مقدر دوبارہ لکھوائیں

سیدہ عنبرین
کوئی بھی ذی ہوش یہ سوچ کر کھانا نہیں کھاتا کہ اس کا نظام ہضم خراب ہو جائے لیکن تمام تر احتیاط کے باوجود کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے، حالانکہ کھانا تازہ ہوتا ہے، اس کی تیاری میں تمام تر صفائی ستھرائی کا خیال بھی رکھا جاتا ہے، پھر بھی ہونی ہو کر رہتی ہے، آپ اپنا قصور تلاش کرتے رہتے ہیں، لیکن بہت کچھ سوچنے کے باوجود نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ بے قصور ہیں، حکومتوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے، وہ عام آدمی کو ریلیف پہنچانا چاہتی ہیں، لیکن وہ راہ بھٹک کر کہیں اور جا پہنچتا ہے، پہلے چینی اور پٹرول کے معاملے میں ایسا ہوا، اب بجلی کے حوالے سے بھی یہی کچھ ہونے والا ہے۔
تین ماہ قبل ذمہ دار حکام نے بتایا کہ چینی کے سٹاک ہماری ضرورت سے زیادہ ہیں، بس ڈالر کمانے کیلئے ایکسپورٹ کی اجازت دے دی گئی۔ چینی ایکسپورٹ ہو چکی تو اچانک معلوم ہوا ملک میں چینی کی کمی ہو گئی ہے۔ یہ تو حکومت کیلئے ناقابل برداشت تھا کہ عوام پھیکی چائے پیئیں، لسی اور شربت پھیکا پیئیں، جبکہ انہیں معلوم تھا کہ ماہ رمضان آنے والا ہے، اس بابرکت مہینے میں چینی کی کھپت بڑھ جاتی ہے، لہٰذا فوری طور پر چینی کے حوالے سے دو اہم فیصلے کر لئے گئے، تاکہ اس ماہ مقدس میں قوم کا منہ میٹھا ہی رہے، پہلا فیصلہ تھا کہ چینی امپورٹ کر لی جائے، دوسرا فیصلہ تھا اس میں عوام کو سہولت پہنچانے کیلئے 30روپے فی کلو سبسڈی دی جائے، دونوں فیصلے عوام کی محبت میں انہیں ریلیف پہنچانے کیلئے کئے گئے، لیکن فیصلوں کے فائدے راستہ بھٹک گئے۔ چینی مافیا ایکسپورٹ کر کے خوب مال بنا چکا تھا، ری بیٹ لے چکا تھا، درآمد کا آرڈر ملا تو اس کی ایک مرتبہ پھر چاندی ہو گئی، اس کے ساتھ ہی حکومت کے خزانے میں اربوں روپیہ فالتو پڑا تھا اور خزانے پر بوجھ تھا، سبسڈی کے بہانے وہ بوجھ کچھ کم ہو گیا، اب اگر اچانک معلوم ہوا کہ روپیہ کم رہ گیا ہے تو اس حوالے سے پریشانی کی کوئی بات نہیں، ہم نے بہترین اور جدید ترین پرنٹنگ پریس کس لئے لگا رکھا ہے، یقیناً عوام کی فلاح و بہبود کیلئے، بس پھر پریشانی کو سر سے اتار پھینکیں، جتنی ضرورت ہو گی نئی نوٹ چھاپ لیں گے، زرمبادلہ میں کمی ہوتی نظر آئی تو ایک نیا قرض لے لیں گے، خواہ اس کی شرائط اور شرح سود کتنی ہی سخت کیوں نہ ہو۔
دنیا بھر میں پٹرول کی قیمتیں کم ہو چکی ہیں، لہٰذا اس حوالے سے بھی ریلیف دینے کا فیصلہ ہوا۔ فیصلے کا اعلان ہونا باقی تھا کہ کوئی صاحب تدبیر آئے اور مشورہ دے کہ پٹرول پر ریلیف دینے کی بجائے بجلی پر ریلیف دے دیں، پٹرول پر ریلیف تو انہیں ملے گا جو گاڑی یا موٹر سائیکل استعمال کرتے ہیں یا جن کے گھروں میں پٹرول، ڈیزل سے چلنے والے جنریٹر ہوتے ہیں، بجلی میں ریلیف کا فائدہ ہر شخص کو ہو گا، جس کے گھر میں سو بلب جلتے ہیں یا ایک بلب جلتا ہے اس کے گھر میں ایک پنکھا ہے یا درجن بھر ایئر کنڈیشنر چلتے ہیں، یہ مشورہ یقیناً کسی ایسے شخص کا تھا جو خزانے اور اقتصادیات کا ماہر تھا۔ مشورہ پسند آیا ’’ موگابے خوش ہوا‘‘ اور پٹرول پر ریلیف دینے کا اعلان موخر کر کے بتایا گیا کہ چونکہ بجلی پر ریلیف دینے والے ہیں، لہٰذا پٹرول ریلیف روک لیا گیا ہے، یہ نہیں ہو سکتا چپڑی ہوئی ہوں اور دو دو بھی ہوں۔ عین ممکن ہے مشورہ دینے والوں نے سوچا ہو بیک وقت دو ریلیف قوم برداشت نہ کر پائے گی اور اس کے نظام ہضم پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ یاد رہے کہ اعداد و شمار کے مطابق اڑھائی سو روپے فی لٹر بکنے والے پٹرول پر مختلف ٹیکسز اور لیوی کے نام پر قریباً 125روپے فی لٹر چارج کئے جاتے ہیں، گویا سرکار چاہے تو پٹرول سوا سو روپے فی لٹر بھی قیمت رکھ سکتی ہے، لیکن سرکار آخر سرکار پاکستان ہے، اب آپ اسے اتنا بھی ’’ چ‘‘ نہ سمجھیں کہ 15روپے فی لٹر ریلیف دینے کا اعلان کر دیتی۔
