Columnمحمد مبشر انوار

یکجہتی سے آزادی تک ….. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

اَزل سے دنیا میں غالب و مغلوب،حاکم و محکوم کی صورتحال چلی آرہی ہے اور کسی بھی قوم یا گروہ کے غلبے یا مغلوبیت کا تعین وقت کی نبض اور قوم یا گروہ کی نیت و عزم و خلوص کرتا ہے۔ غلبے یا مغلوبیت کے پس منظر میں بہرطور ”ہر عروج کو زوال یا دنیاکی فانی حیثیت“کے آفاقی اصول کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اللہ رب العزت کے حقیقی فرمان سے نظریں چرائی جا سکتی ہیں کہ وہ قوموں پر دنوں کو پھیرنے پر قادر ہے۔کل کی مغلوب قوم آج یا مستقبل قریب میں غالب آ سکتی ہے یا کل کی غالب قوم لمحہ موجود یا مستقبل قریب میں مغلوب ہو سکتی ہے،اِس کا بنیادی فلسفہ ایک طرف کسی بھی قوم کا اپنے مقصد سے خلوص یا باہمی اتحاد پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک باہمی اتحاد کو قائم رکھتی ہے یا اپنے مقصد کے حصول میں کس قدر سنجیدہ ہے،اپنے مقصد کے حصول میں کتنی قربانیاں دینے کی ہمت و حوصلہ و جرا ¿ت رکھتی ہے۔حالیہ وقت میں اِس کی واضح مثالیں چین اور روس ہیں کہ کس طرح روس اپنی گم گشتہ عظمت کے حصول میں کوشاں ہے اورکتنی جرا ¿ت و بہادری سے دنیا کی اکلوتی طاقت کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے ،کس طرح روس نے کریمیا پر اپنا حق حاصل کیا اور کس بہادری سے یوکرائن پر امریکی یلغار کے سامنے کھڑا ہے۔دوسری طرف چین ایک معاشی دیو تو بن چکا ہے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنا اثر مستقل مزاجی اور مسلسل بڑھا رہا ہے،امریکہ اپنی ہر ممکن کوششوں کے باوجود چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ خواہ وہ دلائی لامہ کا مسئلہ ہو یا چین کی جغرافیائی حدود کا از سر نو تعین اور اِس کے حصول میں اِس کی مسلسل پیش قدمی،امریکہ ہر دو صورتوں میں ابھی تک ناکامی کا سامنا کر رہا

