Column

جنوبی پنجاب کے بدقسمت محنت کش

تحریر : صفدر علی حیدری

حدیث مبارکہ ہے: قریب ہے مفلسی کفر تک پہنچا دے۔
اس پاپی پیٹ کی خاطر انسان کیا کچھ نہیں کرتا۔ بلند و بالا عمارتیں پر چڑھ جاتا ہے، سمندر کی تہہ میں اتر جاتا ہے، زمین کے اندر اتر جاتا ہے۔ بے ایمانی کرتا ہے، اپنا چین آرام تج دیتا ہے مگر ہوتا یہ ہے کہ اس کے اپنے گھر والے اس سے راضی نہیں ہو پاتے۔
میرا خطہ جنوبی پنجاب غربت کی چکی میں صدیوں سے پس رہا ہے۔ اس کے محنت کش باشندے پیٹ کا ایندھن بجھانے اور کمانے کے اپنا گھر بار چھوڑنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ کبھی بلوچستان سے ان کی لاشیں آتی ہیں تو کبھی کسی اور جگہ سے۔ وہ بدقسمت آٹھ پاکستانی مزدور عید پر اپنے گھر نہ آ سکے مگر ان کی ہلاکتوں کی روح فرسا خبر ان کے گھر والوں تک پہنچ چکی ہے۔
ایران کے مغربی صوبے سیستان و بلوچستان میں ایک افسوس ناک اور دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا ہے، جہاں پنجاب سے تعلق رکھنے والے آٹھ پاکستانی مزدوروں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ یہ واقعہ ایرانی شہر مہرستان سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور ہیزآباد پایین گائوں میں پیش آیا، جو پاکستانی سرحد سے تقریباً سو کلومیٹر کی فاصلے پر واقع ہے۔ ذرائع کے مطابق، حملہ آوروں نے ایک آٹو ورکشاپ میں داخل ہو کر مزدوروں کو ہاتھ پائوں باندھ کر گولیاں ماریں۔ مقتولین کی شناخت دلشاد، اس کے بیٹے نعیم، جعفر، دانش اور ناصر کے ناموں سے ہوئی۔ تمام مقتولین کا تعلق پنجاب کے ضلع بہاولپور سے بتایا جا رہا ہے اور وہ سیستان میں مقیم تھے۔ سیکیورٹی فورسز نے جائے وقوعہ سے لاشیں برآمد کر لیں، جب کہ ایرانی حکام نے تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔ تاحال حملہ آوروں کی شناخت نہیں ہو سکی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان مزدوروں کو ایک پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیم نے نشانہ بنایا۔ مقامی ذرائع نے بتایا کہ مقتولین کی لاشیں انتہائی افسوسناک حالت میں ملیں، سب کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے تھے۔ یہ تمام افراد آٹو ورکشاپ میں موٹر مکینک کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ایران میں آٹھ پاکستانیوں کے قتل پر دفتر خارجہ کا ردعمل سامنے آ گیا، ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ حقائق کی تصدیق کے بعد تبصرہ کیا جائے گا ایرانی سرزمین پر پیش آنے والے افسوس ناک واقعے سے باخبر ہیں اور ایرانی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ دوسری جانب وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ایران کے علاقے مہرستان، صوبہ سیستان میں 8پاکستانیوں کے بیہمانہ قتل پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا اور کہا کہ دہشتگردی کا ناسور خطے میں موجود تمام ملک کیلئے تباہ کن ہے۔ خطے میں موجود ممالک کو مل کر دہشتگردی کے خلاف مربوط حکمت عملی پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ایرانی حکومت ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کرنے کے بعد قرار واقعی سزا دے اور اس بہیمانہ اقدام کی وجوہات عوام کے سامنے لائیں۔ پاکستان میں ایرانی سفارتخانے نے بھی اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے غیر انسانی اور بزدلانہ عمل قرار دیا۔ سفارتخانے کے ایک بیان میں کہا گیا کہ دہشتگردی خطے کے لیے مشترکہ خطرہ ہے اور اس کے خاتمے کے لیے تمام ممالک کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ دہشتگردی نے گزشتہ چند عشروں میں ہزارہا بے گناہ انسانوں کی جانیں لی ہیں۔
دوسری طرف ایران کے سیستان بلوچستان کے ضلع مہرستان میں آٹھ پاکستانی شہریوں کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری کا دعویٰ ایک غیر معروف تنظیم کالعدم بی این اے یعنی بلوچ نیشنلسٹ آرمی کی جانب سے کیا گیا ہے۔ سرکاری سطح پر اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کے حوالے سے دعوے کی تاحال تصدیق نہیں ہوئی ہے، تاہم ایران کے کسی علاقے سے پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کے حوالے
اس تنظیم کی ذمہ داری قبول کرنے کا شاید یہ پہلا واقعہ ہے۔ تاہم بلوچستان میں ماضی میں اس تنظیم کی جانب سے بعض واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے کے حوالے سے دعوے سامنے آتے رہے ہیں۔ بلوچستان میں تشدد کی زیادہ تر کارروائیوں کی ذمہ داریاں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی، کالعدم بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بی ایل اے اور بی ایل ایف سمیت دیگر مسلح تنظیموں کے اتحاد براس یعنی بلوچ راجی آجوئی سنگر کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہیں۔ تاہم کالعدم بی این اے کی جانب سے مکران ڈویژن کے دو اضلاع پنجگور اور کیچ سے تشدد کے چند ایک واقعات کی ذمہ داری قبول کی جاتی رہیں ۔
اپریل سنہ 2023میں بی این اے کے پہلے سربراہ گلزار امام کی گرفتاری ظاہر کی گئی اور اس حوالے سے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں یہ کہا گیا کہ انھیں بلوچستان میں شدت پسندوں کے خلاف ہونے والے ایک آپریشن کے دوران گرفتار کیا گیا۔ اس سے قبل سنہ 2022کے آخر میں گلزار امام کے بارے میں بی این اے کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ گلزار امام پاکستانی اداروں کی تحویل میں ہیں جبکہ اس حوالے سے ایسی اطلاعات بھی سامنے آتی رہیں کہ گلزار امام کو ترکیہ سے حراست میں لیے جانے کے بعد پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا۔ مذکورہ تنظیم کی جانب سے طویل عرصے بعد ایران کے کسی علاقے میں اپنی نوعیت کے کسی بڑی کارروائی کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ ہے تاہم ابھی تک ایران اور پاکستان میں سرکاری سطح اس کی تصدیق ہونا باقی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ایران سے اس سانحے کے حوالے سے اعلیٰ سطح پر بات کی جائے کہ ذمہ داروں کے خلاف قرار واقعی کارروائی کی جائے ۔ ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ہلاک شدگان کے خاندانوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے ان کی مالی امداد کرے تاکہ ان زخموں کا کچھ تو مداوا ہو سکے ۔

جواب دیں

Back to top button