Column

بھارت میں عدم رواداری ….. مظہر چودھری

مظہر چودھری

سروں کی ملکہ لتا منگیشکرکی آخری رسومات میں شاہ رخ خان اور ان کی منیجر کی وائرل ہونے والی ویڈیو پر سوشل میڈیا میں بھارتی سیکولرازم کی تعریفیں ابھی جاری ہی تھیں کہ ریاست کرناٹک کے ایک کالج میں حجاب پہنے مسلمان طالبہ کو حراساں کیے جانے کی ویڈیو وائرل ہو گئی جس نے نہ صرف شاہ رخ خان اور ان کی منیجر کی وائرل ہونے والی تصویر کے مثبت اثرات کو ختم کر دیا بلکہ ِاس کے بعد سے سوشل میڈیا پر بھارت کا ذکر عدم روادار معاشرے کے طور پر ہونا شروع ہو گیاہے۔سات فروری کو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں شاہ رخ خان دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے جب کہ ان کی منیجر پوجا ددلانی اپنے مخصوص مذہبی انداز میں ہاتھوں کو عقیدت سے جوڑے دکھائی دیتی ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت نے اِس تصویر کو انڈیا کے سیکولرازم کی بہترین مثال قرار دیا۔ اس تصویر پر سب سے معنی خیز تبصرہ سوشل میڈیا کے مشہور لکھاری حاشر ابنِ ارشاد کی جانب سے دیکھنے میں آیا۔”یہ وہ ہندوستان ہے جو تھا، اب بکھر رہا ہے۔یہ وہ پاکستان ہے جو ہونا چاہیے تھا، کبھی ہو نہ سکا۔“۔اِس تبصرے میں جہاں ایک طرف ہندوستان میں سیکولرازم کی حالیہ بہترین مثال کی تعریف کرتے ہوئے بھارت میں مجموعی طور پر سیکولر اقدار کے کمزور ہونے اور بکھرنے کی بات کی گئی وہیں پاکستان میں کبھی بھی ایسی سیکولر اقدار مستحکم نہ ہونے پرفکر کا احساس کیا گیا ہے۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ آئینی طور پر بھارت اب بھی سیکولر ملک ہی ہے لیکن ایک دہائی کے قریب کے عرصے پر محیط بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں بھارت کا سیکولر تشخص بہت حد تک کمزور ہو گیا ہے۔ بھارت اب ”ہندوتوا“کی جانب بڑھتا دکھائی دے رہاہے یعنی یہاں ایک انتہائی دائیں بازو کی سخت گیر حکومت اور معاشرہ فروغ پا رہا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ بھارت میں انتہا پسندی اور عدم رواداری کی باتیں کرنے والوں میں لبرل اور سیکولر تجزیہ نگار بھی شامل ہیں۔اگرچہ ایسے لبرل اور سیکولر تجزیہ نگاروں کی بھی کمی نہیں جن کے مطابق بھارت میں فروغ پانے والی انتہا پسندی اور عدم رواداری عارضی اور سطحی نوعیت کی ہے اور بی جے پی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ہندوستانی معاشرے میں سیکولر اقدار مضبوط ہونا شروع ہو جائیں گی۔

