا ہے، بدقسمتی سے صدر بھی حکومت کے ڈیلی ویج ملازم بن گئے اور وہ کوئی بھی آرڈیننس آتا ہے اور دستخط کر دیئے جاتے ہیں۔
دوسری جانب جمعیت علما اسلام کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں مہنگائی مارچ اور دیگر تمام آپشنز کا اختیار مولانا فضل الرحمان کو دے دیا جبکہ ای سی پی کے کوڈ آف کنڈکٹ میں تبدیلی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پیکا آرڈیننس کو بھی مسترد کر دیا گیا۔