ColumnImtiaz Aasi

رمضان المبارک اور مدینہ منورہ کی یادیں

تحریر : امتیاز عاصی
حرمین شریفین مسلمانان عالم کا مرکز اور دلوں کی دھڑکن ہے جہاں صبح و شام انوار برستی ہے۔ یوں تو زائرین کی آمد کا سلسلہ پورا سال جاری رہتا ہے البتہ ماہ صیام شروع ہوتے ہی دنیا بھر سے شمع رسالت کے پروانوں کی تعداد معمول سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ اس ناچیز کو دو مرتبہ رمضان المبارک میں روضہ اقدس میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ ایک اس وقت جب میں مدینہ منورہ میں دو پاکستان ہائوسز کا نگران تھا اور دوسری مرتبہ مجھے وطن عزیز سے جانے کا اعزاز حاصل ہے۔ سعودی عرب اور دوسرے ملکوں سے آنے والے زائرین کی حتی المقدور کوشش ہوتی ہے وہ زیادہ سے زیادہ روضہ داروں کا افطار کرا کر ثواب حاصل کریں۔ مدینہ منورہ میں یورپی ملکوں میں رہنے والے پاکستانیوں کی بڑی تعداد سحر وافطار دونوں کا نہایت عمدگی سے بندوبست کرتی ہے۔ ان کی زیادہ سے زیادہ کوشش ہوتی ہے وہ پورا مہینہ مدینہ منورہ میں قیام کرکے زائرین کو سحر و افطار کرائیں۔ جن دنوں میں عازمین حج و عمرہ کو تربیت دیا کرتا تھا، زائرین کو یہ بات باآور کرائی جاتی تھی وہ رمضان المبارک میں کھانے پینے کا اپنے طور پر بندوبست نہ کریں مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ کے اندر اور باہر دونوں جگہوں میں افطار کے وسیع پیمانے پر انتظامات ہوتے ہیں۔ سعودی شہری ایک سے ایک بڑھ کر زائرین کو افطار کرانے کی سعادت میں لگا ہوتا ہے ۔دنیا کے کسی مذہب میں اس طرح کا نظم وضبط دیکھنے کو نہیں ملتا زائرین حق تعالیٰ کی رضا کے حصول میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے اندر افطار دسترخوانوں پر زائرین کے لئے روٹی، دہی ،کھجوریں اور ذائقہ در مصالحہ کے ساتھ زم زم فراہم کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم پاکستان میں دہی پر ڈالنے کے لئے چاٹ مصالحہ استعمال کرتے ہیں سعودی عرب کا تیارکردہ اس نوع کا مصالحہ جسے عربی میں دوکا کہتے ہیں موجود ہوتا ہے جس کا منفرد ذائقہ ہوتا ہے جوزائرین کے لئے وافر مقدارمیں موجود ہوتا ہے ۔سعودی حکومت نے مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ شریف میں نظم و ضبط قائم رکھنے کیلئے مذکورہ چیزوں کے علاوہ کھانے پینے کی کسی اور چیز کو اندر لانے کی اجازت نہیں دیتی ۔مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے باہر ماحول خاصا مختلف ہوتا ہے سعودی اور دیگر ملکوں سے آنے والے زائرین اپنے طور پر افطار کے لئے کھانے پینے کی جو چیز چاہیں افطار دسترخوان پر رکھ سکتے ہیں۔ عصر کی نماز ختم ہوتے ہی افطار دسترخوانوں کے بچھانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ میں سرکاری اہل کار دسترخوان بچھانے کا کام کرتے ہیں جب کہ باہر زائرین اپنے طور پر دسترخوان لگاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے سعودی بچے زائرین کو افطار کے لئے اپنے اپنے دسترخوانوں پر آنے کی دعوت دیتے ہیں۔گویا یہ سلسلہ رمضان کے پورے مہینے جاری رہتا ہے۔سحری کے وقت زیادہ تر زائرین مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ سے باہر سحری کرتے ہیں جہاں سعودی شہریوں اور دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے زائرین سحری کا عمدگی سے انتظام کرتے ہیں۔