Column

فٹ پاتھ اور بازار: دنیا کا تجربہ اور کراچی کیلئے حل

تحریر : محمد عامر رفیح

دنیا کے ہر بڑے شہر میں فٹ پاتھ پر کاروبار، عارضی اسٹالز اور ریڑھیاں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک نے ان سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے قوانین، لائسنسنگ، اور مخصوص زونز متعارف کرائے ہیں، جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ زیادہ تر غیر منظم ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں اینٹی اینکروچمنٹ مہمات اور بے یقینی کی صورت حال جنم لیتی ہے۔
دنیا میں دکان کے آگے جگہ استعمال کرنے کے طریقے:
1۔ قانونی طریقے: لائسنس اور پرمٹ: لندن، نیویارک اور ٹورنٹو میں دکانداروں کو میونسپلٹی سے اجازت لینا ضروری ہوتی ہے۔ فیس کی ادائیگی کے بعد مخصوص حدود میں سامان رکھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ کرایہ داری ماڈل: دبئی، استنبول اور کوالالمپور میں بعض جگہوں پر فٹ پاتھ یا دکان کے آگے جگہ کرائے پر دی جاتی ہے، جہاں دکاندار قانونی طور پر اپنا کاروبار چلا سکتے ہیں۔ مخصوص بازار: ترکی، بھارت، اور ملائیشیا میں فٹ پاتھ فروشوں کے لیے الگ زون مختص کیے گئے ہیں، جہاں انہیں کاروبار کرنے کی سہولت دی جاتی ہے۔
2۔ غیر قانونی طریقے: کئی ترقی پذیر ممالک میں بغیر اجازت دکان کے باہر اضافی جگہ استعمال کرنا عام ہے، لیکن اینٹی اینکروچمنٹ مہمات کے تحت وقتاً فوقتاً انہیں ہٹا دیا جاتا ہے، جیسے کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشنز ہوتے رہتے ہیں۔ اکثر دکاندار تجاوزات کو برقرار رکھنے کے لیے کرپٹ بلدیاتی اہلکاروں کو رشوت دیتے ہیں، جس سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
کیا فٹ پاتھ پر کاروبار صرف کراچی میں ہوتا ہے؟ نہیں، دنیا کے ہر شہر میں فٹ پاتھ پر کاروبار کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے: ممبئی: ’’ہاکرز زون‘‘ قائم ہیں، جہاں ریڑھی بانوں کو قانونی طور پر کاروبار کی اجازت دی گئی ہے۔لندن:’’ ٹریڈرز لائسنس‘‘ کے تحت مارکیٹ اسٹریٹس پر محدود وقت کے لیے اسٹالز لگانے کی اجازت ہوتی ہے۔ استنبول: مخصوص بازاروں میں محدود دکانداری کی اجازت ہوتی ہے، مگر غیر قانونی تجاوزات پر جرمانے عائد کیے جاتے ہیں۔ کوالالمپور: حکومت مخصوص علاقوں میں نائٹ مارکیٹ اور ویک اینڈ بازار چلاتی ہے، جہاں دکانداروں کو رجسٹریشن کرنی پڑتی ہے۔
کراچی میں رمضان کے دوران اینٹی اینکروچمنٹ آپریشنز: کراچی میں رمضان کے دوران فٹ پاتھ اور سڑکوں پر کاروبار عروج پر پہنچ جاتا ہے، جس کے بعد تجاوزات ہٹانے کے لیے مہمیں چلائی جاتی ہیں۔ مگر اس کے نتائج دیرپا نہیں ہوتے کیونکہ تجاوزات ہٹانے کے باوجود چند دن بعد دوبارہ قائم ہو جاتی ہیں۔ صدر، بولٹن مارکیٹ، اور حیدری جیسے بڑے کاروباری علاقوں میں غیر قانونی اسٹالز توڑ دیے جاتے ہیں، مگر مکمل کنٹرول مشکل ہوتا ہے۔ بعض دکانداروں کو متبادل جگہوں پر منتقل کیا جاتا ہے، مگر ناقص حکمت عملی اور کرپشن کی وجہ سے تجاوزات کا مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے۔یہ ’’ سسٹم”‘‘کس کے فائدے میں ہے؟، اگر کاروباری سرگرمیاں منظم ہوں تو اصل بینیفشری عوام اور حکومت ہوتے ہیں، کیونکہ روزگار اور ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن غیر منظم کاروبار میں فائدہ زیادہ تر کرپٹ اہلکاروں، غیر قانونی دکانداروں، اور ان لوگوں کو ہوتا ہے جو رشوت دے کر کاروبار چلاتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں فٹ پاتھ کاروبار کا نظم و نسق : ترکی ( استنبول) فٹ پاتھ فروشوں کو مخصوص لائسنس جاری کیے جاتے ہیں۔
غیر قانونی تجاوزات کے خلاف سخت جرمانے عائد کیے جاتے ہیں۔ برطانیہ ( لندن) فٹ پاتھ پر کاروبار کرنے کے لیے ’’ ٹریڈ لائسنس‘‘ لینا ضروری ہے۔ قانونی دکانداروں کو محدود سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ ملائیشیا ( کوالالمپور) حکومت مخصوص نائٹ مارکیٹ اور ویک اینڈ بازاروں کو قانونی طور پر چلاتی ہے۔ دکانداروں کے لیے رجسٹریشن لازمی ہے۔ بھارت ( ممبئی) ’’ اسٹریٹ وینڈرز ایکٹ‘‘ کے تحت مخصوص زون بنائے گئے ہیں، جہاں فٹ پاتھ پر کاروبار قانونی طور پر ہو سکتا ہے۔ پاکستان ( کراچی) اینٹی اینکروچمنٹ آپریشنز وقتاً فوقتاً کیے جاتے ہیں، مگر تجاوزات کا مستقل حل موجود نہیں۔دکانداروں کو کسی متبادل مارکیٹ میں منتقل کرنے کا نظام موثر طریقے سے نافذ نہیں ہو سکا۔
پاکستان بزنس فورم کراچی کی تجویز: دنیا کے ترقی یافتہ شہروں میں سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر کاروبار کو ایک ضابطے کے تحت لایا جاتا ہے، جبکہ کراچی میں یہ زیادہ تر غیر منظم ہے۔ اگر کراچی میں بھی فٹ پاتھ وینڈنگ کے لیے مخصوص زونز قائم کیے جائیں تو دکانداروں کو قانونی طور پر کاروبار کرنے کا موقع ملے گا۔ فٹ پاتھ اور سڑکیں بلاک ہونے سے بچ جائیں گی، ٹریفک کی روانی بہتر ہوگی۔ حکومت کو باقاعدہ ٹیکس ریونیو حاصل ہوگا۔ اینٹی اینکروچمنٹ کارروائیوں میں کمی آئے گی، اور دکانداروں کا نقصان کم ہوگا۔ پاکستان بزنس فورم کراچی (PBF)اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے تمام حکومتی اداروں، بشمول صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کراچی میں بھی بین الاقوامی ماڈلز کے مطابق اسٹریٹ وینڈنگ کو قانونی دائرے میں لایا جائے، تاکہ تاجر برادری اور شہری دونوں کو فائدہ ہو۔ اپنی رائے دیں، اس پیغام کو دوسرے دکانداروں تک پہنچائیں، اور اس تحریک کا حصہ بنیں تاکہ کراچی میں کاروباری سرگرمیوں کو بہتر بنایا جا سکے۔

جواب دیں

Back to top button