سر سید اردو انشا پردازی کا مجدد اور امام

تحریر : ایم فاروق قمر
گزشتہ ماہ 27مارچ کو ایک ایسے شخص کی برسی تھی، جو اردو ادب کے مجدد اور امام مانے جاتے ہیں۔ تاریخ میں انہیں سر سید کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظری، عملیت کے حامل ، مصلح اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔
سر سید احمد خان اپنی ذات میں ایک انجمن تو تھے ہی، علمی اعتبار سے بھی ان کی حیثیت ایک ادارہ سے کم نہ تھی۔ انشا و ادب، تحقیق و تنقید، فلسفہ و مذہب، تاریخ و عمرانیات، غرض جس میدان میں دیکھیے ان کی شخصیت ممتاز اور منفرد نظر آتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف خود شاندار علمی و ادبی کارنامے انجام دئیے بلکہ جو بھی ان کے قریب آ گیا اس کی شخصیت کو ایک جلا مل گئی اور کام کرنے کے لیے ایسے جذبات اس میں بیدار ہو گئے کہ پھر عمر بھر اسی میں منہمک اور سرگرداں رہا۔ ان کے فیض صحبت سے کتنے ہی سنگ ریزے افق علم پر آفتاب بن کر چمک اٹھے۔ ان میں ’’ آدم گری‘‘ کا حوصلہ بھی تھا اور ’’ شیشہ گری‘‘ کی صلاحیت بھی۔ سرسید احمد خان انیسویں صدی کے ہندوستان کی ایسی شخصیت تھے جو نہ صرف ایک بصیرت والے مصلح تھے، بلکہ سماجی ترقی کی بنیاد کے طور پر مسلمانوں کی تعلیم کے سب سے بڑے حامی بھی تھے۔ سرسید برِصغیر کی وہ شخصیت تھے جنھوں نے مسلمانوں کو یہ احساس دلایا کہ اگر آگے بڑھنا ہے، مقابلہ کرنا ہے، کچھ بن کر دکھانا ہے، تو تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جو سب کچھ دے سکتا ہے۔ شبلی نعمانی نے 1898ء میں دعویٰ کیا تھا: ’’ ملک میں آج بڑے بڑے انشا پرداز موجود ہیں جو اپنے اپنے مخصوص دائرہ مضمون کے حکمراں ہیں لیکن ان میں سے ایک شخص بھی نہیں جو سرسید کے بار احسان سے گردن اٹھا سکتا ہو‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی میں مسلمانوں کی علمی اور ادبی زندگی کا سب سے بڑا مرکز سرسید کا علی گڑھ تھا۔ سر سید کے ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ نے جدید اردو علم و ادب کی بنیادیں اسی رسالے نے استوار کیں اور اس قابل بنا دیا کہ آج ہر طرح کے علمی اور ادبی مطالبے ادا کرنے کی اس میں صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اس عہد کا شاید ہی کوئی قابلِ ذکر اہل قلم ایسا ہو گا جو اس مرکزی حلقے کے اثرات سے متاثر نہ ہوا ہو۔ جدید ہندوستان کے بہترین مسلمان مصنف اسی حلقہ کے زیراثر پیدا ہوئے اور یہیں نئے قسم کی اسلامی تحقیق و تصنیف کی راہیں پہلے پہلی کھولی گئیں۔ اردو کی نئی شاعری کی بنیاد اگرچہ لاہور میں پڑی تھی مگر اس کی نشوونما یہیں کی آب و ہوا میں ملی اور محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ جلسوں میں نئی قسم کی نظمیں پڑھی جانے لگیں۔ اردو خطابت کی پہلی درسگاہ یہی تھی۔ اس دور کے تمام مشہور مقرروں کو اسی حلقہ نے پیدا کیا تھا اور اگر پیدا نہیں کیا تھا تو ان کے لیے پلیٹ فارم یہیں مہیا کیا تھا۔ سرسید نے نہ صرف اردو کے نئے، سادہ، پُرزور اور پُراسلوب بیان کی بنیاد ڈالی بلکہ تلاش و تحقیق کی نئی راہیں بھی دکھائیں اور فکرونظر کی دنیا میں ایک اجالا کر دیا۔ معاصرین ہی نہیں بلکہ بعد کو آنے والی نسلوں نے بھی ان کی قائم کی ہوئی روایات سے زندگی کے ہر میدان میں روشنی اور رہبری حاصل کی۔ سرسید نے تقریباً ہر اہم موضوع پر قلم اٹھایا اور اس کا حق ادا کر دیا۔ شاید ہی کوئی ایسا فن ہو جس میں انہوں نے گرانقدر اضافہ نہ کیا ہو۔ بقول شبلی ’’ سرسید کی انشا پردازی کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہر قسم کے مختلف مضامین پر کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ لکھا ہے اور جس مضمون کو لکھا ہے اس درجہ پر پہنچا دیا ہے کہ اس سے بڑھ کر ناممکن ہے۔ فارسی اور اردو میں بڑے بڑے شعرا اور نثار گزرے ہیں لیکن ان میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو تمام قسم کے مضامین کا حق ادا کر سکتا ہے‘‘۔ سرسید کو شبلی نے بجا طور پر اردو انشا پردازی کا ’’ مجدد‘‘ اور امام کہا ہے۔ سرسید کا یہ کارنامہ اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گا کہ انہوں نے اردو زبان کو ایسی توانائی بخشی کہ وہ ملکی، سیاسی، اخلاقی، تاریخی اور فلسفیانہ غرض ہر قسم کے افکار اور مضامین کو صفائی، سادگی اور پُرتاثیر انداز میں ادا کرنے کے قابل بن گئی۔ انہوں نے اپنے مضامین کے ذریعہ مغرب کے افکار، نظریات اور شخصیات سے معاصرین کو روشناس کرایا۔ تہذیب الاخلاق نے نہ صرف اردو میں صحافت کی بنیاد ڈالی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آئندہ صدی میں جو سرگرمی اس میدان میں نظر آئی وہ تہذیب الاخلاق ہی کی رہینِ منت ہے۔ سر سید نے تعلیم کے ساتھ معاشرتی اصلاح کا بھی بیڑہ اٹھایا۔ جس کیلیے اُن کے قلم نے ’ تہذیب الاخلاق‘ جیسا اصلاحی رسالہ نکالا جس کا مقصد مسلمانوں کو جدید تہذیب اور سائنس کی برکات سے روشناس کرانا تھا تاکہ وہ ایک اصلاح و تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ قوم بن سکیں۔
سرسید کے اقدامات، خاص طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام نے، نوآبادیاتی ہندوستان کے تعلیمی منظرنامے میں ایک عظیم انقلاب برپا کیا۔ ساتھ ہی پسماندہ طبقات کو بااختیار بنایا اور فکری روشن خیالی کو فروغ دیا۔ سر سید ’’ ادب برائے ادب‘‘ کے قائل نہیں تھے۔ وہ شاعری کے ذریعہ قوم کے افکار و نظریات میں تبدیلی لانا چاہتے تھے۔ مولانا حالی نے نیچرل شاعری کے متعلق جو بحث کی ہے اور اردو شاعری کو جس طرح سوسائٹی کے تابع بتایا ہے، وہ حقیقت میں سرسید کے ہی خیالات کی صدائے بازگشت ہے۔