ہے اور چین کے بڑھتے ہوئے قدم اِس کی ہزیمت میں اضافہ کر رہے ہیں۔
 چین کا دہائیوں سے تبت کی سرزمین پر حق ملکیت کا دعوی رہا ہے اور شو مئی قسمت کہ 2019میں مودی سرکار کے احمقانہ قدم نے ،چین کو تبت کی سرزمین پر قبضہ کرنے کی راہ کوسہولت کے ساتھ ہموار کر دیا ۔ گو کہ چین نے عالمی برادری کا رد عمل بغور دیکھا،اِس دوران اپنا ہوم ورک بخوبی کیااور چند ماہ بعد ہی لداخ پر فوجی پیش قدمی کر دی کہ بھارت کے یکطرفہ اقدام نے قانونی طور پر اِس سرزمین کی حیثیت ”نومینز لینڈ“ جیسی کر کے چین کے لیے لداخ پر پیش قدمی کو قانونی جواز فراہم کر دیا۔ چین نے لداخ پر پیش قدمی کرکے ایک طرف تو سی پیک جیسے انتہائی منصوبے پر امریکی شہہ پر بھارتی شرانگیزی کو قبل از وقت ہی نہ صرف محدود بلکہ نا ممکن بنا دیا ہے اوریوں سکون سے سی پیک منصوبے کی تکمیل کو یکسوئی کے ساتھ بروئے کار لے آئے گا،تسلیم کہ پاکستان میں اندرونی طور پر بھارت مسلسل ایسی گھناو ¿نی حرکتوں کا ارتکاب کر رہا ہے کہ جس سے نہ صرف چین بلکہ پاکستان بھی متاثر ہوتے ہیں لیکن چین کی بیدارمغز قیادت اِن حقائق کو بخوبی سمجھتی ہے اور اِن سے کسی بھی صورت متاثر ہونے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی اِس منصوبے سے دستبردار ہوتی نظر آتی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے واقعات سے پاکستان کی داخلی صورتحال پر مسلسل سوالیہ نشانات اٹھتے ہیں اور چینی قیادت اِس پر مضطرب بھی نظر آتی ہے کہ پاکستان نے داخلی امن وامان کی صورتحال ہزاروں جانی قربانیاں دے کر بہتر کی ہے لیکن اِس کے باوجود کہیں نہ کہیں،کوئی نہ کوئی ایسی دڑار ہنوز موجود ہے جہاں سے بھارتی ایجنٹ با آسانی نقب لگانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کو اِس کمزور حصے پر قابو پانے کے لیے بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ پاکستان اپنے محدود وسائل کے ساتھ اِن پر کماحقہ قابو پانے میں اِس و قت تک ناکام رہے گا جب تک اِس کا داخلی ڈھانچہ ریاستی مشینری اور اِن بکاو ¿ افراد کو اِس کی حیثیت کا ادراک نہیں ہوتا۔
بہرکیف غلبے و حاکمیت کی اِس دوڑ میں ،چین مسلسل پیش قدمی کررہا ہے جس کی بنیادی وجوہات وہی ہیں،جن کا ذکر اوپر کر چکا ہوں لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اگر مزید غور کریں تو اپنے عزم کے حصول میں جن بنیادی عناصر کی موجودگی لازم ہے ،اِن میں سیاسی و سفارتی و دفاعی گہرائی و گیرائی بھی آج چین کے پاس موجود ہیں۔ سیاسی اعتبار سے چین میں عدم استحکام کا وجود نظر نہیں آتا اور تمام تر سیاسی عمل میں چینی عوام کا اعتبار نظام پر ہے اور سیاست انتہائی مستحکم ہے گو کہ امریکہ نے اِس میں شرانگیزی کرنے کے کوشش ضرور کی ہے لیکن توقع یہی ہے کہ امریکہ اپنی اِس کاوش میں بری طرح ناکام ہو گا۔دوسری طرف سفارتی محاذ پر چین کے سفارتکار انتہائی مہارت سے چین کا مو ¿قف ساری دنیا میں پھیلا کر ،اقوام عالم کو اپنا ہمنوا بنا رہے ہیں،اِن کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات کو فروغ دے رہے ہیں،تجارت کے لیے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں اور چینی مصنوعات کو دنیا بھر میں پہنچانے کی کوششوں میں کامیاب نظر آتے ہیں۔دفاعی اعتبار سے بھی چین اِس وقت ،امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا ہے اور برصغیر میں امریکی تھانیدار بننے کے خواہشمند ،بھارت کو ناکوں چنے چبوا رہا ہے، قریباً14/15دفاعی ماہرین کے مذاکرات میں چین نے اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹنے سے انکار ہی نہیں کیا بلکہ بھارتی اروناچل پردیش کو اپنی ریاست کا حصہ بنا کر اِن کے چینی نام بھی شائع کر دئیے ہیں۔یوں چین نے اپنے مستقبل کے عزائم کو مزید واضح کردیا ہے اور مستقبل قریب میں چین اپنے حق دعویٰ کے اِن تمام علاقوں پر قابض ہونے کا باضابطہ اعلان کر چکا ہے لیکن کسی بھی عالمی طاقت میں یہ جرا ¿ت نہیں کہ چین کے اِس عزم کے خلاف کوئی بات کر سکے،البتہ چند پابندیوں کا ذکر ضرور ہے،جسے نہ چین اور نہ ہی روس ماننے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی ایسی پابندیاں اِن کی حیثیت کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہو گا کہ ایسی امریکی پابندیوں کے جواب میں دنیا کھل کر دو حصوں میں بٹ جائے گی ،جس کا نقصان واضح طور پر امریکہ کو ہی ہو گا۔
اِس پس منظر میں پاکستان کا کشمیر پر دعویٰ،اِس کی حیثیت،اِس کا حصول کیسے ممکن ہو گا؟انتہائی واضح ہے کہ کشمیر پر حق دعویٰ رکھنا اتنا اہم نہیں،جتنا اہم اِس حق دعویٰ کو ثابت یا حاصل کرنا ہے۔ پاکستان پچھلی چند دہائیوں سے یوم یکجہتی کشمیر منا کر ،کشمیر یوں کے ساتھ اپنی یکجہتی کا ثبوت تو دے رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر گذرتے دن کے ساتھ پاکستان اپنے موقف کی حمایت میں فقط زبانی کلامی ہی ساتھ ہے،عملًا پاکستان کا کردار کم ہوتا جا رہا ہے۔ میری نظر میں،پاکستان کا کشمیر پر موقف مبنی برحقیقت ہونے کے باوجود،پاکستان کا کردار کم ہونے کی وجوہات فقط یہی ہیں کہ پاکستان میں داخلی طور پر سیاسی عدم استحکام کی شدت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ،جس کی وجہ پاکستانی سیاسی قائدین کا غیر سنجیدہ رویہ ہی ہے کہ وہ اِس اہم ترین مسئلے پر بھی متحد ہونے سے قاصر ہیں۔ دوبارہ دہرانا بھی نہیں چاہتا کہ پاکستانی سیاستدانوں کی اکثریت اب کشمیر جیسے اہم مسئلہ پر بات کرنے کے لیے ہی تیار نہیں،مودی سرکار کے غیر انسانی رویوں کی مذمت یا کشمیریوں کے حقوق کی بات کرنا اِن کے لیے غیر اہم ہو چکا ہے،موجودہ حکومت بھی سوائے اہم مواقع پر تقاریرکے علاوہ عملًا کچھ کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ سفارتی محاذ پر بھی وہ گرمجوشی مفقود ہے،جو پاکستان کی شہ رگ کے لیے پائی جانی چاہئے البتہ وہی بات کہ ماسوائے اہم مواقع پر کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی ضرور نظر آتا ہے،جذباتی تقاریر ہوتی ہیں،کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے سنائی دیتے ہیں،موقف کاا عادہ کیا جاتا ہے۔ دفاعی اعتبار سے مضبوط ہونے کے باوجود،پاکستان سیاسی و سفارتی اعتبار سے اپنی کمزوریوں کو چھپانے میں کامیاب نظر نہیں آتا اور رات کی تاریکی میں بھارتی ناکام سرجیکل سٹرائیک کے بعد پاکستان کا دن کی روشنی میں کامیاب سرجیکل سٹرائیک اور پھر بھارتی جواب میں دو طیاروں کو گرانے اور پائلٹ کو گرفتار کرنے کے بعد،سیاسی طور پر چھوڑ دینا،سیاسی و سفارتی مصلحتوں کو آشکار کرتا ہے۔ اپنے اصولی موقف پر ایسا رویہ ،چہ معنی دارد؟اور کیا اِس رویے کے بعد کشمیر ی موقف پر یکجہتی سے آزادی تک کے سفر میں کامیابی کا کتنا امکان ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button