ColumnTajamul Hussain Hashmi

’’ yes we are under attack‘‘

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
یہ انگلش کے پانچ الفاظ رئوف کلاسرا صاحب کے کہے ہوئے ہیں، جو میں نے استعمال کئے ہیں۔ ان الفاظ پر بات اپنے کالم کے آخری حصہ میں کروں گا۔ جعفر ایکسپریس کے مسافروں پر جو گزری، منکروں کو اس حادثے پر شور مچانے کے علاوہ کیا لگے۔ ماسوائے سوشل میڈیا پر سیکیورٹی اداروں پر تنقید کے علاوہ کر سکتے۔ ہم اپنے 21پیاروں اور سیکیورٹی پر مامور جوانوں کیلئے دعاگو ہیں جو اس سانحہ میں شہید ہوئے ، ان کے اہل خانہ کو اللّہ پاک صبر جمیل عطاء کرے، آمین۔
قوم ریاست کے ساتھ کھڑی ہے، ریاست ماں ہے، لیکن منکروں کیلئے ماں کی اہمیت بھی معنی نہیں رکھتی، منکر خود کو سمجھ دار سمجھنے کے بعد بھی ناسمجھی میں ہیں۔ عسکری اداروں کے ساتھ بغض رکھنا اپنی آزادی کے ساتھ بغض رکھنے کے مترادف ہے۔ ویسے ہمارے پاس بچا کیا ہے، ماسوائے ایک عسکری ادارہ، جہاں پر سیاسی چالیں فی الحال کامیاب نہیں ہو سکی۔ ایک دوست سے بات ہوئی، کہنے لگا مشرف دور میں سٹیل ملز منافع کما رہی تھی، میں اس وقت برانچ مینجر تھا، لیکن آج سٹیل ملز کا کیا حال ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کا نام لے کر سیاسی بادشاہوں نے کوششیں تو بہت کی ہیں، لیکن آج بھی یہ بادشاہ افسردہ ہیں۔ باقی دوسرے سول اداروں کی حالت زار سب کے سامنے ہے۔ کیسے ان کو سیاست کی نظر کیا گیا۔ ریاست ایک جسم کی مانند ہے، اس کے کسی ایک حصے کا زخم پورے جسم کیلئے تکلیف دے ہے، کوئی بھی طاقتور ملک خواہ کتنا ہی معاشی طور پر مضبوط ہو وہ ہر جگہ سیکیورٹی کھڑی نہیں کر سکتا۔ وہ خودکش حملوں کو نہیں روک سکتا۔ ہمارے پڑوسی وہ ہیں جن کے ہاں سیکیورٹی کے کئی مسائل ہیں، ہمارے خطرات میں اضافہ انہی کے مسائل سے جڑا ہے۔ ہم اپنے ہمسائے بدل نہیں سکتے اور ہر جگہ سیکیورٹی کھڑی کر نہیں سکتے۔ معاشی طور پر اتنے مضبوط بھی نہیں ہیں۔ نوجوان طبقہ بے روزگار ہے ، انکم سپورٹ پروگرام ، اور دستر خوان پر سب کو لگا دیا ہے، سیکیورٹی کیلئے اچھا خاص بجٹ درکار ہوتا ہے، جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں کیا مقصود ہونا چاہئے۔ میرے مطابق سیاسی حکومتوں و جماعتوں کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی ہو گی ۔ سیاسی جماعتوں کو ہوش سے بھی کام لینا چاہئے۔ نعروں اور مقدمات سے دوسروں کو فاتح کرنے کی سوچ کو ختم کرنا ہو گا ۔ ملک جمہوری ہے، جس کا ووٹ اسی کا وزیر اعظم ہائوس، لیکن ’’ میں نہ مانو‘‘ والی سوچ نے ملک کو کمزور کر دیا ہے۔ اسی سوچ کا آج تک شکار ہیں۔ نئی نسل اس سوچ کے مخالف ہے۔ وہ تسلیم نہیں کرتی۔ اپنی خوداریت پر قائم رہنا ہو گا ۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا ’’ امن کے مقصد کو حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کیلئے اس ترغیب و تحریص کو ختم کر دیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کمزور ہیں تو اس لیے وہ ہماری تذلیل بھی کر سکتے ہیں اور ہم پر حملہ کر سکتے ہیں یہ ترغیب صرف اسی صورت میں دور ہو سکتی جب ہم اتنے طاقتور ہوں کہ کوئی ہمارے خلاف جارحانہ ارادے باندھنے کا حوصلہ نہ کر سکے‘‘۔
