حماس حمایت اور علاقائی مفادات میں ایران کا اسٹریٹجک کردار
تحریر : قادر خان یوسف زئی
جب اسرائیل اور حماس کے درمیان 7اکتوبر 2023ء کو جنگ کا آغاز ہوا، تو نہ صرف فلسطینی سرزمین، بلکہ پورا مشرقِ وسطیٰ اور عالمی سطح پر اس کے اثرات محسوس ہونے لگے۔ اسرائیل کی فوجی طاقت کے مقابلے میں حماس نے جب اپنے آپ کو بچانے کی حکمت عملی اختیار کی، تو یہ محض ایک فریب یا عارضی جیت نہ تھی، بلکہ یہ ثابت کیا کہ غیر روایتی جنگوں میں بقا اور کامیابی ممکن ہے۔ 540دن کے بعد بھی، حماس نے اس جنگ میں اپنی موجودگی کو کمزور نہیں ہونے دیا، بلکہ اپنی طریقہ کار اور حکمت عملی سے اسرائیل کے سامنے ایک نئی چیلنج پیش کی۔ اس جنگ میں جہاں حماس کے جرات مندانہ اقدامات نے اسے زندہ رکھا، وہیں ایران کا کردار بھی نہایت اہم ہے۔اسرائیل کی فوجی طاقت کی موجودگی میں حماس کی بقا ایک ایسا سوال تھا جس کا جواب ہر تجزیہ کار کے لیے پیچیدہ تھا۔ اسرائیل کی عسکری قوت سے نمٹنے کے لیے حماس کو کئی حکمت عملیوں کی جانب رخ کرنا پڑا، جس میں سب سے اہم سرنگوں کا استعمال تھا۔ ابتدا میں جب حماس نے اسرائیل کے خلاف ایک بڑی عسکری کارروائی کی، تو یہ حملہ کسی غیر متوقع موقع پر نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ایک بہت بڑی حکمت عملی چھپی ہوئی تھی۔ امریکی اور اسرائیلی عہدیداروں کے مطابق، حماس کے مزاحمت کاروںکی تعداد 25000سے کم ہو کر 9000سے 12000کے درمیان رہ گئی، لیکن بادی النظر کمی کے باوجود حماس نے اپنی بقا کی حکمت عملی کو نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ اسرائیل کے طاقتور فوجی اقدامات کا مقابلہ بھی کیا۔حماس کی اس حکمت عملی کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے گوریلا جنگ کے طریقہ کار کو دیکھنا ہوگا۔ اسرائیل کی فوجی کارروائیوں میں حماس کا جواب یہی رہا۔ انہوں نے اسرائیلی فوج کے ساتھ مستقل مصروفیت سے گریز کرتے ہوئے چھوٹے یونٹوں کی شکل میں گھاتیں اور حملے شروع کیے۔ یہ حکمت عملی ان کے محدود وسائل کے باوجود اسرائیل کی فوج کو مسلسل چیلنج کرتی رہی۔
حماس کے اس گوریلا جنگ کے طریقہ کار میں ایک اہم بات یہ تھی کہ انہوں نے اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کا متبادل طریقہ اختیار کیا۔ وہ اپنے چھوٹے یونٹوں کو بکھرا کر اسرائیل کے فوجیوں کو ٹارگٹ کرتے اور پھر فوراً واپس سرنگوں میں چھپ جاتے۔ اسرائیل کی بڑی فوج کے لیے اس قسم کی کارروائیاں نمٹنا مشکل ہو گئیں۔ یہ حکمت عملی اس امر کا ثبوت تھی کہ حماس کی بقا کسی ایک جنگی میدان تک محدود نہیں تھی بلکہ انہوں نے جنگ کے روایتی طریقوں کو ترک کرتے ہوئے اپنی بقا کو زیادہ سے زیادہ مثر طریقے سے یقینی بنایا۔
جب بات ایران کی آتی ہے تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایران کی حمایت صرف حماس تک محدود نہیں تھی۔ ایران کا کردار اس جنگ میں اس کے وسیع تر جغرافیائی مقاصد سے جڑا ہوا ہے۔ ایران نے اس جنگ میں حماس کے حملے کی کھلے عام تعریف کی، جس میں سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے مشیر رحیم صفوی نے فلسطینی جنگجوئوں کو مبارکباد پیش کی اور یہ کہا کہ ایران فلسطین اور یروشلم کی آزادی تک ان کی حمایت کرتا رہے گا۔ ایران کا یہ موقف اس کی ’’ مزاحمت کے محور‘‘ کی پالیسی کا حصہ ہے۔ ایران کا مقصد اسرائیل کو اپنے خطے میں تنہا کرنا اور اس کی فوجی طاقت کو کمزور کرنا ہے۔ حماس کے حملے نے اس کے لیے کئی اسٹریٹجک فوائد پیدا کیے۔ ایران نے اپنے علاقائی پراکسی نیٹ ورک میں واضح درجہ بندی رکھی ہے۔ اسرائیل کے لیے یہ جنگ ایک طویل المدتی حکمت عملی کا حصہ بن چکی ہے۔ اسرائیل کی فوجی ترجمان لیفٹیننٹ کرنل ( ریٹائرڈ) پیٹر لرنر نے اعتراف کیا کہ ’’ حماس کو تباہ کرنے سے اب بھی کچھ راستہ ہے‘‘ لیکن انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اسرائیل کا مقصد ’’ حماس کو گورننگ اتھارٹی کے طور پر تباہ کرنا ہے‘‘۔ اسرائیل کا یہ نیا موقف اس کی روایتی فوجی حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے جس میں سویلین علاقوں میں کارروائیاں کرنا اور حماس کے انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانا شامل ہے۔ اسرائیل کی اس حکمت عملی کو کامیاب بنانے کے لیے ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اسرائیل نے اب تک حماس کے کمانڈروں کو ہٹانے کے بجائے، اس کی گورننگ اتھارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسرائیل کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ حماس کے گوریلا جنگی طریقہ کار کا مقابلہ کرے۔ حماس کی سرنگوں کا نیٹ ورک اور اس کی زیر زمین پناہ گاہیں اسرائیل کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہیں۔
ایران کا جوہری پروگرام بھی اس جنگ کے دوران ایک اہم عنصر رہا ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام نے نہ صرف اسرائیل بلکہ عالمی طاقتوں کے لیے ایک نیا خطرہ پیدا کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام 2015ء کے بعد ایک نئی سمت اختیار کر چکا ہے اور وہ اس امر کے قریب پہنچ چکا ہے کہ وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کے لیے ضروری یورینیم کی تیاری مکمل کر لے گا۔ یہ بات عالمی سطح پر ایران کے جوہری عزائم کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔ ایران کی جوہری صلاحیت میں اضافے سے خطے کی طاقت کا توازن بدل سکتا ہے، خاص طور پر جب بات اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی ہو۔ ایران کی جوہری صلاحیت کو بڑھانے کی وجہ سے اس کے اسٹریٹجک مفادات بھی پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے امریکہ اور اسرائیل کی پالیسیاں ایک طرف جہاں ایران کے لیے مزید دبا بڑھاتی ہیں، وہیں دوسری طرف یہ ایران کو مزید مشتعل بھی کر سکتی ہیں۔ اس کا اثر پورے خطے میں محسوس ہو سکتا ہے۔
امریکہ نے 2025ء میں ٹرمپ کی قیادت میں ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دبا کی پالیسی کو دوبارہ فعال کیا ہے۔ ٹرمپ نے 4فروری 2025کو ایران کے خلاف قومی سلامتی کی پالیسی میں تبدیلی کی اور اس میں ایران کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو روکنے، اس کے روایتی ہتھیاروں کی نشوونما کو روکنے اور اس کی معیشت کو پابندیوں کے ذریعے کمزور کرنے کی کوشش کی۔ اس پالیسی کا مقصد ایران کے تیل کی برآمدات کو کم کرنا اور اس کے بین الاقوامی تعلقات کو متاثر کرنا تھا۔ ٹرمپ کی یہ پالیسی ایران کے لیے ایک چیلنج ہے کیونکہ ایران نے عالمی سطح پر اپنے معاشی تعلقات کو مستحکم کیا تھا اور پابندیوں کے باوجود اس نے اپنے دفاعی نیٹ ورک کو مستحکم کیا ہے۔ یہ جنگ نہ صرف فلسطینی عوام کے لیے ایک انسانی بحران کا سبب بنی ہے بلکہ پورے خطے کی جغرافیائی سیاست میں بھی پیچیدگیاں پیدا کر رہی ہے۔ اسرائیل، ایران، حماس اور امریکہ جیسے عالمی کھلاڑیوں کی پالیسیوں کے اثرات خطے کے لیے مزید غیر یقینی کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