تلاطم کیا خاک ہوتا

تحریر : سیدہ عنبرین
ایک شخص سترہ برس تعلیم حاصل کرنے کے بعد میڈیکل کالج میں داخل ہوتا ہے، وہ پانچ برس تک میڈیکل تعلیم حاصل کرتا ہے، ایک سال آن جاب نرسنگ یعنی ہائوس جاب کرتا ہے، اس عرصہ میں وہ یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسے میڈیکل کے کسی شعبے میں کیریئر بنانا ہے، وہ میڈیسن میں رہے گا یا گائناکالوجی میں، اسے آرتھویڈکس بھاتا ہے یا آن کولوجی وہ پیڈیاکڑس میں اپنا مستقبل دیکھتا ہے یا اسے کاریڈیالوجی کی طرف جانا چاہئے۔ اس فیصلے کے بعد وہ خصوصی تعلیم اور ٹریننگ کیلئے اپنے من پسند شعبے میں ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتا ہے اور نئی ریسرچ، نئی ایجادات کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ رکھتا ہے، کام کرنے اور سیکھنے کا عمل تمام عمر جاری رہتا ہے، حتیٰ کہ عمر تمام ہو جاتی ہے، وہ دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے یا رخصتی کی تیاری کے عمل میں وہ اپنے ہاتھ سے کچھ کرنے کے قابل نہیں رہ جاتا۔ ہاتھوں میں رعشہ آجانا، نظر کا انتہائی کمزور ہو جانا اور بادداشت خراب ہو جانا وجوہات میں شامل ہوتا ہے۔ عمر اور صحت ساتھ دے تو ایک ڈاکٹر قریباً پینسٹھ سے ستر برس کی عمر تک اپنے پیشے سے انصاف کر سکتا ہے، گویا وہ پینتس سے چالیس برس تک ایک مضمون پڑھتا ہے اور اسے پریکٹس کرتا ہے، کیا آپ اس سے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ اس عمر کو پہنچنے کے قریب ہو اور اچانک اپنے تمام علم اور اپنی پریکٹس پر تین حرف بھیج کر فیصلہ کر لے کہ اس نے زندگی میں جو کچھ کیا وہ بھاڑ جھونکنے سے کم نہ تھا، یہ سوچ کہ وہ اپنے کلینک، آپریشن تھیٹر، کتابوں، آلات کو آگ لگا دے اور ہومیو کلینک کھول کر بیٹھ جائے، ایسا ممکن نہیں، اس نے زندگی میں جو کچھ سیکھا ہوتا ہے اس سے انحراف یوں بھی ممکن نہیں ہوتا کہ سیکھنے کی عمر بیت چکی ہوتی ہے۔ جسمانی انحطات کے عالم میں نئی چیزیں نہیں سیکھی جا سکتیں، پرانے خیالات کو کھرچ کہ نئے انداز نہیں اپنائے جاسکتے۔ اب آئیے ذرا چلیں، امریکی کانگریس مین کے دورہ پاکستان کی طرف، یہ سب لوگ منہ اٹھا کر پاکستان نہیں چلے آئے، ان کا تعلق سیاسی پارٹی سے ہے، جس کی اپنی ایک پالیسی ہے، اپنا ایک عالمی ایجنڈا ہے، لیکن سب کچھ ہونے کے باوجود امریکہ اور یورپ میں سب کچھ اتنا کھلا اور واضع نہیں، جتنا ہم سمجھتے ہیں، کوئی بھی پارٹی اقتدار میں ہو اس کا صدر جو بھی بیان بازی کرتا پھرے، امریکہ کی ایک ریاستی پالیسی ہے، جو حکومتیں بدلنے کے ساتھ نہیں بدلتی، بلکہ برس ہا برس چلتی رہتی ہے، پالیسی وہاں کی سیاسی
جماعتیں یا پارلیمنٹ نہیں بناتی بلکہ نظر نہ آنے والی قوتیں بناتی ہیں۔ ان کی پالیسیاں ہوا میں نہیں بنتیں، ان کے کچھ اہداف ہوتے ہیں، یہ اہداف ایک دو برس کیلئے سامنے نہیں رکھے جاتے، بلکہ پچیس برس کیلئے رکھے جاتے ہیں۔ انہیں حاصل کرنے کیلئے ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کیا جاتا ہے، کوئی امریکی قانون، کوئی امریکی آئین کوئی قاعدہ ، کوئی ضابطہ اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ ایک پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اہداف حاصل نہ ہو رہے ہوں تو پالیسی میں چھوٹی موٹی تبدیلی کی گنجائش موجود ہوتی ہے، لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آج امریکہ پالیسی بنائے کہ اس نے چین کا ایشیا اور دنیا میں اثر و رسوخ کنٹرول کرنا ہے، کل وہ چین کی محبت میں گرفتار ہوجائے اور اسے کھلا چھوڑ دے، ایسا نہیں ہوتا۔ پاکستان کے دورے پر آئے کانگریس مین چیک برگیمن لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد سیاست میں آئے ہیں، انہوں نے اپنی ملٹری سروس میں صرف ایک بات سیکھی ہے ہائی کمان کے عہدے کے حکم پر عمل کرتا ہے اور اس کے مطابق اپنے ماتحتوں کو حکم دینا ہے، یعنی ان کی تمام زندگی آرڈر اینڈ اوبے کے فلسفے کے مطابق گزری ہے۔ دنیا میں افواج سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ جو ترقی کی اعلیٰ ترین منازل تک پہنچتے ہیں وہ اس اصول پر کار بند رہتے ہیں، اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تمام عمر جو پڑھا یا سیکھا اس کے برعکس وہ انسانی حقوق کے ترجمان بن جائیں، ظلم و تشدد اور ناانصافیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیں۔ اچانک انہیں کوئی شریف النفس کتا کاٹ لے اور وہ اس کے کاٹنے سے مظلوموں کی حمایت میں کانگریس میں آواز بلند کرنے لگ جائیں، وہ وہی کچھ کرتے نظر آئیں گے جو وہ تمام عمر کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ایک سیاسی جماعت جوائن کی ہے، وہ اس کی پالیسی لائن پر چلیں گے ، پاکستان کا دورہ کرنے والے ایک اور کانگریس مین ٹام سوزی ہیں، ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے وہ جدی پشتی سیاستدان
ہیں، ایک خاص مائنڈ سیٹ رکھتے ہیں، وہ سولہ برس سے کانگریس میں ہیں، انہوں نے چار مرتبہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے، ان کے والد، کزن اور انکل بھی سیاسی میدان میں رہے ہیں، ان کے خاندان کے افراد گورنر اور میئر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اس مرتبہ بھی اپنا انتخاب جیتنے کیلئے ویسے ہی دلفریب نعرے لگائے، جیسے ترقی پذیر ملکوں میں عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے لگائے جاتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ منتخب ہونے کے بعد بھی اپنے حلقہ انتخاب سے رابطہ رکھتے ہیں، ہمارے نمائندوں کی طرح پانچ برس بعد شکل نہیں دکھاتے، وہ اپنی بساط کے مطابق لوگوں کے کام کرتے رہتے ہیں، صرف پیسہ بنانے کی دوڑ میں مصروف نہیں رہتے، لیکن وہ مکمل پالیسیوں کے پابند ہوتے ہیں، کہنے کہ وہ پالیسی میکر کہلاتے ہیں لیکن پالیسیاں بنتی کہیں اور ہیں۔ کانگریس ان پر عملدرآمد کراتی ہے۔ دل پشوری کرنے کیلئے بعض پالیسیوں کی مخالفت کی جاتی ہے، لیکن وہ آخر میں منظور ہوجاتی ہیں۔
پاکستان آنے سے قبل انہوں نے اپنے انٹرویو میں پاکستان اور اس کے عوام کے بارے میں بہت خوبصورت باتیں کیں، ہم باتوں میں یہ آسانی آ جاتے ہیں اور بہت جلد اپنے دکھ بھول کر بہل بھی جاتے ہیں، پھر نا امیدی ہمیں گھیر لیتی ہے۔
تیسرے کانگریس مین جوناتھن تھے، جو یہاں آ کر بہت خوش ہوئے، مختلف فوٹو سیشن میں ان کی خوشی دیدنی تھی، ان کا کام صرف اتنا ہی تھا۔ یہ وفد کہنے کو تو ایک پرائیویٹ دورے پر تھا، لیکن در حقیقت ایسا نہیں تھا، اس کا ثبوت اب ان کی امریکی کانگریس میں وہ رپورٹ ہو گی جو وہ پیش کریں گے، انہیں پاکستان میں ’’ موجوں کی روانی‘‘ دیکھنے کیلئے بھیجا گیا تھا، یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ایک بریف کردہ ایجنڈے سے ہٹ کر کچھ کرنے، دیکھنے یا سننے آئے تھے۔ امریکی سفارتخانے نے ان کی بھرپور رہنمائی کی اور واشنگٹن پروگرام کو آگے بڑھایا۔
ہم نے انہیں ایسی جھیل دکھائی جس میں پانی تھا ہی نہیں۔ تلاطم کیا خاک ہوتا، ہم ایسے مہمانوں کی جس طرح خدمت کرتے ہیں وہ تفصیلات کبھی سامنے آئیں، لیکن مہمان کتنے خوش واپس جاتے ہیں اس سے مہمان نوازی کا اندازہ ہوتا ہے۔