ریاست پاکستان پر اللّہ کا فضل ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں لیکن ہمارے سربراہوں نے قوم کو بدنصیبی کی طرف دھکیل دیا ہے ، ہمارے پاس قرآن ہے، ہمارے پاس نظام مصطفیٰ ؐ ہے، لیکن ہماری آنکھ ، کان اور ناک سب کچھ بند کروا دیا گیا ہے ، لیڈر خود تو بیرونی کٹھ پتلی ہیں اور قوم کو بھی کٹھ پتلی بنا رہے ہیں، قومی خزانوں کے چور ہیں اور اب قوم کو بھی چوری پر لگا دیا ہے، یہ خود انصاف پسند نہیں اور اب گلی محلوں میں رہنے والوں کو بھی انصاف اچھا نہیں لگتا۔ پیسے اور سرکاری نمبر پلیٹ سے اداروں پر قابض ہیں اور اب عوام اداروں کو بھی فروخت کنندہ سمجھ رہی ہے ، پیسہ دو سب خرید لو ، عزت، وقار اور یہاں تک قومی راز بھی، یہ افراتفری اور بے راہ روی سیاست دانوں کی پیدا کردہ ہے۔ جو چار چار بار حکومت کرنے کے بعد بھی قوم کو جھوٹے وعدے اور دلاسے دے رہے ہیں، کیا اس طرح حالات کنٹرول ہو جائیں گے۔ بادشاہت میں بادشاہ ہی سکون میں رہتا ہے، قوم غلامی میں چلی جایا کرتی ہے۔ ہم خود کو جمہوری کہتے ہیں لیکن ہمارے فیصلہ غیر جمہوری ہیں ، ہم آئین کے تقدس کی بات کرتے ہیں لیکن خود آئین کو پامال کرتے ہیں۔ آٹا سستا کرتے ہیں تو چینی مہنگی کر دیتے ہیں ، کون جمہوری، کون سچا ہے، آج تک قوم کو سمجھ نہیں آ سکی، کیوں تعلیم ہی وہ ذریعہ تھی جس سے تبدیلی آنی تھی، اس میں تفریق پیدا کر دی ہے۔ باقی رہ گئی زراعت، جو غریبوں کو پال رہی تھی ان پر بھی بلڈرز قابض ہو چکے ہیں۔ کہاں ہیں جمہوری لیڈر ان کے پاس کوئی جواب و جواز نہیں رہا۔
اب آتے ہیں اس حصے کی طرف کہ’’ yes we are under attack‘‘۔ کسی بھی عمل یا رد عمل کو تسلیم کرنے کی جرات اس انسان میں ہوتی ہے جس کا کردار صاف ستھرا ہو، جو عوامی ووٹوں سے منتخب ہو۔ باقی جہاں تک بلوچستان ٹرین حملہ کی بات ہے تو یقینا سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر میڈیا کو محتاط کوریج کی ہدایت ہو گی۔ سیکیورٹی ادارے ایکشن سے بخوبی واقف ہیں کہ ان کو کیا کرنا ہے ، لیکن بات حکومتی رویہ کی ہے، جس کی سمجھ نہیں آ رہی ، جو کردار سیاسی جماعتوں کو ادا کرنا چاہئے تھا وہ خاموش ہیں۔ بر وقت معلومات کی فراہمی ان منکروں کی موت تھی جو فیک نیوز پھیلا رہے تھے۔ دنیا بھر میں ایسے حالات میں حکومتیں فورا قوم کا اعتماد حاصل کرتی ہیں ۔ حکومت کی خاموشی نا قابل فہم رہی۔ ہمارے ادارے تو اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے معاملات، ان کا طرز معاشرت پاکستان سے بہت مختلف ہے، ترقی یافتہ ممالک کا اپنے ملک کے ساتھ مقابلہ کرنا بنتا نہیں ہے۔ ان ممالک کی ڈائنامکس ہماری ڈائنامکس سے بہت مختلف ہیں، ان کے ہاں انصاف کی بالا دستی ہے۔ ان کے سیکیورٹی خطرات ہمارے ہاں کے خطرات سے بہت مختلف ہیں، ان کے پڑوسی ہمارے ہمسائیوں سے مختلف ہیں۔

جواب دیں

Back to top button