ایران میں 8 پاکستانیوں کا لرزہ خیز قتل

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کی سرحدیں ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں۔ یہ امر وطن عزیز کے لیے سنگین چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ بلوچستان عرصہ دراز سے ملک دشمنوں کی سازشوں کا محور رہا ہے، جہاں دشمن کے ایجنٹ محرومیوں کے نام پر شہریوں کو بغاوت اور غداری پر اُکسانے میں پیش پیش رہے ہیں، نفرت کی آگ اُن کے سینے میں دہکانے کی مذموم کوشش کرتے ہیں، بعضے اُن کے جھانسے میں آکر ملک کے خلاف ہتھیار اُٹھالیتے ہیں، دشمن کے اشاروں پر اپنے ہی ملک کے بے گناہ شہریوں سے حقِ زیست چھیننے لگتے ہیں، افسوس سالہا سال سے دشمن کے ایجنٹس وہاں دہشت گرد تنظیموں کو چلاتے رہے ہیں اور اب بھی بھارت کے فنڈز پر یہ تنظیمیں پل رہی ہیں۔ بھارت کا حاضر سروس ایجنٹ کلبھوشن یادو کا اعترافِ جرم ریکارڈ پر موجود ہے۔ بلوچستان میں موجود فتنۃ الخوارج دشمن کے ایماء پر بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلتے رہتے ہیں۔ شناختی کارڈز دیکھ کر بے گناہ شہریوں کو قتل کردیا جاتا ہے۔ دشمنوں کی کارروائیاں یہیں تک محدود نہیں۔ اپنے فوائد کے لیے کٹھ پتلیوں کے ذریعے معاشرے میں انتشار پھیلانا بھی ان کا وتیرہ ہی۔ پچھلے ہفتوں جعفر ایکسپریس پر حملہ اسی سلسلے کی مذموم کوشش تھی، جس میں سیکڑوں مسافروں کو یرغمال بنالیا گیا تھا، اس مذموم حملے کو ہماری بہادر افواج نے انتہائی جانفشانی کے ساتھ ناکام بناتے ہوئے تمام خوارج کو جہنم واصل کیا، سارے مسافروں کو بحفاظت بازیاب کرایا، قبل ازیں دہشت گرد کچھ مسافروں سے حقِ زیست چھین چکے تھے۔ بلوچستان میں پچھلے کچھ عرصے کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ عیدالفطر سے چار روز قبل بسوں سے اُتار کر 6 افراد کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔ ایسے واقعات ہر کچھ عرصے بعد رونما ہوتے ہیں۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو بہت سے پاکستانی خطے کے ملکوں ایران، بنگلادیش، سری لنکا سمیت دُنیا بھر کے ممالک میں باعزت روزگار کمارہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے اہل خانہ کی زندگی سنوارنے اور پیٹ پالنے کے لیے دیارِ غیر میں محنت کرتے ہیں۔ گزشتہ روز ایران کے صوبے سیستان بلوچستان میں ایسے ہی 8 پاکستانی محنت کشوں کے قتل کی لرزہ خیز واردات رونما ہوئی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران کے صوبے سیستان بلوچستان میں ایک دل دہلا دینے والے واقعے میں 8پاکستانی شہریوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ یہ واقعہ پاکستان، ایران سرحد کے قریب پیش آیا۔ مقتولین کا تعلق پنجاب کے ضلع بہاولپور سے تھا اور وہ مہرستان ضلع کے دور افتادہ گائوں حائز آباد میں ایک ورکشاپ میں کام کرتے تھے جہاں گاڑیوں کی پینٹنگ، پالش اور مرمت کی جاتی تھی۔ مقتولین میں دلشاد، اس کا بیٹا نعیم، جعفر، دانش، ناصر اور دیگر شامل ہیں۔ تمام افراد کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے تھے اور انہیں گولی مار کر قتل کیا گیا۔ مقامی ذرائع کے مطابق حملہ آور رات کے وقت ورکشاپ میں داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ کرکے تمام افراد کو موقع پر ہی قتل کر دیا۔ ایرانی سیکیورٹی فورسز نے لاشیں برآمد کر کے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ ابھی تک حملہ آوروں کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ تاحال کسی گروپ نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے، تاہم ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ بزدلانہ کارروائی ممکنہ طور پر پاکستان مخالف دہشتگرد تنظیم نے کی ہے۔ ایرانی سیکیورٹی فورسز نے قتل کی اس ہولناک واردات کی تحقیقات کا آغاز کر دیا، تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔ پاکستانی سفارت خانے کے نمائندے موقع پر پہنچ چکے ہیں، تاکہ لاشوں کی شناخت اور مزید معلومات حاصل کی جاسکیں۔ تہران میں پاکستانی سفارت خانے کے ترجمان نے بتایا کہ ہم ایرانی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ متاثرہ خاندانوں کی مدد اور انصاف کی فراہمی کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے گا۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس جنوری میں بھی ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان کے شہر سراوان میں نامعلوم مسلح افراد نے صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے 9 پاکستانی مزدوروں کو گولیاں مار کر جاں بحق کردیا تھا۔