گورنر ہائوس میں افطار۔ روایت اور تجدید کا امتزاج

ڈاکٹر جمشید نظر
حال ہی میں برطانیہ میں دو ایسے تاریخی ایونٹس ہوئے جو مسلم امہ کے لئے بڑی خوشخبری ثابت ہوئے ہیں، انہی تاریخی ایونٹس پر میں ایک خصوصی کالم لکھنے میں مصروف تھا کہ اچانک میرے موبائل پر گھنٹی بجی میں نے فون اٹھا کر دیکھا تو گورنر ہائوس لاہور سے کال آئی ہوئی تھی۔ اس کال کو اٹینڈ کرنے کے بعد کیا باتیں ہوئیں، وہ میں آپ کو کالم کے آخر میں بتاتا ہوں، پہلے قارئین کو یہ بتا دوں کہ برطانیہ میں کون سے ایسے دو اہم ایونٹس ہوئے تھے جن کی وجہ سے میں ان پر کالم لکھنے پر مجبور ہوگیا۔
آپ میں سے بہت سے قارئین یہ بات جانتے ہوں گے کہ برطانیہ کا سب سے بڑا شاہی قلعہ ونڈسر کیسل (Windsor Castle) ہے ج وماضی سے لے کر اب تک چالیس بادشاہوں کی رہائش گاہ بن چکا ہے ۔قلعہ ونڈسر کو ملکہ الزبتھ کی جنت اور ملکہ الزبتھ دوئم کا سب سے پسندیدہ محل قرار دیا جاتا ہے۔ انگریزی ادب کے مشہور ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر نے اپنے ایک ڈرامےMerry Wives of Windsorمیں بھی قلعہ ونڈسر کے ہوم پارک کا ذکر کیا ہے۔قلعہ کی ہزار سالہ تاریخ میں یہاں پہلے کبھی بھی مسلمانوں کے لئے افطارکا اہتمام نہیں ہوالیکن قارئین کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اس سال رمضان المبارک کے آغاز میں ایک ایسی تاریخ رقم ہوئی جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ برطانوی شاہی قلعہ میں نہ صرف پہلی مرتبہ مسلمانوں کے لیے افطار کا اہتمام کیا گیا بلکہ شاہی قلعہ کی فضائوں میں پہلی بار اذان مغرب کی مسحور کن صدا بھی گونجی جسے قلعہ میں کام کرنے والے پانچ سو سے زائدشاہی سٹاف نے بھی احترام سے سنا ۔اس تاریخی افطار میں تقریباً ساڑھے تین سو مسلمان روزہ داروں نے شرکت کی جنھیں ریاستی مہمانوں کی طرح دستر خوان پر انواع واقسام کے کھانے اور مشروبات پیش کئے گئے۔اس سے قبل ایک دوسرے ایونٹ میں دنیا کو بڑا اہم منظر دیکھنے کو ملا،برطانیہ میں دارالعوام کے زیراہتمام افطار ڈنر میں برطانوی وزیراعظم سر کئیراسٹارمرنے خصوصی شرکت کی اورمسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کیا۔برطانیہ کے ان دو تاریخی ایونٹس پر نہ صرف برطانوی مسلم کمیونٹی نے مسرت کا اظہار کیا بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور میری قلم نے مجھے مجبور کیا کہ میںاپنے کالم کے ذریعے برطانیہ کے بادشاہ اور وزیراعظم کو مذہبی ہم آہنگی کے فروغ پر خراج تحسین پیش کروں۔
میں نے کالم کے آغاز میں ذکر کیا تھا کہ میرے فون کی گھنٹی بجی دیکھا تو گورنر ہائوس لاہور سے کال تھی میں چونکہ برطانیہ کے تاریخی ونڈسر قلعہ پر کالم لکھ رہا تھا ایسے میں گورنر ہائوس سے آنے والی کال ایک لمحہ کے لئے مجھے ایسے لگی جیسے برطانیہ کے ونڈسر قلعہ سے کال آئی ہو۔ میرا یہ خیال کسی حد تک درست بھی تھا کیونکہ ونڈسر قلعہ کی طرح گورنر ہائوس لاہور بھی ایک قدیم تاریخی عمارت ہے جس کی تاریخ کم و بیش 424سال قدیم ہے اور اکبر بادشاہ سے جا ملتی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل یہاں شاہی مہمان اور وائسرائے بھی قیام کیا کرتے تھے جبکہ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے بھی بطورگورنر جنرل یہاںقیام کیا۔میں نے گورنر ہائوس سے آنے والی کال اٹینڈ کی ، دعا سلام کے بعد مجھے بتایا کہ گورنرپنجاب سردار سلیم حیدر خان صاحب نے سینئر کالم نگاروں ،صحافیوں اور اینکر پرسنز کے اعزاز میں ایک پرتکلف افطار ڈنر کا اہتمام کیا ہے جس میں شرکت کے لئے ڈاکٹرجمشیدنظر صاحب آپ کو خصوصی دعوت دی گئی ہے، میں نے دعوت قبول کرلی اور عزت افزائی کا شکریہ ادا کیا ۔افطار ڈنر میں سینئر صحافی سہیل وڑائچ اور افتخاراحمد سمیت دیگر اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔گورنر ہائوس کی دوسری گراونڈ میں تھیلیسیمیا کے شکار بچو ںکو افطار ڈنر پر مدعو کیاگیا تھا گورنر صاحب بچوں میں گھل مل گئے اور ان کی خیریت دریافت کی۔ سینئرصحافیوں اور تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کو دیئے جانے والے افطار ڈنر میں ذرہ فرق نہیں رکھا گیا تھا۔ گورنر صاحب سے ملاقات کے دوران میں نے انھیں ایسا ہی پایا جیسا ان کے بارے میں سن رکھا تھا ،ان کے اندر عاجزی اور ملنساری بھری ہوئی تھی۔
اس سے پہلے کہ میں ان کے پاس ملنے جاتا وہ میرے پاس آگئے ، گرمجوشی سے ہاتھ ملایا اور یہ جان کر خوشی کا اظہار کیا کہ میں ایوارڈ یافتہ رائٹر ہوں اور نامور شاعر ادیب و صحافی غلام محی الدین نظر مرحوم کا بیٹا ہوں۔ بعد میں جب مجھے کسی صحافی نے بتایا کہ افطار ڈنر کا اہتمام گورنر صاحب نے اپنی جیب سے کیا تھا تو میرے دل میں ان کی عزت مزید بڑھ گئی۔ گورنر صاحب کی افطار ڈنر پارٹی واقعی سماجی ہم آہنگی کا مظہر تھی۔