حسن

تحریر : صفد ر علی حیدری
یہ جہاں کیا ہے پیار کا پھیلائو ہے۔ گویا سراسر حسن ہے کہ پیار سے بڑھ کر حسین کوئی اور کچھ بھی نہیں ۔ وہ خود بھی تو جمیل اور جمال پسند بھی۔ یہی نہیں بلکہ اس کی بنائی ہوئی ایک ایک چیز حسین ہے، صرف حسین اور بس حسین ۔ اس کا بنایا ہوا انسان حسین اور ایک ایک چہرہ حسین ہے ۔ سارے حسین نام اسی کے ہیں۔ سارے حسین کام اسی کے ہیں۔ بدصورتی اس کی ذات میں ہے نہ صفات ہیں۔ مخلوق میں ہے نہ ارادے میں۔ وہ بدصورتی نہیں چاہتا ۔ اس نے سب کو حسین فطرت پر پیدا کیا۔ وہ اس میں تبدیلی نہیں چاہتا۔ وہ کسی کو بھی، خاص طور پر انسان کو بدصورت نہیں دیکھنا چاہتا۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کی یہ اعلیٰ مخلوق اپنے فطری حسن سے ہاتھ دھو بیٹھے ہاں مگر اسے جبر بھی منظور نہیں۔ وہ اکراہ کو پسند نہیں کرتا کہ اکراہ بدصورتی ہے اور اختیار حسن۔ وہ چاہتا ہے اس کا بندہ اپنے ارادے، اپنی مرضی سے اس کی جانب قدم بڑھائے۔ اس کے عشق کے ہاتھوں مجبور ہو کر۔ اس نے نفس میں بھی نیکی اور بدی کا شعور ودیعت کیا ہے اور اس پر مستزاد، اس نے انسان کی ہدایت کے لیے ، اس حسن اختیار کی خاطر ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے۔
کہتے ہیں جب عزازیل شیطان بنا، راندہ درگاہ ہوا تو اس نے انسان کے ساتھ ہمیشہ کی دشمنی کا عہد کیا۔ وہ بولا تو نے جس کی خاطر مجھے میرے مقام سے گرایا ہے، میں اسے بہکائوں گا، آگے سے، پیچھے سے، دائیں اور بائیں سے۔
اس پر خالق نے جواب دیا: تو نے دو پھر بھی سمتیں چھوڑ دیں۔ یہ ہاتھ اٹھائے گا میں معاف کر دوں گا، یہ سر جھکائے گا میں معاف کر دوں گا۔
سورہ آل عمران نے گواہی دی ہے کہ وہ سراپا خیر ہے، قادر ہو کر بھی۔ وہ سب کچھ کر سکتا ہے مگر کبھی وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ اس سے بدصورتی کا ظہور ممکن نہیں ہے۔ وہ بے انصافی نہیں کر سکتا۔ وہ ظلم کو پسند نہیں کرتا۔ وہ عدل کرتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر فضل کرتا ہے۔ اگر کوئی یہ وعدہ کرتا ہے وہ اپنے کردار کی بدصورتی کو خوب صورتی میں بدلنے کی سعی کرے گا، وہ اسے صرف وعدے پر ہی معاف کر دیتا ہے۔
اس کائنات کی پہلی بدصورتی حسد تھی۔ جو عزازیل کو شیطان بنا گئی۔ ستم دیکھیے کہ انسان سے بھی پہلا گناہ یہی سرزد ہوا۔ اس نے رشک جیسی خوب صورتی کو حسد جیسی بدصورتی میں بدل دیا۔ پہلی بار ابن آدم نے میرٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ خالق کل نے ہابیل کے سر پر وصایت کا تاج رکھا تو قابیل کا حق بنتا تھا کہ وہ جمہوری رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بھائی کو مبارک باد پیش کرتا اور خدائی فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے سر تسلیم خم کرتا مگر ہوا اس کے برعکس۔ اس نے پہلے اس نے آگ جلا کر پوجا شروع کر دی ۔ گویا اس نے کرہ ارض پر شرک کی پہلی اینٹ رکھ دی۔
شاید قابیل کو خود کو بھی یہ احساس ہو گیا تھا کہ وہ ہابیل سے بہتر نہیں ہے۔ اب یہاں پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اپنے کردار میں در آئی بدصورتی کو حسن اور خوب صورتی میں بدلنے کی کوشش کرتا۔ مگر اس کے شیطان کی روش اپناتے ہوئے خود کو اونچا کرنے کے لیے بھائی کو گرا دیا۔
شیطان اور آدم میں ایک فرق یہ بھی تو تھا کہ جب آدم سے ترک اولیٰ ہوا تو اس نے معافی مانگی مگر شیطان نے مہلت۔ آدم نے سر جھکا دیا جب کہ شیطان خدا کے مقابلے میں کھڑا ہو گیا۔ حالاں کہ وہ خوب جانتا تھا کہ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اس کے لیے دو دو باغ ہیں، دوہرے انعامات ہیں۔
