Column

اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے ….. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی …..

ایک روزچنگھاڑتی ہوئی خبر سامنے آتی ہے کہ وفاقی یا صوبائی حکومت کے فلاں وزیر یا مشیر کو دیس نکالاملنے والا ہے، دوسرے روز کسی نہ کسی ذریعے سے اِس کی تردید کی جاتی ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ ٹھیک چند روز یا چند ہفتے بعد تردید کے برعکس فیصلہ سامنے آ جاتا ہے۔ پس جس خبرکی تردید آ جائے اِس پر اَب یقین کرنے کو جی چاہتا ہے۔ حکومت کی صفوں سے جس شخصیت کا تازہ ترین استعفیٰ آیا وہ وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر ہیں، اِنہیں بتایا گیا کہ آپ مستعفی ہو جائیں ، اقتدار سے علیحدگی کا یہ قابل عزت طریقہ سمجھا جاتا ہے جس میں گنجائش موجود رہتی ہے کہ مستعفی ہونے والی شخصیت کہہ سکے کہ اِس کی کارکردگی تو بہت اچھی تھی لیکن صحت ٹھیک نہ رہتی تھی لہٰذا خرابی صحت کی بنا پر استعفیٰ دینا بہتر سمجھا۔ ایک اور قابل عزت بہانہ ذاتی مصروفیات بھی ہوتی ہیں، بتایا جاتا ہے کہ مستعفی ہونےوالی شخصیت اپنے کاروبار، زمیندارے یا پریکٹس کی طرف لوٹنا چاہتی ہے جس کا سرکاری مصروفیات میں اُلجھے رہنے کے سبب بہت نقصان ہو چکا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ایسی شخصیات کو اپنے کسی کاروبار میں حکومت میں رہتے ہوئے کوئی نقصان کبھی نہیں ہوا بلکہ دن دگنی رات چوگنی ترقی ہوتی ہے۔ ملک میں بے یقینی کا موسم چھائے عرصہ بیت چکا لہٰذا بڑے بڑے صادق و امین کچھ بھی کہہ رہے ہوں، جب بھی یقین کا رنگ نہیںجمتا۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق کہتے ہیں کرپٹ لوگ کرپشن ختم نہیں کر سکتے، حکومت کے پاس کچھ کرنے کو اب وقت نہیں بچا، وہ خم ٹھونک کے حکومت کیخلاف میدان میں ہیں۔ خیال افروز خطابات سے لہو گرما رہے ہیں۔ ماضی قریب میں جماعت اسلامی صوبہ خیبر میں تحریک انصاف کی حلیف جماعت تھی اور شریک اقتدار بھی رہی۔ سراج الحق صاحب اقتدار میں اپنی جماعت کی نمائندگی کرتے تھے، وہ داغدار کرداروں کے درمیان اِس طرح اپنا کردار ادا کرتے رہے کہ اِن کے اپنے دامن پر کوئی داغ نہ آیا۔ اب وہ فرماتے ہیں کہ حکومتی کشتی سے اِس کے اپنے لوگ باہر چھلانگیں لگا رہے ہیں مگر مجھے یقین نہیں آ رہا۔

یہ بھی پڑھیے

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن گرج رہے ہیں کہ لانگ مارچ ہر صورت ہو گا۔ مجھے گزشتہ برس اِن کا دھرنا یاد آ جاتا ہے وہ بہت پرامیدتھے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں دھرنے میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالیں گی۔ دھرنے میں وہ رونق نہ تھی جو اِس کی آن بان شان بڑھاتی ہے، میری مراد موسیقی کے پروگراموں ڈھول باجے سے ہرگز نہیں، لیکن بتایا جا رہا تھا حدنگاہ سروں کا سمندر ہو گا، کھوئے سے کھوا چھل رہا ہو گا۔ دیکھنے ہم بھی گئے پر تماشا نہ ہوا، خالی جگہیں پرُ کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اِن کی حلیف جماعتوں کی دونمبر کی قیادت اِن کے ساتھ سٹیج پر آئی پھر ایک جھلک دِکھلا کر جانے کہاں غائب ہو گئی۔ مولانا اور اِن کی جماعت ”کمک“ کا انتظار کرتی رہی پھرشاید کوئی پیغام ملنے پر سب رخصت ہو گئے۔ جاتے جاتے اِتنا کہاکہ اِس کے بعد پلان بی ہے اور بی کے بعد پلان سی بھی ہے جبکہ آغاز میں فرمایا تھا کہ ہم آ گئے ہیں اب حکومت کو گھر بھیج کر ہی رخصت ہوں گے۔ حکومت وہیں پر رہی اِنہیں خود رخصت ہونا پڑا۔ وہ لانگ مارچ کے بارے میں خاصے یکسو ہیں مگر دل ہے کہ مانتا نہیں۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نعرہ زن ہیں کہ تبدیلی کے نام پر تباہی جاری ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے غریب دشمنی ہے۔ اِنہوں نے دیگر حکومتی اقدامات کو بھی زبردست تنقید کا نشانہ بنایا لیکن سینیٹ میں اِن کی جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹرزنے جو گُل کھلائے وہ قوم کے سامنے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اہم سینیٹرزاِس روزسینیٹ اجلاس میں ووٹ دینے کے لیے نہ آئے جس روز اہم بل پر ووٹنگ ہونا تھی۔ حکومت کو اپنے پیش کردہ بل پر اپوزیشن کے مقابلہ میں ایک ووٹ سے کامیابی نصیب ہوئی۔ واضح نظر آیا کہ حکومت کی جھولی میں یہ کامیابی انڈر سٹینڈنگ کے بعد ڈالی گئی، ایسا نہ ہوتا تو یہ بل سینیٹ سے منظور نہ ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو کی بات پر بھی یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ وہ ڈاکو راج ختم کرنے کی باتیں عرصہ سے کر رہے ہیں مگر سندھ سے ڈاکو راج ختم نہ ہو سکا ،جہاں اِن کے خاندان اور پارٹی کی حکومت کی یہ مسلسل تیسری ٹرم ہے۔ بات تو مضحکہ خیز ہے مگر ہے حقیقت۔ سندھ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں کے نامی گرامی ڈاکوﺅں کے سرکردہ گروہوں کے نمائندوں نے مقامی پولیس کیخلاف احتجاجی جلوس نکالا، مظاہرہ کیا۔ اِن کا مطالبہ تھا کہ ہمیں پولیس کے ظلم و ستم سے نجات دلائی جائے، ہم پولیس کے ساتھ مشاورت کے بعد وارداتیں کرتے ہیںاِنہیں معاہدے کے مطابق اِن کاحصہ پہنچاتے ہیں لیکن پولیس ہمیں ناجائز تنگ کرتی ہے۔

