ColumnRoshan Lal

نئی نہروں کی خواہش،پرانی نہروں میں پانی نایاب

تحریر : روشن لعل

نئی نہروں کی تعمیر کی خواہش کوئی بری بات نہیں لیکن اگر پرانی نہروں میں پانی ان کی ڈیزائن کردہ گنجائش سے کم بہہ رہا ہو اور ہر نئے برس میں گزشتہ برس کی نسبت پانی کا بہائو کم کرنا مجبوری بن چکا ہو تو اس سوال کا جواب ملنا ضروری ہو جاتا ہے کہ پرانی نہروں میں پانی کے بہائو میں مسلسل کمی کے باوجود کس جواز کے تحت نئی نہروں کی تعمیر کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس سوال کا جواب دیئے بغیر پنجاب کے کچھ لوگ چولستان میں نئی نہروں کی تعمیر کی اس طرح وکالت کر رہے ہیں کہ یہ معاملہ سندھ اور پنجاب کے لوگوں کے درمیان اچھا خاصا تنازع بن گیا ہے۔ نہروں کی تعمیر ایک تکنیکی معاملہ ہے اور کسی بھی نہر کی تعمیر کے حق یا مخالفت میں صرف تکنیکی پہلوئوں کو مد نظر رکھ کر ہی بات ہونی چاہیے لیکن یہاں وہ لوگ جو تکنیکی پہلوئوں کی الف بے سے بھی واقف نہیں وہ ملک میں پہلے سے موجود صوبائی تعصب کو بنیاد بنا کر انتہائی سخت الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس طرح سے رائے کا اظہار کرنے کی بجائے ضرورت ا س امر کی ہے کہ نہروں کی تعمیر کے حساس بن چکے معاملے پر صرف وہی لوگ بات کریں جو دریائی و نہری پانی کے بہائو کی پیمائش کے تاریخی پس منظر سے آگاہی کی بنیاد پر یہ جانتے ہیں کہ ملک میں دستیاب پانی کی صورتحال کیا ہے ۔ جو ملک ہر نئے برس مزید پانی کی کمی کا شکار ہو جائے تو اس کے متعلق کیسے تصور کیا جاسکتا کہ اس میں کسی نئی نہر میں بہانے کے لیے فاضل پانی موجود ہے ۔ فرض کر لیا جائے کہ اگر ملک میں فاضل پانی موجود بھی ہے تو پھربھی تکنیکی طور پر اس بات کو جائز نہیں سمجھا جاسکتا کہ کسی علاقے کی زمینی، جغرافیائی اور موسمیاتی نوعیت کو نہروں کی تعمیر کے لیے موزوں ثابت کیے بغیر وہاں نئی نہروں پر کام شروع کر دیا جائے۔ پاکستان میں کسی نئی نہر کی تعمیر کو اس وقت تک جائز نہیں سمجھا جاسکتا ، جب تک ، غیر متنازعہ اور مستند ڈیٹا کی مدد سے یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ اس میں بہانے کے لیے فاضل پانی موجود ہے ۔ اس کے بعد دوسرا تکنیکی پہلو پانی کے تحفظ کا معاملہ ہے۔ عالمی سطح پر آبی ماہرین مسلسل تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اس دنیا کے وجود میں آنے کے بعد جتنا پانی یہاں موجود تھا اس کی مقدار میں نہ تو کوئی کمی آئی ہے اور نہ ہی اضافہ ہوا ہے۔ پانی کی مقدار ناقابل تبدیل ہونے کے باوجود دنیا میں لوگوں کو ہر نئے دور میں پانی اس طرح دستیاب نہیںہو پاتا جس طرح ماضی میں دستیاب ہوتا رہا ۔ ایسا ہونے کی وجہ دنیا کی آبادی میں ہونے والا مسلسل اضافہ ہے۔ اس بات کو پاکستان کے حوالے سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ یہاں سالانہ دستیاب پانی کی مقدار جو 1951ء میں 5000 کیوبک میٹر فی کس تھی وہ آبادی میں ہونے والے ہوشربا اضافے کے بعد 2006ء میں 1100 کیوبک میٹر فی کس رہ گئی ۔ واضح رہے کہ 2004 ء میں پاکستان کی آبادی میں اضافے کی شرح 1.09 فی صد تھی۔ اس شرح سے آبادی میں اضافے کو معیار مقرر کرتے ہوئے یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ 2010 ء میں پاکستان کی آبادی 173 ملین اور 2025 ء میں 221 ملین ہو جائے گی۔ آبادی میں ہونے والے متوقع اضافے سے یہ اخذ کیا گیا تھا کہ 2010 میں دستیاب پانی کی مقدار 1000 کیوبک میٹر فی کس ہو گی جو 2025 ء میں کم ہو کر 700 کیوبک میٹر فی کس رہ جائے گی ۔