حسن کے خالق نے انسان کی حسین فطرت میں حسن سے پیار کا جذبہ گوندھ دیا تھا مگر انسان کو حسن راس نہ آیا سو اس نے خوب کو بگاڑ کر حسن کو بدصورتی کے بھاڑ میں جھونک دیا۔ ہر انسان کی فطرت کمال سے عشق کا جذبہ موجود ہے۔ کمال حسن ہے اور زوال بدصورتی۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان اپنے کمال کو زوال بنانے کے درپے ہیں۔ انسان کو پیار کی تعلیم دی گئی مگر اس کا پیار اس کی ذات سے آگے نہ بڑھ سکا۔ ہر حسن اس کی انا کے آگے ماند پڑ گیا ۔ اب وہ بس خود سے پیار کرتا ہے اور اپنی ذات سے جڑی ہوئی چیزوں اور رشتوں سے۔ اور اس سے جو اس سے پیار کرتا ہے۔ جبھی تو دنیا کی ہر اچھائی اسے خود میں دکھائی دیتی ہے۔ اپنا برا سے برا اور بدصورت سے بدصورت جذبہ اسے حسین اور صرف حسین نظر آتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا بہت سے لوگ اپنی گفتگو میں، خود کو اپنے کام کو اپنی عادتوں کر برا کہتے نہیں تھکتے مگر خود کو ٹھیک کرنے ، اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش نہیں کرتے۔
اصلاح بھی ایک حسن ہے۔
بقول شاعر
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
خوب سے خوب کی تلاش اسے خود سے دور کر دیتی ہے۔ کبھی سنگ ریزے میں لکھا تھا’’ سکون کی تلاش مجھے سارا دن بے سکون رکھتی ہے ‘‘۔ ہم ہر اچھی چیز اپنی دیکھنا چاہتے ہیں اور اصلاح دوسرے کی، جب جب ہمیں معاشرے کی اصلاح کا خیال آتا ہے، ہم دوسروں کی اصلاح کے لیے گھر سے نکل پڑتے ہیں۔ حالاں کہ ہمیں بتایا گیا تھا، سمجھایا گیا تھا۔
اول خویش بعد درویش
اب آپ ملاحظہ فرمائیں کہ ہمارا رویہ ہماری باتیں، ہمارے کام، ہماری سوچ کا حد تک خوب صورت ہے۔ اس میں کس حد تک بدصورتی رل مل ( گھل مل ) گئی ہے۔
خوف ایک مثبت اور حسین جذبہ تھا ہم نے اس میں اندیشے کی بدصورتی ملا لی
رشک کی خوب صورتی کو حسد میں بدل دیا
آگے بڑھنے ترقی اور ارتقاء کے حسین جذبے کو مقابلے بازی کی بدصورتی نے گہنا کے رکھ دیا
آسودگی نے ہمیں مال جمع کرنے پر لگا دیا۔ پیسوں تجوریوں میں اور بنکوں میں پڑے سڑ رہے ہیں مگر ہمارا دل نہیں کرتا کہ ہم اپنے کسی ضرورت مند بھائی کی مدد کر سکیں۔ سود کی بدصورتی نے قرض حسنہ کے حسن کو ملیامیٹ کر ڈالا ۔ اگر ہمیں اپنے احتساب کی فکر ہو تو ہمیں نظر آئے کہ ہم نے تو اپنی کرداری خوب صورتیوں کو کچھ کچھ بدصورتی میں بدل دیا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ انسان حسن کا رسیا ہے مگر ہر انسان کے حسن کا پیمانہ مختلف اور الگ الگ سا ہے۔ سچ ہے ہمارے لینے کے باٹ اور ہیں ، دینے کے اور۔
میٹرک کی انگریزی کی کتاب میں ایک سبق کا عنوان تھا ’’ باپ کی نصیحت‘‘۔
اس میں انسان کی اصلاح کا کیا شان دار نسخہ دیا گیا ہے، آج کے اس مختصر کالم کا اختتام اسی پر کرتے ہیں، باپ بیٹے سے کہتا ہے، کسی بھی چیز کی اچھائی اور برائی جاننے کا پیمانہ تم خود ہو۔ تم کوئی بھی طرز عمل اپنانے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ جو تم دوسروں کے ساتھ کر رہے ہو کیا وہ خود تمہیں اپنے لیے بھی پسند ہے۔ گویا کسی کی بے عزتی نہیں کرنی چاہیے کہ ہمیں کبھی یہ بات پسند نہیں آ سکتی کہ کوئی ہماری توہین کرے۔ یہاں پر مجھے اپنے پیارے نبی کی حدیث یاد آ گئی ہے۔ مفہوم کچھ یوں ہے کہ تب تک تمہارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرو جو تھیں اپنے لیے پسند ہو۔
جناب امیر کا ایمان تو اس سے بھی بڑھ کر تھا ۔ ایک بار اپنے غلام قنبر کے ساتھ بازار گئے اور دو سوٹ خریدے۔ ایک عام اور دوسرا مہنگا۔ آپ نے مہنگا سوٹ اپنے غلام کو دے دیا۔ غلام نے پس و پیش سے کام لینا چاہا تو فرمایا تو جوان آدمی ہے تیرا حق بنتا ہے کہ تو اچھا لباس زیب تن کر ۔ یہ ہے اصل خوب صورتی ، ایک ایسی خوب صورتی جس کے سامنے تمام بدصورتیاں منہ چھپا جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی فطری خوب صورتی کی طرف پلٹ آئیں،آمین ثم آمین یا ربّ العالمین!