جبلی وحشی پن میں اضافہ

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
پچیس دسمبر 2012ڈیفنس کا واقعہ جس میں سندھ کے طاقت ور لینڈ لارڈ کے بیٹے شاہ رخ جتوئی کے ہاتھوں نوجوان شاہ زیب مارا گیا، یہ کیس میڈیا کی سکرین پر زیر بحث رہا، اس کیس کو لے کر ادارے بڑے متحرک ہوئے، پھر 2022میں شاہ رخ باعزت بری ہوگیا۔ سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے لانڈھی جیل کا دورہ کیا تو وہاں شاہ رخ جتوئی کو ملنے والی سہولیات پر کئی سوالات اٹھے، جیل نظام پر کئی سوالات کھڑے ہوئے ۔ آخرکار 2022میں اس کو باعزت رہائی نصیب ہوئی۔ 2017میں پشتون خواہ ملی پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی عبدالمجید اچکزئی کی گاڑی نے کوئٹہ کے جی پی او چوک پر ڈیوٹی پر مامور سارجنٹ عطا اللہ کو ٹکر مار کا ہلاک کر دیا، بعد ازاں 2020میں ثبوت کی عدم دستیابی پر ان کو رہا کر دیا گیا حالانکہ اس واقعہ کی میڈیا پر پوری تفصیل موجود ہے۔ گزشتہ سال 2024میں نتاشا نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے کراچی کے علاقہ کارساز کے مقام پر دو راہگیروں کو کچل دیا ، کئی سماجی رہنما، سول سوسائٹی اور سیاسی رہنمائوں نے بڑے بڑے اعلانات کئے۔ چند ہفتوں کے بعد پولیس اور وکیلوں کے مشورے پر نتاشا کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ کر دنیا کی عدالت کے سامنے سب راضی ہوگئے۔ سنہ 2021میں ناظم جوکھیو ماحولیات پرست سماجی کارکن کی لاش کے بعد خاندان نے اللہ کے نام پر معاف کر دیا۔ منشیات کے کاروبار سے منسلک شخص جس کو چند دن پہلے پولیس نے گرفتار کیا ہے اس کے صاحبزادے ارمغان اور اس کے دوست شیراز نے پولیس کے مطابق اپنے ہی ایک شناسا مصطفیٰ عامر کو اپنے گھر بلا کے شدید زخمی کیا اور پھر مصطفی عامر کی ہی گاڑی کی ڈگی میں اسے ٹھونس کر کراچی سے 24کلومیٹر دور بلوچستان کے علاقہ حب چوکی میں لے جا کر ارمغان نے سکہ اچھالا کہ ہیڈ آیا تو نہیں ماروں گا، ٹیل آیا تو مار ڈالوں گا۔ اس بے دردی کے ساتھ قتل پر سول سوسائٹی چیخ اٹھی۔ صحافتی تنظیموں کے مطابق، گزشتہ پانچ برسوں میں سندھ میں صحافیوں پر 184حملے رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں 12صحافی قتل کئے جاچکے ہیں۔ ان واقعات میں نصر اللہ گڈانی، جان محمد مہر، عزیز میمن، اجے لال وانی، غلام اصغر خوند، ذوالفقار مندرانی، اشتیاق سوڈھیرو اور دیگر شامل ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک رکا نہیں، طاقتوروں کے جبلی وحشی پن میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ جیسے جیسے لوگ مہذب، تیز رفتاری اور سوشل میڈیا کے زعم میں مبتلا ہو رہے ہیں ویسے ویسے جبلی وحشی پن میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ عسکری ادارے کے سربراہ کی طرف سے ہارڈ سٹیٹ کا اعلان دور اندیشی ہے۔ اس وقت ملک کو ہارڈ سٹیٹ کی کیوں ضرورت پیش آئی ہے؟ سوفٹ سٹیٹ پر ملکی و جانی نقصانات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، اعلیٰ اداروں کی طرف سے لیا گیا فیصلہ وقت کی ضرورت ہے، سیاسی قیادت اس بات پر متفق ہے۔ موجودہ حالات میں طاقتور مافیاز اور ایسے افراد ملکی ساکھ سے زیادہ خود کو طاقتور سمجھ بیٹھے ہیں، ریاست کے سوفٹ امیج کو اس کی کمزوری تصور کر رہے ہیں، آئین کو کمزور اور حکومتی اداروں کو اپنے منشا سے چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ علاقوں میں مافیاز بیٹھے اپنا قانون چلانے لگے ہیں۔ عام انسان کو آئین و قانون کا پاسدار ہونا چاہئے، یہ مافیا عام شہریوں کو اپنے حکم کا غلام بنانے کیلئے ظلم کر رہے ہیں۔ جعفر ایکسپریس کا واقعہ تاریخ میں یاد رہے گا کہ پاکستان میں دہشت گردوں نے نہتے لوگوں پر فائرنگ کی ہے، آج ریاست عوامی اعتماد کی بحالی کیلئے اپنی پوری طاقت کے ساتھ کھڑی ہے۔