وزیر خزانہ حکومت پاکستان نے ایک ہفتہ قبل فرمایا تھا دو یا تین ماہ میں مہنگائی ضرور ختم ہو جائے گی، ابھی اِن کے لفظوں کی بازگشت ختم نہ ہوئی تھی کہ تازہ بیان آ گیا جس کے مطابق اِن کا کہنا ہے کہ آئندہ تین ماہ میں مہنگائی تو ختم نہیں ہوگی لہٰذا ہم مڈل کلاس اور تنخواہ دار طبقہ کی آمدن بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ آمدن بڑھانے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا اِس حوالے سے کوئی منصوبہ کہیں بھی زیر غور نہیں لہٰذا دم بدم بدلتی اِن کی باتوں پر یقین کرنا بھی مشکل ہو چلا ہے۔

گزشتہ ساڑھے تین برس میں حکومت کی ترجمانی کے فرائض انجام دینے والے وزیر داخلہ شیخ رشید نے بالآخر تسلیم کر لیا کہ اپوزیشن رہنما کو ملک سے جانے کی اجازت حکومت نے دی۔ اِس سے قبل وہ کہتے تھے کہ میڈیکل رپورٹس کی روشنی میں ایسا ہوا۔ جن ایام میں یہ فیصلہ زیر غور تھا اور میدان ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے خوب زور و شور سے کام ہو رہا تھا، اِس کام کو کر گزرنے کی تلقین صبح و شام وہ بذات خود کیا کرتے تھے۔ آج وہ نوازشریف کو باہر بھیجنا بڑی غلطی قرار دے رہے ہیں۔ اِس سے قبل اسد عمر نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر پھینکنے کی بجائے پوری چٹان ہی پانی میں گرا دی تھی جس پر پانی کناروں سے باہرچھلکنے لگا۔ اِنہوں نے بعدازاںمختلف تاویلیں پیش کیں کہ میں نے یوں سوچا اور یوں کیا۔ میرا مطلب یہ نہیں کچھ اور تھا۔ وہ جو کچھ کرنا چاہتے تھے کر گئے، جو کہنا چاہتے تھے نتائج سے بے نیاز ہو کر کہہ گئے۔ اپنی ہی کہی ہوئی بات پر کہتے ہیں کہ یقین نہ کیا جائے، سو یقین نہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب کہتے ہیں اپوزیشن میں استعفے دینے اور لانگ مارچ کی ہمت نہیں ہے، اِن کی بات پر یقین کرنے کو دل مانتا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اگر واقعی استعفے دینا چاہیں اور سب اِس پر متفق ہوں تو ایک آل پارٹی کانفرنس، آل پارٹی اجلاس، پھر ایک فیصلہ اور اگلے دن نہیں اِسی روز اپنے استعفے جمع کرا دیں۔ اس کے لیے ساون بھادوں کا یا نئے گُل کھِلنے کے موسم کا انتظار بے معنی ہے۔ ساڑھے تین برس سے استعفوں کی دھمکی دی جا رہی ہے، صرف دھمکی اور بس۔ اِن کی خدمت میں گزارش ہے، کہنے والو! کسی روز کر کے بھی دکھاﺅ؟ لیکن ایسا نہیں ہو گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار شاید درست کہتے ہیں۔
کسی شخص کو اِس کے دوست احباب یا مخالفین کچھ کہتے رہیں، اِن کی باتوں کی اہمیت نہیں ہوتی البتہ اگر کوئی شخص اپنے بارے خود کچھ کہہ دے تو اِسے درست مان لینا چاہئے۔ وزیراعظم عمران خان نے کھلے لفظوں کہہ دیا ہے کہ وہ بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔ خان خطرناک ہے، میں بھی عرصہ دراز سے یہی کہہ رہا ہوں لیکن جون ایلیا نے کیا خوب کہا:

اب نہیں بات کوئی خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button