سال 2004 میں لگائے گئے اندازوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اب 2025 میں جب پاکستان کی آبادی 25 4 ملین ہو چکی ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں پانی کی فی کس دستیابی ماضی کی نسبت کس حد تک کم ہو گئی ہے۔ بین الاقوامی طور پر سالانہ 1500 کیوبک میٹر فی کس پانی کی دستیابی کو معیار مقرر کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ اگر کسی ملک میں اس مقدار کی حد تک عوام کی ضرورتوں کے لیے پانی موجود ہو گا تو ہی یہ تصور کیا جائے گا کہ وہاں پانی کی قلت نہیں ہے۔ اگر دستیاب پانی کی مقدار 1500 کیوبک میٹر سے کم ہو کر 1100 کیوبک میٹر کی حد تک آ جائے گی تو اسے پانی کی قلت سمجھا جائے گا۔ اس کے بعد اگر دستیاب پانی کی مقدار 1000 کیوبک میٹر فی کس یا اس سے بھی کم ہو جائے گی تو کہا جائے گا کہ یہ ملک پانی کی شدید ترین قلت کا شکار ہے۔ مذکورہ اعداد و شمار سے یہ بات بڑی حد تک واضح ہو جاتی ہے کہ مجموعی طور پر ہمارا ملک کس حد تک پانی کی قلت کا شکار ہے۔ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو مقامی اعدادوشمار اور بین الاقوامی معیار کی روشنی میں یہ بات ثابت شدہ ہے کہ یہاں نہ فاضل پانی دستیاب ہے اور نہ ہی دستیاب ہو سکتا ہے لیکن ان اعداد و شمار کو نظر انداز کرتے ہوئے کچھ لوگ اس بات پر بضد ہیں کہ یہاں اتنا فاضل پانی موجود ہے، جسے بہانے کے لیے نئی نہریں تعمیر کی جاسکتی ہیں۔ پانی کی کمی کا شکار پورا پاکستان ہے لیکن پانی کی کمی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کے خلاف آوازیں صرف سندھ سے ہی برآمد ہوتی ہیں ۔ اس معاملے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سندھ میں پانی کی کمی کے مسئلے پر جو حساسیت پائی جاتی ہے وہ اگر ملک کے دیگر حصوں اور خاص طور پر پنجاب میں دکھائی نہیں دیتی تو اس کی وجوہات کیا ہیں۔ رواں برس نہ صرف سندھ میں نئی نہروں کی تعمیر کی مخالفت میں جلسے اور جلوس منعقد کئے جارہے ہیں بلکہ سندھ کو اس کے طے شدہ حصے کے مطابق پانی نہ ملنے پر احتجاج بھی جاری ہے ۔ پانی کی کمی کے مسئلے پر سندھ میں جو کچھ اب ہورہا ہے وہ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران بھی دیکھنے میں آچکا ہے ۔آئندہ کسی کالم میں اس بات کی نشاندہی کی جائے گی کہ گزشتہ برسوں کے دوران سندھ کو اس کے طے شدہ حصے کے مطابق پانی نہ ملنے پر اسمبلیوں کے فلور پر کیا کچھ کہا جاتا رہا اور میڈیا کے سامنے کس قسم کے اعدادوشمار پیش کر کے اپنا موقف بیان کرنے کی کوشش کی گئی۔ دنیا میں پانی کی کمی ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے ۔ پانی کی کمی کے مسئلے کے حل لیے عالمی سطح پر پانی کا زیاں روکنے کو بہترین حکمت عملی قرار دیا گیا ہے۔ نئی نہروں کی تعمیر کے حوالے سے یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ جس علاقے میں نئی نہریں تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہو وہاں پانی کے ضیاع کے امکانات کس حد تک ہیں۔ اگر وہاں پانی کے ضیاع کے امکانات دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہیں تو پھر ان علاقوں میں نئی نہریں کیوں نہیں بنائی جارہی جہاں پانی کا بہتر تحفظ ممکن ہو سکتا ہے۔ نئی نہروں کی تعمیر کے حوالے سے اس طرح کے کچھ دیگر نکات بھی ہیں جن پر آئندہ کالموں میں تفصیل سے الگ الگ روشنی ڈالی جائے گی

جواب دیں

Back to top button