بجلی ریلیف کی کہانی سب سے زیادہ دلچسپ ہے، بجلی کے کمر توڑ نرخوں پر ملک کے طول و عرض میں ہاہا کار مچی تو آواز راولپنڈی تک پہنچی، ملک بھر کی تاجر برادری نے لاہور اور کراچی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر صاحب سے ملاقاتیں کیں اور انہیں بتایا کہ آئی پی پیز کیپسٹی پے منٹ نے ملک کی اقتصادی حالت کا بھرکس نکال دیا ہے، ایشیا میں مہنگی ترین بجلی کے سبب مصنوعات کی قیمتیں اتنی زیادہ ہو جاتی ہیں کہ عالمی منڈی میں ویت نام، بنگلہ دیش، بھارت اور چین و کوریا کا مقابلہ نہیں کر سکتیں، لہٰذا اس عذاب سے نجات دلائی جائے، نوٹس لیا گیا، لیکن جنہوں نے دل جمعی سے کام کرنا تھا وہ کیوں اپنے پائوں پر کلہاڑی مارتے، انہوں نے تین برس
اسی طرح گزار دیئے، پریشر بڑھا تو پھر کان پر جوں رینگی، مگر جوں کی رفتار سے کام شروع کیا گیا۔ تین برس میں اب تک کل پانچ یا چھ روپے فی یونٹ کا ریلیف دیا گیا ہے، جو نہ ہونے کے برابر ہے، جو 35روپے سے شروع ہونے والا 50تک جا پہنچنے والا پی ٹی وی ٹیکس دے رہے ہیں وہ یہ بھی دے سکتے تھے۔ فیصلہ یہ بھی ہوا تھا کہ آڈٹ کرایا جائے گا کہ آئی پی پیز کا پلانٹ لگانے پر خرچ کیا ہوا، اب تک وہ کتنا منافع کما چکے ہیں اور ان کے فیول کے اخراجات کیا ہیں، بعض کمپنیاں حکومت کی طرف سے تاخیر سے ادائیگیوں کے معاملے پر عدالت چلی گئیں، اب جب انہوں نے دیکھا کہ کئی پول کھل سکتے ہیں تو وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات پر رضا مند ہوئے ہیں۔ راہ راست پر دھیرے دھیرے آنے والی کمپنیوں کی تعداد سات ہے۔ ان کی طرف سے تازہ تین فرمائشیں آئی ہیں کہ ہمارے اب تک کے کمائے گئے منافع کے حوالے سے جاری تحقیقات بند کر دیں، اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے تاخیری ادائیگیوں کے حوالے سے سود کی رقم کے 11ارب چھوڑنے کی پیشکش بھی کی ہے اور درخواست کی ہے کہ ان کے خلاف تمام مقدمات بھی ختم کئے جائیں۔
سی پی اے حکام کے مطابق اب تک پاور پلانٹس کی مدت میں 950ارب روپے کے مالی فوائد حاصل کر چکے ہیں۔ یہ کہانی صرف ان سابقہ آئی پی پیز کی ہے، جو اب مذاکرات میں سنجیدہ ہوئے ہیں، اس سے قبل کوئی ہاتھ پکڑانے کیلئے تیار نہ تھا، لیکن اب بھی نوے سے پچانوے ایسے آئی پی پیز ہیں جو پرانی ڈگر پر چل رہے ہیں، ان کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔
ان تمام تر مذاکرات کے بعد اور عوام کو کوئی ریلیف دینے کی بھرپور خواہش کے باوجود ’’ متوقع ریلیف‘‘ کے بارے میں جو خبر آئی ہے اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنی ہے وہ یہ ہے کہ ان کامیاب مذاکرات اور امور طے ہو جانے کے بعد عوام کو 50 پیسے فی یونٹ ریلیف ملنے کا امکان ہے۔ 15روپے فی لٹر کا ریلیف اب 50پیسے فی یونٹ آن پہنچا ہے تو اس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں، یہ ریلیف آپ کے مقدر میں نہیں، کسی اور کے مقدر میں ہے، آپ اپنا مقدر دوبارہ لکھوا کر لائیں۔