آنے والے وقتوں میں بھارت میں انتہا پسندی وعدم رواداری میں کمی آتی ہے یا نہیں، اِس کے لیے تو ہمیں انتظار کرنا پڑے گا لیکن فی الوقت حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں انتہا پسندی اور عدم رواداری کی صورت حال دن بدن گمبھیرہوتی جا رہی ہے۔ مودی سرکار کے دور میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے حوالے سے عالمی سطح پرشائع ہونے والی رپورٹس کئی سالوں سے پڑھنے کو مل رہی ہیں جن کے مطابق بھارت میں مذہبی آزادیوں کا گراف بتدریج کم ہورہا ہے جس کے نتیجے میں مذہبی و سیاسی عدم رواداری کو فروغ مل رہا ہے۔اگرچہ بھارتی ریاست کرناٹک کے کئی ایک کالجز میں گذشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے طالبات پر حجاب پہننے کی پابندیاں عائد ہونے اور اِن کے نتیجے میں طالبات کے احتجاج کی خبریں گردش میں تھیں لیکن دوروز قبل کالج میں لڑکوں کے ایک جتھے کی جانب سے مسلم طالبہ کے ہراساں کرنے کی ویڈیو وائرل ہونے سے بی جے پی حکومت کو بھارت کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔نوبل انعام یافتہ اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ملالہ یوسف زئی نے اِس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ”لڑکیوں کو حجاب میں تعلیمی اداروں میں آنے سے روکنا خوف ناک عمل ہے“۔ انہوں نے انڈین رہنماؤں سے اپیل بھی کی وہ مسلمان خواتین کو غیر اہم بنانا بند کریں۔واضح رہے کہ گذشتہ کئی دنوں سے اِس تنازعہ میں نئی چیز یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ کچھ ہندو تنظیموں نے مبینہ طور پر کالج کے لڑکوں میں زعفرانی رنگ کی شالیں اور ٹوپیاں تقسیم کی ہیں جس کے بعد حجاب کا مقابلہ زعفرانی شالوں اور ٹوپیوں سے کیا جا رہا ہے جو بھارتی سماج کے مذہبی خطوط پر تقسیم ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔اگرچہ مذہبی عدم رواداری کی یہ نئی قسم فی الحال ریاست کرناٹک کے چند کالجز تک محدود ہے لیکن مسکان خان کو ہراساں کئے جانے کے واقعے کے بعد اب پورے انڈیا میں اِس عدم رواداری اور انتہا پسندی کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔
کچھ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے اِس نکتے کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے کہ حجاب پہننے پر حکومتی پابندی کی صورت میں اِس پر عمل درآمد لازمی ہو جاتا ہے۔تبصروں کا لب لباب یہ تھا کہ فرانس سمیت کئی ایک مغربی یورپی ممالک میں بھی نہ صرف تعلیمی اداروں میں حجاب یا سکارف پہننے پر قانونی اور آئینی پابندیاں عائد ہوتی رہی ہیں بلکہ فرانس میں تو کسی بھی قسم کا مذہبی نشان پہن کر کھیلوں کے مقابلے میں شرکت پر پابندی بھی لگ چکی ہے۔تہذیبوں کے تصادم کے مصنف سیموئیل پی ہنٹنگٹن نے تین دہائیاں قبل اسلامی اور مغربی تہذیب کے ممکنہ تصادم کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ دیگر ثقافتوں کوجذب نہ کرنا یا دیگر ثقافتوں میں ضم ہونے کے خلاف مزاحمت اور غیر مسلم گروہوں سے اجنبیت اسلام کے تاریخی اوصاف ہیں۔حجاب پہننے کے حوالے سے بھارت میں سامنے آنے والے واقعات سے پہلے سے ایک دوسرے سے خائف مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین رواداری کا دائرہ مزید کمزور ہو نے کے خدشات ہیں۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ بھارتی سرکار تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کرنے کی بجائے افہام و تفہیم سے کوئی درمیانی حل نکالے کہ اِس معاملے میں جبر اور ہٹ دھرمی سے دونوں قوموں کے مابین محض عدم رواداری کوہی فروغ حاصل ہوگا۔ ویسے تو موجودہ زمانے میں ہر ملک کے لیے رواداری کی اہمیت بہت بڑھ چکی ہے لیکن بھارت جیسے کثیر المذاہب اور کثیر الثقافتی ملک کے لیے تو رواداری کے بنا گزارا ہی نہیں۔ موجودہ زمانے میں رواداری صرف اخلاقی فریضہ ہی نہیں، بلکہ یہ سیاسی، سماجی،مذہبی اور قانونی ضرورت بھی ہے۔ سادہ لفظوں میں رواداری کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ایسے لوگوں کو برداشت کرتے ہوئے اِن کے ساتھ رہنا سیکھیں جنہیں آپ جسمانی،لسانی، ثقافتی،مذہبی یا سیاسی بنیادوں پر پسند نہیں کرتے۔دنیا میں ایک شخص اپنے نظریات و عقائدپر صرف اِسی صورت آزادی سے عمل پیرا ہو سکتا ہے جب وہ دوسروں کو اِن کے نظریات و عقائد پر عمل کرنے کی آزادی دے۔ رواداری واحد ایسی خوبی ہے جو نہ صرف مختلف قوموں اور جماعتوں کو بین الاقوامی سطح پر انسانی تہذیب کی تعمیر نو اور بہتری کے ضمن میں اکھٹے مل کرکام کرنے کے مواقع فراہم کر سکتی ہے بلکہ ایک ہی ملک میں مختلف نظریات رکھنے والی جماعتوں اور لوگوں کو متحد کر کے قومی مقاصد کے حصول میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button