یہ انتہائی افسوس ناک اور بزدلانہ کارروائی ہے، جس پر ہر دردمند دل اداس اور آنکھ اشک بار ہے۔ اپنے پیاروں سے دُور محنت کرکے باعزت روزگار کمانے والوں کے لاشے گھر پہنچنے پر قیامتِ صغریٰ کا منظر ہوگا۔ یہ پاکستان مخالف دہشت گرد تنظیم کا کیا دھرا معلوم ہوتا ہے۔ ایران کو اس واقعے کی شفاف تحقیقات کرواکے ذمے داران کا تعین کرکے اُنہیں کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیے۔ اپنے ہاں بیرونی عناصر کی جانب سے کی گئی دہشت گردی پر اُس ذمے دار ملک سے سخت احتجاج کے ساتھ جواب طلبی کرنی چاہیے، جس کے ایماء پر ان دہشت گردوں نے بے گناہ پاکستانیوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ ایران کو پاکستانی محنت کشوں کی سخت سیکیورٹی کو یقینی بنانا چاہیے اور بیرونی عناصر کی دہشت گردی کا ہر صورت راستہ روکنا چاہیے۔ پاکستان کو بھی یہ معاملہ عالمی سطح پر اُٹھانا چاہیے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کا نواز شریف انٹرنیٹ سٹی بنانے کا بڑا اعلان
دُنیا کے اکثر ممالک تیزی سے ترقی کے زینے طے کر رہے ہیں۔ آئی ٹی کے شعبے میں ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوششوں میں ہے۔ یہ بلاشبہ مسابقت کا اچھا رجحان ہے۔ پاکستان کو ایسی قیادت میسر ہے، جو مسلسل بلندی کی جانب سفر کو تیزی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف بہت پہلے ہی ملک میں آئی ٹی کے شعبے میں انقلاب لانے کے عزم کا اظہار کرچکے ہیں۔ اسلام آباد میں سب سے بڑا آئی ٹی پارک بھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے جب سے عہدہ سنبھالا ہے، وہ صوبے اور اُس کے عوام کی بہتری کے لیے سنجیدگی کے ساتھ کوشاں رہی ہیں۔ مخالفین بھی اُن کے اقدامات کی داد دینے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے ایک سال کے مختصر عرصے میں پنجاب اور اس کے شہریوں کی بہتری کے لیے وہ کر دکھایا ہے، جو ماضی میں پوری پوری مدت گزار لینے کے باوجود نہ کیا جاسکا تھا۔ خصوصاً خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے اُن کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ گزشتہ روز اُن کی جانب سے نواز شریف انٹرنیٹ سٹی بنانے کا بڑا اعلان سامنے آیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور میں پہلا نواز شریف کے نام سے منسوب انٹرنیٹ سٹی بنانے کا اعلان کردیا۔ مریم نواز شریف نے اناطولیہ ڈپلومیسی فورم میں تعلیم کی انقلابی طاقت کے عنوان سے تاریخی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر بچہ اسکول میں داخل ہو اور اسکول میں پڑھتا رہے اور کامیابی حاصل کرے جب کہ انہوں نے فورم میں گرلز ایجوکیشن کے لیے عالمی معاہدہ تشکیل دینے اور باہمی اشتراک کار سے تعلیمی پالیسی، تدریسی حکمت عملی اور فروغ تعلیم کے لیے اقدامات کی تجاویز بھی دیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست نہیں بلکہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے باوقار سفارت کاری کے فروغ کی خاطر فرینڈز آف ایجوکیشن کا ویژن بھی سامنے رکھا، ترکیہ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کو پنجاب میں کیمپس قائم کرنے کی دعوت دی گئی۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ ترکیہ کے ادارے پنجاب میں نوجوانوں کے لیے اعلیٰ مراکز قائم کریں، دونوں ممالک کی باہمی شراکت داری اور ایکسچینج پروگرام سے روشن مستقبل کی بنیاد رکھیں گے، ایسا مستقبل چاہتے ہیں جس پر پاکستان ہی نہیں بلکہ ترکیہ کی آنے والی نسلیں بھی فخر کریں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا یہ اعلان ہر لحاظ سے سراہے جانے کے قابل ہے۔ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ اس سے ترقی و کامیابیوں کے دریچے وا ہوں گے۔ ہمارے نوجوان بہت باصلاحیت ہیں۔ وہ ستاروں پر کمند ڈالنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ انٹرنیٹ سٹی سے اُنہیں ایسا پلیٹ فارم میسر آئے گا کہ جس کے ذریعے ملکی ترقی کی رفتار کو دوگنی اور چوگنی کر سکیں گے۔ دوسرے صوبوں کے سربراہوں کو بھی ان کی تقلید کرتے ہوئے اقدامات کرنے چاہئیں۔