ColumnQadir Khan

سعودی عرب روس اور یوکرین کے درمیان امن مذاکرات کا اہم مقام

 

تحریر : قادر خان یوسف زئی
سفارت کاری کے میدان میں یقین سے زیادہ بے یقینی اہم ہوتی ہے۔ جنگوں کے شعلے اٹھتے ہیں، گولے بارود برستے ہیں، شہر کھنڈرات میں بدل جاتے ہیں اور پھر یہی جنگیں بالآخر مذاکرات کی میز پر ختم ہوتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر جنگ کا انجام اسی میز پر ہوتا ہے جس سے ابتدا میں نظریں چرائی گئی ہوں۔ روس اور یوکرین کی جاری جنگ بھی اسی تلخ حقیقت کی عکاسی کر رہی ہے۔ یہ جنگ جسے ابتدا میں روس کی طاقت کا مظاہرہ قرار دیا گیا، اب خود روس کے لیے دردِ سر بن چکی ہے۔ تین برس گزرنے کے باوجود کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ جنگ کی طوالت نے یوکرین کو بھی عسکری اور معاشی طور پر زخم خوردہ کر دیا ہے مگر مزاحمت کے جذبے کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ دوسری جانب روس، جس نے محض چند ہفتے میں کیف فتح کرنے کا دعویٰ کیا تھا، آج ماسکو کو ڈرون حملوں سے محفوظ رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ یوکرین کے حالیہ ڈرون حملے نے روسی دارالحکومت کو بند کرنے اور دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ یہ محض ایک حملہ نہیں بلکہ ایک واضح پیغام بھی تھا کہ جنگ اب یوکرین کی سرحدوں تک محدود نہیں رہی۔
اس جنگ میں عالمی سیاست بھی واضح طور پر تقسیم ہوئی۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے روس کے گرد اقتصادی پابندیوں کا گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی، مگر روس نے اپنی معاشی مضبوطی اور عالمی مارکیٹ میں توانائی کی سپلائی کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ اب تین برس بعد مغرب بھی اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ جنگ کا حل صرف سفارتی مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو کی سعودی عرب آمد اسی احساس کا اظہار ہے کہ عسکری کارروائیوں سے نتائج حاصل کرنا اب مغرب کے لیے بھی ممکن نہیں رہا۔ سعودی عرب کا شہر جدہ، جو ماضی میں مسلم ممالک کی قیادت کے لیے مرکز رہا ہے، اب روس اور یوکرین کے درمیان امن مذاکرات کا اہم مقام بن چکا ہے۔ اس مذاکراتی عمل کا خاص پہلو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا بڑھتا ہوا کردار ہے۔ ماضی قریب تک سعودی عرب کا دائرہ کار صرف مشرق وسطیٰ تک محدود تھا مگر اب اس کا کردار عالمی سفارت کاری میں نمایاں ہے۔ صدر زیلنسکی کی محمد بن سلمان سے ملاقات اسی بدلتی عالمی بساط کا حصہ ہے۔ سعودی عرب نے اپنی سفارتی اہمیت اس تنازع میں واضح طور پر منوا لی ہے۔ زیلنسکی کی سعودی ولی عہد سے حالیہ ملاقات کو سفارتی حلقوں میں غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے کیونکہ یہ ملاقات اس جنگ کو کسی حد تک سفارتی حل کی جانب لے جا سکتی ہے۔دوسری جانب امریکہ کا کردار اس تنازع میں شروع سے دوہرا رہا۔ صدر بائیڈن کے دور میں امریکہ نے روس کے خلاف سخت مقف اختیار کیا جبکہ اب صدر ٹرمپ کی نئی انتظامیہ روس کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے اشارے دے رہی ہے۔ ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کا ماسکو جانا اور صدر پوٹن سے ممکنہ ملاقات کے امکانات، امریکی پالیسی میں بڑی تبدیلی کی جانب اشارہ ہیں۔ یہ تبدیلی خود امریکہ کے لیے بھی پیچیدگی کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ امریکہ کے اندر یوکرین جنگ کے حوالے سے اب بھی اتفاقِ رائے نہیں ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یوکرین نے جزوی جنگ بندی کی تجویز پیش کی مگر روس نے اسے وقت حاصل کرنے کی چال قرار دے کر مسترد کر دیا۔ روس کے لیے فوری جنگ بندی دراصل اپنی ناکامی کا اعتراف تصور ہو گی جبکہ یوکرین کی مکمل عسکری فتح بھی ممکن نہیں رہی۔ ایسے میں مذاکرات ہی وہ راستہ ہے جس پر دونوں ممالک کو بالآخر آنا پڑے گا۔ لیکن سوال اب بھی یہی ہے کہ روس مذاکرات کے لیے رعایت دینے کو کس حد تک تیار ہو گا اور امریکہ یوکرین کی پشت پر کب تک کھڑا رہے گا۔یہ جنگ صرف دو ممالک تک محدود نہیں بلکہ عالمی معاشی بحران، توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور معاشرتی انتشار کو بھی ہوا دے رہی ہے۔ سپری کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق روس کی جانب سے جنگ شروع کرنے کے تین سال بعد یوکرین اب دنیا کا اسلحے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ دوسری طرف امریکہ اب بھی دنیا بھر میں ہتھیاروں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ یورپ کی اقتصادی صورتحال پہلے ہی مشکل سے دوچار ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ کے نتیجے میں یورپ میں مہنگائی اور توانائی کا بحران خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔ اس بحران کے باعث مغرب کی بے چینی اب واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ اس تناظر میں سعودی عرب کی سفارتی مداخلت انتہائی اہم ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے عالمی سطح پر ایک ثالث کے طور پر ابھرنا عالمی طاقتوں کے لیے بھی باعثِ اطمینان ہو سکتا ہے۔ صدر زیلنسکی نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی سفارتی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئے واضح طور پر کہا ہے کہ سعودی عرب حقیقی امن کی جانب اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ بیان محض رسمی نہیں بلکہ اس کے پس منظر میں سعودی عرب کا عالمی سیاست میں مضبوط ہوتا کردار بھی شامل ہے۔یہ جنگ اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ مذاکرات کی میز سج چکی ہے مگر اس میز پر بیٹھنے والے فریقین اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اب بھی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کی ثالثی کی کوششیں، امریکہ کی بدلتی پالیسیاں اور روس ، یوکرین کی مشکلات اس امر کا واضح اشارہ ہیں کہ بالآخر سفارت کاری ہی وہ واحد راستہ ہے جو اس طویل جنگ کو اختتام تک لے جا سکتا ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان جاری یہ جنگ ایک ایسا سبق ہے جو عالمی طاقتوں کو یاد رکھنا ہوگا۔ طاقت کے زور پر قوموں کو جھکایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی محض اقتصادی پابندیوں کے ذریعے بڑی طاقتوں کو مجبور کیا جا سکتا ہے۔ یہ جنگ واضح طور پر ثابت کر رہی ہے کہ مسائل کا دیرپا حل مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
اس امن کے راستے کے کئی دروازے ٹرمپ انتظامیہ کے پالیسی سے جڑے ہیں ، صدر ٹرمپ کا بارہا تبدیل ہوتا رویہ کسی بھی مذاکرات کو کامیاب بھی بنا سکتا ہے اور ناکامی سے دوچار بھی ، کیونکہ وہ ہر حل میں امریکہ کے لئے مالی مفادات تلاش کرتے ہیں جو ان کی مالیاتی پالیسی کا اہم جز ہے۔ جدہ میں ہونے والے مذاکرات جنگ کے خاتمے کی ایک نئی ابتدا ہو سکتے ہیں۔ یہ مذاکرات عالمی سیاست میں نئی سفارتی صف بندیوں کا بھی آغاز کر سکتے ہیں۔ روس اور یوکرین کی جنگ کا انجام چاہے آج ہو یا کل، اس کا فیصلہ بندوق کی نوک پر نہیں بلکہ مذاکرات کی میز پر ہی ہو گا۔ عالمی برادری کو اب یہی حقیقت تسلیم کرنا ہوگی۔ شاید اسی تسلیم شدہ حقیقت میں ہی امن کا راستہ چھپا ہے۔

جواب دیں

Back to top button