مدینہ جسے لوگ یثرب سے یاد کرتے تھے سرکار دو جہاںؐ کی آمد سے مدینہ منورہ بن گیا۔ کئی برس پہلے تک نماز عشاء کے بعد زائرین کو مسجد نبوی میں داخلے کی اجازت نہیں ہوتی تھی مرحوم شاہ عبداللہ نے اقتدار سنبھالتے ہی مسجد نبوی کو زائرین کے لئے صبح شام کھولا رکھنے کا حکم دے دیا۔ رمضان المبارک شروع ہوتے ہی مدینہ منورہ کے وہ خوبصورت مناظر آنکھوں کے سامنے سیکرین کی طرح چلنے شروع ہو جاتے ہیںجہاں دن رات انوار کی برسات جاری رہتی ہے ۔بنی آخرالزمانؐ نے ایسے ہی نہیں فرمایا تھا مدینہ منورہ تمہارے کے لئے باعث خیروبرکت ہے۔ جبل احد بارے فرمایا احد جنت کے پہاڑوں میں سے ہے۔ مسجد نبویؐ میں عثمانی عہد کی تعمیر دیکھ کر انسان ورطہ حیرت میں رہ جاتا ہے جیسے چند روز پہلے اس کی تزئین وآرائش کی گئی ہو ۔مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ کی تزئین وآرائش کے لئے جو کیمیکل استعمال ہوتا ہے وہ جرمن سے درآمد کیا جاتاہے ۔اس مقصد کے لئے کمپنی کا سعودی حکومت سے مستقل معاہدہ ہے وہ مسجد نبویؐ اور مسجد الحرام میں استعمال لایا جانے والا کیمیکل کسی اور ملک کے لئے تیار نہیں کیا جاتا ۔دنیا کے کسی مذہب کو یہ اعزاز حاصل نہیں اتنی بڑی تعداد میںزائرین بیک وقت ایک جگہ جمع ہو کر نمازوں کی ادائیگی کرتے ہیں ۔ ماہ مقدس کے آخری عشرے میں زائرین کی بڑی تعداد مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ میں اعتکاف کرتی ہے ۔ زائرین کے لئے اس سے بڑی اعزاز کی اور کیا بات ہوگی وہ مسجد نبوی میں سرور کائناتؐ کے روضہ اقدس کی زیارت کے ساتھ نبی کریمؐ کے زندگی کے دو ساتھیوں کے مرقد کی زیارت کی سعادت حاصل کرکے قلوب کو گرماتے ہیں۔ وہ جو حیات مبارکہ میں نبی کریم ٔ کے ساتھ تھے آخرت میں بھی ساتھ ہیں۔اگرچہ سعودی حکومت نے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کو بڑی وسعت دے دی ہے تاہم اس کے باوجود مسجد نبویؐ کے قریب وہ چند مساجد موجود ہیں، جن کی نسبت کسی نہ کسی حوالے سے آقائے دوجہاںؐ سے ہے۔ جیسا کہ مسجد غمامہ، مسجد اجابہ، مسجد بلالؓ، مسجد ابو بکر صدیقؓ ، مسجد علیؓ آج بھی موجودہ ہیں، عہد عثمانی میں ان مساجد کی تزین وآرائش پر توجہ دی جاتی تھی بالکل اسی طرح آج کل بھی تزئین وآرائش کا سلسلہ جاری ہے۔ نماز تراویح کے روح پرور مناظر کے اثرات دیر تک زائرین کے دلوں پر رہتے ہیں۔ مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں نظام و ضبط دیدنی ہوتا ہے کیا مجال کوئی زائر کسی سے دھکم پیل کرے زائرین دعائوں اور مناجات میں مصروف رہتے ہیں۔ ساتھ بیٹھے زائر کو دوسرے سے بات چیت کرنے کا دھیان نہیں ہوتا زائرین منعم حقیقی کو راضی کرنے کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ اس خاکسار کو جب کبھی روضہ اقدس میں مقصورہ شریف کے بالمقابل کھڑے ہونے کا موقع نصیب ہوتا ہے آنسوئوں کی جھڑی لگ جاتی ۔
ادب گاہیست زیر آسمان از عرش نازک تر
نفس گم گردہ می آید جنیدو بایزیدایں جا
یعنی زیر آسمان حضرت محمدؐ کا شہر ایک ایسی ادب گاہ ہے جہاں حضرت جنید بغدادی اور بایزید بسطامی جیسے عظیم الشان ولی سانس روک لیتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button