ColumnRoshan Lal

جعفر ایکسپریس پر حملہ کے بعد

 

تحریر : روشن لعل
جس جعفر ایکسپریس پر بلوچ لبریشن آرمی نامی علیحدگی پسند تنظیم نے حملہ کیا ، اس کے متعلق کئی لوگ شاید یہ نہ جانتے ہوں کہ اس کا نام قائد اعظمؒ کے ساتھی کہے جانے والے میر جعفر خان جمالی کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اسی میر جعفر خان جمالی کے نام پر 1987ء میں بلوچستان کا مشہور ضلع جعفر آباد قائم کیا گیا ۔ جعفر ایکسپریس کا پرانا نام ، کوئٹہ ایکسپریس تھا، سال 2002ء میں جب مشرف نے ظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم بنایا تو انہوں نے عوام کو یہ باور کرانے کے لیے پاکستان کے ساتھ ان کا کیا سابقہ ہے، کوئٹہ ایکسپریس کا نام اپنے خاندان کے اس بزرگ میر جعفر خان جمالی کے نام پر رکھ دیا جن کا شمار بلوچستان کے ان لوگوں میں ہوتا ہے جو قیام پاکستان کی حمایت میں سرگرم رہے۔ ریلوے کی جس ٹرین کا نام پاکستان کے لیے سرگرم کردار ادا کرنے والے بلوچ سردار میر جعفر خان جمالی کے نام پر رکھا گیا تھا اسی ٹرین کو بلوچ لبریشن آرمی کے علیحدگی پسندوں نے دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔ جس علاقے میں چلنے والی ٹرین کا نام پاکستان بنانے والوں کے نام پر رکھا گیا وہاں اگرچہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگتی جیسے لوگ موجود ہیں جو پاکستان کی وفاداری میں دہشت گردوں کی مذمت کرنے کے ساتھ ان کی سرکوبی کا ارادہ بھی ظاہر کرتے ہیں تو دوسری طرف بلوچ لبریشن آرمی کے لوگ ہیں جن کے لیے لفظ پاکستان اجنبی ہو چکا ہے۔ بلوچستان میں میر جعفر خان جمالی جیسے لوگوں کی موجودگی کے باوجود وہاں قیام پاکستان کے وقت اس ملک کے لیے اجنبیت کا
احساس نمودار ہو چکا تھا۔ اجنبیت کے اس احساس کو ختم کرنا عین ممکن تھا لیکن اسے ختم یا کم کرنے کی بجائے ایسے اقدامات کیے گئے جن سے یہ احساس وقت گزرنے کے ساتھ مزید بڑھتا چلا گیا۔ تاریخ کے صفحات سے یہ حقیقت حذف نہیں کی جاسکتی کہ یہاں ہر دور میں بلوچستان کے عوام کو واجب انسانی و شہری حقوق دیئے بغیر جبراً ریاست سے وفاداری پر مجبور کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ گو کہ ریاستی جبر سے ملک کے کسی بھی حصے کے عوام محفوظ نہ رہے لیکن بلوچستان میں یہ جبر اپنی انتہائی شکل میں ظاہر ہوتا رہا۔ ملک کے دیگر حصوں کے لوگ جو کسی نہ کسی حد تک خود بھی جبر کا شکار تھے انہوںنے بلوچستان کے باغیوں کی طرح ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت تو نہیں کی لیکن قوم پرستی کے نام پر متحرک بلوچوں کے حق میں دیگر قوموں سے کچھ نہ کچھ آوازیں ضرور بلند ہوتی رہیں۔ ماضی کے بلوچ مزاحمت کاروں نے ریاستی جبر کرنے والے کارمختاروں کے خلاف تو مسلح کارروائیاں کیں لیکن دیگر قوموں کی طرف سے اپنے حق میں اٹھنے والی محدود آوازوں کے احترام میں ریاست کا وفادار تصور کیے جانے والے عام لوگوں کو نقصان پہنچانے سے ہمیشہ احتراز کیا۔ اپنے اس رویے کو وہ فخریہ طور پر عظیم بلوچ روایات کی پاسداری قرار دیتے رہے۔ آج کے بلوچ مزاحمت کاروں کے رویوں میں ان ا نسان دوست روایات کا عشر عشیر بھی
نظر نہیں آتا جن پر ان کے بزرگ کاربند رہے۔
آج کے بلوچ مزاحمت کار، ریاستی جبر کرنے والے کارمختاروں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی پے در پے ناکامی کے بعد دوسری قوموں کے ایسے کمزور لوگوں کی جانیں لے رہے ہیں جنہیں کسی طرح بھی ان پر ہونے والے مظالم کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بلوچ لبریشن آرمی جیسی تنظیموں کے پلیٹ فارم سے بلوچ مزاحمت کاروں نے جب سے بلوچستان میں عرصہ دراز سے مقیم دیگر قوموں سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کو بے دردی سے قتل کرنے اور وہاں روزگار اور سیاحت کے لیے جانے والے غیر بلوچوں کو بسوں سے اتار کر ان کی جانیں لینے کا سلسلہ شروع کیا ، تب سے ، اس طرح کی کارروائیاں کرنے والے بلوچوں کو مظلوم نہیں بلکہ ظالم تصور کیا جانے لگا ہے۔ بلوچستان میں مقیم دوسری قوموں کے محنت کشوں کو قتل کرنے کا جو سلسلہ کئی برس پہلے شروع ہوا تھا وہ بسوں سے اتارے گئے غیر بلوچ مسافروں کی جانیں لینے سے جعفر ایکسپریس میں سفر کرنے والوں کو یرغمال بنانے تک جا پہنچا ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی جیسی تنظیموں کے پلیٹ فارم سے اس طرح عام لوگوں کی قتل و غارت کرنے والوں کو ریاستی اداروں نے تو عرصہ پہلے دہشت گرد کہنا شروع کر دیا تھا لیکن اب جعفر ایکسپریس کے مسافروں کو یرغمال بنائے جانے کو نہ صرف انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانے والے ملکوں کی حکومتوں بلکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس تک نے دہشت گردی کی کارروائی قرار دے دیا ہے۔
وہ تمام مسلح کارروائیاں جو جمہوریت کی ضد، انسانی حقوق کی نفی، شخصی آزادیوں کی توہین اور عمومی انسانی تہذیب کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہوں ، انہیں مہذب دنیا میں غیر انسانی تصور کرتے ہوئے بلا جھجھک دہشت گردی قرار دے دیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کو نہ صرف گھنائونا جرم بلکہ قابل نفرت عمل اور غیر انسانی فعل بھی تصور کیا جاتا ہے۔ اس وقت بلا لحاظ رنگ نسل اور مذہب ، دنیا کے ہر ملک میں انسانوں کی غالب اکثریت ان تمام عناصر کو بے رحمی سے کچلنا جائز سمجھتی ہے جو دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں یا ان کے لیے سہولت کاری کرتے ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی کے علیحدگی پسندوں نے جعفر ایکسپریس میں سفر کرنے والے عام انسانوں کو یرغمال بنا کر جو کچھ کیا اسے دہشت گردی کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا ۔ عجیب بات ہے کہ دہشت گردی کا ارتکاب کرنے اور بلوچ لبریشن آرمی کے ساتھ اعلانیہ تعلق ظاہر کرنے والوں کو بعض لوگ دہشت گرد قرار دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔ جو کوئی بھی عام لوگوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کرتا ہے ، وہ چاہے مذہب پرست ہو یا قوم پرست اس کے عمل کے جواز میں پیش کیے گئے ہر موقف کو رد کرتے ہوئے اسے دہشت گرد کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھا جا سکتا۔
جعفر ایکسپریس کے مسافروں کو یرغمال بنانے کا جو عمل عالمی سطح پر دہشت گردی قرار دیا جا چکا ہے وہ اب صرف پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی کے بیچ کا معاملہ نہیں رہا۔ بلوچستان میں جو سماجی عدم توازن اور محرومیاں موجود ہیں ان کی شدت کو تسلیم کرتے ہوئے اب بھی استحصال زدہ بلوچوں کے حق میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ بلوچستان کے عام غریبوں کی جن محرومیوں کے متعلق بہت کچھ کہا جاسکتا ہے انہیں کسی اور نے نہیں بلوچ لبریشن آرمی کے لوگوں نے جعفر ایکسپریس کے مسافروں کو یرغمال بنا کر پس پشت ڈال دیا ہے۔ جعفر ایکسپریس کی دہشت گردی کے بعد اب یہ لگتا ہے کہ اس واقعہ میں اعلانیہ ملوث تنظیموں اور لوگوں کو انسانیت کے خلاف خطرہ قرار دے کر ان کے خلاف ایسی بے رحم کارروائیاں کی جائیں گی کہ جن کی ماضی میں کوئی مثال نہ ہو۔ ان بے رحم کارروائیوں کے دوران جب گیہوں کے ساتھ گھن پسے گا تو ریاست اسے لازمی عمل کا ضمنی نقصان قرار دے کر اس سے صرف نظر کرنے کی کوشش کرے گی۔ اگر ایسا ہوا تو اس کی ذمہ داری کسی اور کی بجائے جعفر ایکسپریس کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والوں پر عائد کی جائے گی۔

جواب دیں

Back to top button